سرمایہ داری اور لالچ کا متبادل صلہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
دنیا میں دولت کی ہوس آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ شائد یہ سرمایہ داری نظام کی کرامت ہے یا انسانی لالچ کا نتیجہ ہے، جو بھی ہے انسان کی اخلاقی اقدار کے مقابلے میں اب دولت ہی انسان کا دھرم بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ آج روپے پیسے کی خاطر ایک انسان دوسرے انسان کی جان تک لے لیتا ہے۔ چند سال قبل ’’کیپٹل ازم‘‘کے مرکز لندن میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے مطابق دو سیاہ فاموں نے محض دو پائونڈ فش کے بدلے میں ایک ایشیائی کو چاقووں سے حملہ کر کے قتل کر دیا تھا۔ دنیا میں ’’قاتل تنظیموں‘‘، ’’مافیاز‘‘اور’’انڈر ورلڈ‘‘ کا منشور ہی دولت اور ذرائع کے بدلے میں انسانوں کی جان لینا ہے۔ اس پر مستزاد دنیا کا سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار اسلحہ سازی ہے جس پر ہر سال دنیا بھر کے ممالک ٹریلئینز آف ڈالرز کا بجٹ خرچ کرتے ہیں جس کا عام انسانوں کی قتل و غارت گری اور معصوم انسانوں کا خون بہانے کے سوا دوسرا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔دنیا کے نام نہاد تہذیب یافتہ انسان کو دولت اور ذرائع پر قبضے کے لالچ نے خونخوار جانوروں سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔ بحیثیت مجموعی انسان مادیت اور دولت پرستی کی دوڑ میں آگے سے آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کیا انسان الہامی مذاہب اور انسانی عظمت و ہمدردی کی طرف کبھی واپس پلٹے گا یہ سوال دن بدن لاینحل مسئلے میں بدلتا جائے گا؟ جنگل کے درندے پھر بھی ماسوائے سانپ کے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنی نوع کا شکار نہیں کرتے ہیں، مگر ایک انسان ہے کہ وہ روپے پیسے کی خاطر اپنے باپ اور سگے بھائی تک کو بے رحمی سے قتل کر دیتا ہے۔آج کی مادہ پرست دنیا میں بھائی چارے اور انسانی ہمدردی کے مقابلے میں سرمائے سے پیار کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ لوگ امیر کو عقل مند اور غریب کو بے وقوف کہتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی دیندار اور باکردار ہو۔ ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنا اور انہیں خوشیاں دینا اب ’’فرشتہ سیرت‘‘ انسانوں ہی کا کام رہ گیا ہے۔بدقسمتی سے لوگ اسی کو عزت و اہمیت دیتے ہیں جو زیادہ امیر ہوتا ہے۔ آپ غریب ہیں اور بے شک سچے بھی ہیں تو آپ کی بات کو کوئی نہیں سنے گا اور دولت مند جھوٹ بھی بولے گا تو دنیا دار لوگ اس پر واہ واہ کے ڈونگرے پیٹیں گے اور اونچی آواز سے کہیں گے، ’’واہ واہ کیا سچ بولا ہے جناب۔‘‘ ایک ہندوستانی مقولہ مشہور ہے کہ ’’اس مایا کے تین نام، پرسو، پرسا اور پرس رام۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی غریب ہوتا ہے تو ماں نے اس کا نام ’’پرس رام‘‘ہی کیوں نہ رکھا ہو، لوگ اسے پرسو پرسو کہتے ہیں۔ جب وہ کسی طرح تھوڑا بہت پیسہ جمع کر لیتا ہے چاہے حرام کا ہی ہو، لوگ اسے پرسا کہنے لگتے ہیں اور جب اس کے پاس بہت ہی زیادہ پیسہ آ جاتا ہے تو دنیا دوبارہ اسے ماں کے دیئے ہوئے اصل نام ’’پرس رام‘‘سے پکارنے لگتی ہے۔اس لالچ اور ہوس بھری دنیا میں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں، چاہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، وہ روپے پیسے کے بدلے میں کردار کی صداقت اور ایمانداری ہی پر یقین رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے آج بھی روئے زمین پر دنیا قائم و دائم ہے۔
1506 ء میں جرمنی فرینکفرٹ میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک تاجر 800گولڈ کے سکے کھو دیتا ہے۔ ایک راہگیر بڑھئی کو اتفاقا اس تاجر کا بٹوہ مل جاتا ہے۔ یہ بڑھئی بہت دیندار ہوتا ہے اور وہ کسی کو بھی نہیں بتاتا کہ اسے بٹوہ ملا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اتنا زیادہ پیسہ کھونے کے بعد مالک لازمی اس کی تلاش کرے گا۔ اگلے دن تاجر گرجا گھر جاتا ہے اور اعلان کرواتا ہے کہ ایک تاجر جس نے فرینکفرٹ میں قدم رکھا ہے، اس کے 800 سونے کے سکے کھو گئے ہیں، اور جو اسے پائے گا، اسے 100 سونے کے سکوں کا انعام ملے گا۔اس پر بڑھئی پیسے گھر سے لا کر پادری کے حوالے کر دیتا ہے۔ تاجر آتا ہے اور پادری سے بٹوہ وصول کر لیتا ہے، لیکن وہ بے ایمان ہو جاتا ہے اور بڑھئی کو وعدے کے مطابق 100 گولڈن سکے دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ اسے سونے کے صرف 5 سکے دیتا ہے۔ بڑھئی تاجر سے اپنا وعدہ نبھانے کا تقاضا کرتا ہے، لیکن حریص اور لالچی تاجر دعوی کرتا ہے کہ بٹوے میں 900 گولڈن تھے، نہ کہ 800، تاکہ اسے انعام نہ دینا پڑے۔ وہ جھوٹ بولتا ہے اور کہتا ہے کہ بڑھئی نے بٹوے سے پیسے نکالے ہیں۔ پادری بڑھئی کی حمایت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بڑھئی کو جانتا ہے وہ ایک ایماندار آدمی ہے اور وہ چوری کبھی نہیں کر سکتا ہے۔اس معاملے کی بحث بڑھتی ہے تو پادری تاجر اور بڑھئی کو فرینکفرٹ کی ایک عدالت میں لے جاتا ہے۔ جج مقدمے کی سماعت شروع کرتا ہے اور تاجر سے کہتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ بائبل پر رکھ کر قسم کھائے کہ اس نے 900 گولڈن کھوئے تھے۔ تاجر بلا جھجھک اپنا ہاتھ بائبل پر رکھتا ہے اور قسم کھا لیتا ہے۔ جج بڑھئی سے بھی کہتا ہے کہ وہ قسم کھائے کہ اسے 800 گولڈن ملے تھے۔ بڑھئی بھی اپنا ہاتھ بائبل پر رکھ کر قسم کھا لیتا ہے۔اس اثنا میں سب جج کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں۔ جج کہتا ہے کہ سب کچھ واضح ہے یعنی بڑھئی کو 800گولڈن ملے تھے اور تاجر نے 900گولڈن کھوئے تھے۔ لہٰذا، جو بٹوہ بڑھئی کو ملا، وہ تاجر کا نہیں ہے۔ اس لئے، چونکہ سونے کے اس بٹوے کا کوئی مالک سامنے نہیں آیا لہٰذا یہ سارے پیسے بڑھئی کے ہیں۔ تاجر اپنے 900 سونے کے سکوں کی تلاش جاری رکھ سکتا ہے۔ یوں ایک دولت کا لالچی تاجر، جو ایک غریب بڑھئی کا حق مارنا چاہتا تھا، ایک منصف جج کے ہاتھوں سزا پا جاتا ہے۔ لیکن آج کی سرمایہ دارانہ دنیا سرمائے سے اتنا پیار کرتی ہے کہ وہ اسے اکٹھا کرنے کے لئے بڑھئی جیسا ایماندارانہ پیشہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بڑھئی کو دنیا میں ہے کہ وہ دیتا ہے جاتا ہے سونے کے کرتا ہے ہے اور لوگ اس
پڑھیں:
ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا
ریڈیو کی قدر و منزلت کوئی اُن سے پوچھے جن کے لیے کسی زمانے میں یہ ’کُل کائنات‘ رہی ہے۔ دورِحاضر میں تو گاڑیوں میں لگے ایف ایم کو سرفنگ کرتے ہوئے نوجوان نسل یہ جان نہیں پائے گی کہ کسی دور میں یہ ریڈیو گھر بھر کا ’لاڈلہ‘ ہوتا تھا۔ جس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ہر کوئی تیار رہتا۔ مہمان خانے میں انتہائی احترام کے ساتھ ریڈیو کی آرام گاہ ہوتی۔
سلیقہ مند خواتین ریڈیو کے لیے خصوصی طور پر خوبصورت اور حسین کپڑے کا کور تیار کرتیں جس پر کشیدہ کاری بھی ایسی ہوتی جو ریڈیوکی ظاہری شکل وصورت کو اور متاثر کن بناتی۔ اگر ریڈیو سننا مقصود نہ ہوتا تو وہ چلمن میں چھپا ہی رہتا۔ ہم جیسوں کے لیے ایک وقت تک ریڈیو کے صرف 2 ہی میڈیم شارٹ ویو اور میڈیم ویو ہوتے لیکن پھر ریڈیو کے خاندانی رکن ایف ایم سے بھی نشریات شروع ہوئیں۔
ریڈیو باکس کے 2بڑے سے لٹو نما پلگ ہوتے جن میں سے ایک سے آواز تیز ہوتی تو دوسرے سے چینل کا انتخاب، اب ان لٹوؤں کو گھمانے کا بھی اپنا ہی الگ مزہ اور لطف تھا۔ نشریات واضح نہ ہوتی تو انٹینا کی لمبائی میں کمی بیشی کی جاتی رہی یا پھر سوئی کو لٹو سے آگے پیچھے زحمت دی جاتی۔
اب پاکستان ہو یا بھارت اسی ریڈیو کے سامنے ہیرو یا ہیرؤئن لہک لہک کر گنگنانے کا بھی کام بھی انجام دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ کئی فلموں میں اسی ریڈیو سے ہیرؤئن کا محبوب براہ راست ان کے دل کے آنگن میں اپنی محبت کے پھول کھلا رہا ہوتا۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ریڈیو ٹی وی سیٹ کے برابر ہوتے پھر ان کے سائز میں تبدیلی آتی رہی۔ ٹیپ ریکارڈرکے بھی ہم سفر بنے، اور ایسا بھی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے سائز کے ریڈیوعام ہونے لگے۔ بالخصوص ٹرانسیٹر کے سائز کی کوئی حد نہ ہوتی۔ تصور کریں کہ کیسا خوش کن اور حسین لمحہ ہوتا جب ریڈیو کو آن کیا جاتا تو سماعت پر یہ دلکش آواز ٹکراتی ’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے پہلے یہ ریڈیو ہی تھا جو تفریح طبع کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ محدود ہونے اور پی ٹی وی پر سرکاری اثرو رسوخ کے باعث جب خبر کی تلاش ہوتی تو بیشتر سامعین کا مستند اور قابل اعتماد ذرائع بی بی سی اردو کی نشریات ہوتی جس کے پروگرام ’سیربین‘ کے ذریعے ملکی حالات کے بارے میں علم ہوتا ورنہ پی ٹی وی تو گوشت کے ناغے والے دن کی فوٹیج چلا کر یہی دعویٰ کرتا کہ کاروبار کھلے رہے اور اپوزیشن کی ہڑتال ناکام ہوگئی۔
بی بی سی کے شفیع نقی جامعی اور علی رضا عابدی ’ہاؤس ہولڈ نیم‘ رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ریڈیو پاکستان نے اس عرصے میں اپنا مقام نہ بنایا ہو اس کے مختلف اور متنوع پروگرام ہر ایک کے پسندیدہ ہوتے۔ ان میں بزم طلبہ ہو، یا پھر حامد میاں کے ہاں یا پھر منی باجی یہ بالکل ایسے ہی مشہور تھے جیسے آج کل مختلف ٹی وی چینلز کے ڈرامے یا پروگرام۔
ریڈیو کی افادیت ان دنوں اور زیادہ بڑھ جاتی جب کوئی کرکٹ یا ہاکی کا مقابلہ ہوتا۔ جو ٹی وی پر میچ نہیں دیکھ پاتے یا پھر ٹی وی کی جن ممالک میں نشریات دکھانے کی پہنچ نہ ہوتی تو ایسے میں اکلوتا سہارہ ریڈیو ہی ہوتا۔ منیر حسین، حسن جلیل، عمر قریشی، افتخار احمد یا چشتی مجاہد یا محمد ادریس کرکٹ کی صورتحال پر ایسی منظر کشی کرتے کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کےسامنے ہورہا ہے۔
ان کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردو میں کمنٹری ایسی شاندار ہوتی کہ دل چاہتا کہ بس یہ لوگ خاموش نہ ہوں، خیر آج کل تو ٹی وی پر اردو کی کمنٹری سن کر سر پیٹنےکو دل چاہتا ہے کہ شور شرابا زیادہ اور کچھ نہیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی جب راہ چلتے کوئی بھی رک کر یہ ضرور پوچھتا کہ اسکور کیا ہوا ہے؟ اور یہ سوال تواتر کے ساتھ دریافت کیا جاتا رہتا لیکن آفرین ہے کمنٹری سننے والے پر جوکسی کے سوال پر ناک بھنویں نہ چڑھاتا بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ایک کے لیے اُس وقت ’کرک انفو‘ کی خدمات انجام دیتا۔
جس کے بعد اسکور پوچھنے والا اپنا ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ کرکٹ کی طرح ہاکی کے کمنٹیٹرز بھی اپنی خوبصورت اور شائستہ کمنٹری کی وجہ سے منفرد اور اچھوتی پہچان رکھتے۔ چاہے وہ ایس ایم نقی ہوں یا پھرذاکر حسین سید، اقبال ہاشمی، مظاہر باری یا پھر فاروق مظہر۔
کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے روز رات 10بجے کے قریب نشر ہونے والے ’عالمی اسپورٹس راؤنڈ‘ میں خصوصی دلچسپی ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی کھیل ہو اس شو کے ذریعے بھرپور معلومات مل جاتی۔ اس شو کبھی عظیم سرور تو کبھی سید محمد نقی پیش کرتے۔ درحقیقت اسی شو میں مختلف رپورٹس پیش کرنے والی بیشتر شخصیات، دورحاضر کے کامیاب اسپورٹس رپورٹرز اور کچھ پروگرام اینکرز بھی بن چکے ہیں۔
پھر کیسے بھول سکتے ہیں آپ ریڈیو پروگرام کا ’یہ بچہ کس کا‘؟ کو جس کے ذریعے والدین اور اپنوں سے بچھڑے بچوں کی معلومات اور پھر ان کی گفتگو نشر کی جاتی جس کا مقصد اس بچے کو اس کے گھر تک پہچانا ہوتا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں ریڈیو کے صداکاروں کو خاص اہمیت دی جاتی کیونکہ انہیں جہاں تلفظ کی آگہی ہوتی وہیں انہیں مکالمات کی ادائیگی کے لیے جذبات اور احساسات کے اظہار کا ہنر آتا۔
ہماری اردو کی ٹیچر تو بطور خاص یہ ہدایت دیتیں کہ تلفظ اور ادائیگی کو بہتر بنانا ہے تو ریڈیو ضرور سنا کریں۔ زمانہ تو وہ بھی تھا جب پاکستان میں آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ’کیچ‘ ہوتی اور دن کے 3اوقات میں فرمائشی گیت نشر ہوتے۔ ایک گانے کو سننے کے لیے پتا نہیں کہاں کہاں سے فرمائش آتی۔ لتا، آشا، کشور، رفیع یا پھر محمد عزیز کے گانے سنائے جاتے۔
کیونکہ ذرائع انتہائی محدود تھے تو پاکستانی پرستاروں کے لیے یہ گانے خاصی کشش رکھتے۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی آل انڈیا ریڈیوسروس سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی کیا جاتا جس کا بھرپور اور منہ توڑ جواب ریڈیو پاکستان کمال خوبی سے دیتا۔
اور پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ بدلی تو 90کی دہائی کے کچھ سال بعد پاکستان میں ایف ایم چینل کا آغاز ہوا۔ ریڈیو کے ان آر جےز کا ماڈرن اور بے تکلف انداز سننے والوں کے کانوں کو بھلا لگا۔ ایسے میں ان کی مدھر، مترنم اور دل کش آواز کو سن سن کر ہر سامع نے مختلف آر جے کا تصوراتی خاکہ بھی بنالیا۔
جب پاکستان کے پہلے ایف ایم چینل نے اپنا جریدہ نکال کراپنے آر جے کے انٹرویوز شائع کیے تو کئی سامعین نے ان میں سے کئی کو دیکھ کر اپنے تصوراتی خاکے پر مایوسی ظاہر کی۔ اس وقت درجنوں ایف ایم چینلز ہیں ہر زبان اور ہر انداز کے، جنہیں پسند کرنے والوں کا الگ الگ اپنا حلقہ ہے۔ کہاں کسی زمانے میں جب ریڈیو سے مخصوص اوقات میں نشریات آتی تھی اب 24 گھنٹے ایف ایم ریڈیو کام کررہے ہیں۔
ہمیں تو یاد نہیں کہ ہم نے کب شارٹ ویو یا میڈیم ویو پر کچھ سناہو۔ خیر اب گاؤں دیہات میں کوئی چارپائیاں ڈال کر ریڈیو تو نہیں سن رہا ہوتا کیونکہ اسمارٹ فون کے ذریعے تو اب بصری سہولت جو مل رہی ہے۔ بہرحال آنکھیں اور کان بس ترس ہی گئے ہیں یہ منظر دیکھنے اور سننے کو جب کوئی کانوں پر چھوٹا سا ٹرانسیٹر لگا کر جارہا ہو اور راہ گیر روک کر پوچھے ’ہاں بھئی اسکور کیا ہوا ہے؟‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔