ریڈیو نشریات کے 100 سال مکمل,آج دنیا بھر میں ریڈیو کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
دنیا میں ریڈیو نشریات کے 100 سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام جمعرات کو دنیا بھر میں ریڈیو کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 19ویں صدی کے اواخر میں ہونے والی یہ ایجاد اب بھی چار ارب سے زیادہ لوگوں کے لیے معلومات اور تفریح کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ریڈیو کی پہلی براہ راست نشریات کو 100 سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ریڈیو کی نشریات وہاں بھی پہنچتی ہیں جہاں دوسرے مواصلاتی ذرائع کی رسائی نہیں ہوتی۔ خاص طور پر بحرانوں کے وقت اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب بہت سے لوگوں کے لیے یہ رہنمائی اور مدد کا اہم ترین وسیلہ ہوتا ہے۔ اس دن پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بڑھتی مقبولیت بھی ریڈیو کی اہمیت کو کم نہیں کر سکی۔ اس نے ہمیشہ خود کو ایسا میڈیا ثابت کیا ہے جو جامعیت اور رسائی کے اعتبار سے دوسرے ذرائع ابلاغ سے کہیں آگے ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی ریڈیو کو ہمیشہ اہمیت دی ہے جو اسے اطلاعات کی فراہمی، آگاہی بڑھانے، لوگوں کو بااختیار بنانے اور قیام امن کے لیے ادارے کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کا امن مشن 'یونیمس' اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس سال ریڈیو کا عالمی دن "ریڈیو اور موسمیاتی تبدیلی" کے لیے وقف کیا گیا ہے تاکہ اس مسئلے کی صحافتی کوریج میں ریڈیو اسٹیشنوں کی مدد کی جا سکے۔ریڈیو پاکستان کے عالمی دن کے سلسلے میں، ریڈیو پاکستان خصوصی پروگرام بھی نشر کر رہا ہے، جس میں آب و ہوا سے متعلق مسائل سے نمٹنے میں آگاہی پیدا کرنے میں قومی نشریاتی اداروں کے کردار کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔اس میں آب و ہوا کے شکوک کے دلائل کو ختم کرنا، گرین واشنگ کی تحقیقات، ماحولیاتی معاشیات کو سمجھنا، اور موسمیاتی سرگرمی اور حل کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر رپورٹنگ شامل ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟