توہینِ مذہب کے مقدمات کا ایک حساس پہلو
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
’’سوال میں ذکر کردہ قدرت اللہ کمپنی کا چھپا ہوا تجویدی قرآن مجید نمبر ۵۷ میں نے بغور بعض جگہوں سے دیکھا ہے، جن سورتوں کے نام مرتب نے تبدیل کیے ہیں، روایات سے ان کا ثبوت تو اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن یہ ہمارے ملک میں غیر معروف ہیں جس کی وجہ سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مزید فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ وہ یہ تو کر سکتے تھے کہ معروف نام لکھ کر بین القوسین غیر معروف نام ذکر کر دیے جائیں لیکن مرتب نے ایسا نہیں کیا۔ نیز رسم الخط میں خط عثمانی کی اتباع بالاجماع واجب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود دلی خواہش اور جائز ہونے کے خانہ کعبہ کی (ابراہیمی بنیادوں پر) ازسرنو تعمیر نہیں فرمائی تھی کہ کہیں امت میں فتنہ برپا نہ ہو جائے۔ لہٰذا سد الفتنہ (فتنہ کے امکان کو روکنے کے لیے) مذکورہ قرآن مجید کی اشاعت پاکستان میں فی الفور بند کی جائے یا اس کی اصلاح کی جائے۔‘‘
جبکہ جامعہ خیر المدارس ملتان کے حضرت مولانا مفتی عبد الستار نے یہ تحریر فرمایا کہ:
’’حفاظت قرآن پاک کا مسئلہ نہایت حساسیت کا حامل ہے خصوصاً جبکہ یہود و نصارٰی کی طرف سے تحریف قرآن پاک کی سازشیں بھی چل رہی ہیں اس لیے امکانی حد تک کسی تغیر و تبدل سے احتراز لازم ہے۔ مذکورہ تبدیل شدہ نام اگرچہ اصول تفسیر کی بعض کتابوں میں ملتے ہیں تاہم امت میں فتنے اور انتشار کا سبب ہونے کی بناء پر اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی جائے تاکہ آئندہ چل کر اسے اختلاف فی القرآن کی دلیل نہ بنا لیا جائے۔ نیز یہ تعامل کے بھی خلاف ہے۔‘‘
پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اس پر ۱۲ فروری ۲۰۰۲ء کو مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کا ایک اجلاس لاہور بورڈ کے دفتر میں طلب کر لیا جس میں مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا عبد المالک خان ایم این اے، پروفیسر عبد الجبار شاکر، محترم میاں نعیم الرحمان اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ اجلاس میں ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد جس رائے کا اظہار کیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے:
’’مذکورہ سورتوں کے تبدیل شدہ نام اگرچہ روایات سے ثابت ہیں لیکن ہمارے ہاں متعارف نہیں ہیں۔ اسی طرح سعودی رسم الخط ہمارے ہاں بعض دیگر حوالوں سے بھی معروف نہیں ہے اس لیے اس سے عام مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا آئندہ اس قسم کے نسخے کی اشاعت سے گریز کیا جائے اور قدرت اللہ اینڈ کمپنی ایک وضاحتی نوٹ چھپوا کر مطبوعہ قرآن کریم کے ہر نسخے پر چسپاں کرے۔‘‘
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس اجلاس میں، جس میں محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکشن آفیسر جناب محمد صدیق منہاس اور دیگر بعض افسران نے بھی شرکت کی، قرآن کریم کی حرمت و تقدس کے حوالے سے لاہور میں ہونے والا ایک اور واقعہ بھی زیر بحث آیا جو قارئین کی دلچسپی کی خاطر پیش خدمت ہے۔
لاہور کے ایک کاروباری بزرگ جناب ناظم الدین پنجاب قرآن بورڈ کے ممبر ہیں اور قرآن کریم کے پرانے اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ انہیں گزشتہ ہفتے لاہور میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے ایک واقعہ کی نشاندہی پر پولیس نے گرفتار کر لیا۔ یہ داستان خود انہی کے قلم سے ملاحظہ کیجیے جو انہوں نے مذکورہ بالا اجلاس میں پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کو پیش کی۔
’’کل بعد نماز جمعہ نہر میں پڑے شہید قرآنی اور مقدس اوراق کے بارے میں ۱۵ پر پولیس کو اور خبریں اخبار کو اطلاع دی تو خود مجھے ہی پولیس نے اس واقعہ کا ملزم سمجھا اور تقریباً ۶ گھنٹے جوہر ٹاؤن اور تھانہ گرین ٹاؤن میں تفتیش کرتی رہی۔ میرے دو ہمسائے جو وہاں سے گزر رہے تھے مجھے دیکھ کر رکے انہیں بھی میرے ساتھ یہ شرمندگی چھ گھنٹے تھانے میں رہ کر برداشت کرنا پڑی جنہیں وہ میرے ساتھ تھانہ لے گئے۔ میں نے انہیں یہ باور کرانے کی بہت کوشش کی کہ میں ایک ذمہ دار آدمی ہوں اور زندگی کا بہت قیمتی وقت اس عظیم کارخیر میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہوں۔ میں تو اسے (قرآن کریم) توہین اور بے ادبی سے بچانے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر رہا ہوں اور پنجاب قرآن بورڈ کا ممبر بھی ہوں۔ مگر میرا موبائل اور گاڑی اپنے قبضے میں رکھی، کچھ ریکارڈ میری گاڑی میں شہید قرآن عظیم اور نشر و اشاعت سے متعلق تھا جو میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں وہ اسے چیک کرتے رہے۔ اس واقعے سے جہاں میری ہمسایوں کے سامنے بے عزتی ہوئی وہاں گھر والے بھی سخت پریشان رہے، مسلسل چھ گھنٹے پوچھ گچھ کی گئی پھر رہائی ملی۔‘‘
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اجلاس میں بتایا کہ جناب ناظم الدین نے اس حراست کے دوران کسی طرح انہیں موبائل فون پر اطلاع کروا دی تھی جس پر انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے خود بات کی اور بڑی مشکل سے یہ سمجھا پائے کہ ناظم الدین صاحب ایک شریف شہری ہیں، پنجاب قرآن بورڈ کے معزز رکن ہیں اور ایک عرصے سے قرآن کریم کے بوسیدہ نسخوں اور اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تب جا کر انہیں لاہور پولیس کی تفتیش سے نجات ملی ورنہ خدا جانے انہیں دہشت گردی کے کون سے کیس میں ڈال دیا جاتا کیونکہ تفتیش کے دوران ان سے مسلسل یہی پوچھا جا رہا تھا کہ ان کا تعلق کس دہشت پسند تنظیم سے ہے؟
اجلاس میں اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے پنجاب پولیس کے اس طرز عمل پر شدید احتجاج کیا گیا اور حکومت پنجاب اور آئی جی پولیس سے اس کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
چنانچہ اس قسم کے واقعات قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت اور ان کے جذبات کی شدت و حساسیت کی علامت ہیں جس کا مسلم حکومتوں اور مغرب کو بہرحال احترام کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا قاری محمد حنیف جالندھری پنجاب قرا ن بورڈ کے اجلاس میں کے لیے
پڑھیں:
سانحہ فیصل چوک مال روڈ کے شہداء کی آٹھویں برسی، پنجاب پولیس کی جانب سے خراج عقیدت
لاہور:آج 8 ویں برسی پر پنجاب پولیس نے سانحہ فیصل چوک (چیئرنگ کراس) کے بہادر شہیدوں کو یاد کیا، جو ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر گئے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن شہداء کے ساتھ تجدید عہد کا ہے۔
2017ء میں آج کے دن، فیصل چوک مال روڈ لاہور پر 7 پولیس افسران اور اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا.
شہداء میں ڈی آئی جی سید احمد مبین، ایس ایس پی زاہد گوندل، اے ایس آئی محمد امین، ہیڈ کانسٹبل عصمت اللہ، اور کانسٹیبلز محمد اسلم، عرفان محمود، اور ندیم تنویر شامل ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ شہید پولیس افسران اور جوانوں کی قربانیاں ہمیشہ دلوں میں تازہ رہیں گی۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پنجاب پولیس 1650 سے زائد شہداء کی قربانیوں کی امین ہے اور دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔
ڈاکٹر عثمان انور نے شہداء کے اہلخانہ کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات اور قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
ترجمان پنجاب پولیس نے اس عزم کی تجدید کی کہ شہداء کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔