(تحریر: سہیل یعقوب)
موجودہ حالات سے پہلے بھی ہمارے لوگوں نے دو بار ہجرت کی ہے اور آج کے حالات کی طرح ہی جبراً ہجرت ان پر مسلط کردی تھی۔ پہلی بار یہ ہجرت 1947 میں کی گئی اور لوگ آنکھوں میں ایک نئی اسلامی مملکت کا خواب سجا کر اس مملکت خداداد پاکستان میں آئے، اس کے بعد کیا ہوا یہ ایک الگ دردناک داستان ہے کہ جس کا اس تحریر میں احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
دوسری بار پھر یہ واقعہ 1971 میں پیش آیا اور ہم نے بچ کر آنے والوں کو پاکستان کے بچ جانے کی نوید سنائی اور ان کے پاس سوائے اس ’’خوشخبری‘‘ کو ماننے کے کوئی اور گنجائش نہیں تھی۔ اس سے پہلے کی دونوں ہجرتوں میں قوم کے دل میں یقین موجزن رہا اور آنکھوں میں مستقبل کے حسین خواب ابھی پوری طرح ڈوبے نہ تھے۔ لیکن اب یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ قوم مستقبل سے بالکل مایوس ہوگئی ہے اور مستقبل بچانے کےلیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہے۔
موجودہ حالات میں اس ملک پر ایسے ایسے سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ جو اس ملک کے بانیان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوں گے۔ یہ قوم اب اپنے روشن اور محفوظ مستقبل کےلیے زندگی کا جوا کھیلنے کےلیے بھی تیار ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس جوئے میں ہارنے کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے اور ہارنے کا مطلب زندگی کا خاتمہ ہے لیکن وہ شاید موت کو بھی پریشانیوں سے چھٹکارے کا ذریعہ سمجھنے لگی ہے۔
حالیہ دنوں میں کشتی کے حادثات میں پاکستانیوں کی اموات کی خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ نہ ریاست کے ارباب اختیار اپنی روش بدلنے کو تیار ہیں اور نہ لوگ اپنے بیٹے اور بھائیوں کو اس راستے سے موت کے منہ میں جانے سے روکنے کو تیار ہیں۔ حکومت بس ایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنا کر خود کو اپنے تمام فرائض سے بری الذمہ سمجھنے لگتی ہے اور لوگ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ان ہی اداروں اور اسمگلروں کے رحم و کرم پر آجاتے ہیں۔
اس ملک کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کا سربراہ کہتا ہے کہ میں عوام کو فلاں فلاں سہولیات دینا چاہتا ہوں، تو حضور پھر یہ سہولیات دیجیے، آپ کو کس نے روکا ہے بلکہ قوم نے تو ’’شاید‘‘ آپ کو اسی لیے یہاں بھیجا ہے۔ اور اگر آپ بھی بےبس ہیں تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہیے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
کشتی کے ان تمام حادثات میں جن پاکستانیوں کی اموات ہوئی وہ سب یورپ میں غیر قانونی داخلے کے خواہشمند تھے۔ ان کی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے سپنے تھے، دل میں امنگیں تھیں اور اپنے زور بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کےلیے بہتر مستقبل حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ ریاست کے طاقتور لوگوں کی حرص کا شکار ہوئے اور انھیں موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔
ان کا کیا قصور تھا؟ کیا مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھنا جرم ہے؟ کیا اپنے گھر والوں کےلیے کچھ کرنے کی خواہش غلط ہے؟ یہ تمام لوگ کسی نہ کسی طیران گاہ، بندرگاہ یا اسٹیشن سے روانہ ہوئے ہوں گے اور ایسی تمام جگہوں پر ریاست کے ایک نہیں کئی ادارے تعینات ہوتے ہیں اور ان کا کام ایسی تمام غیر قانونی کارروائیوں کو روکنا ہے۔ لیکن شاید ارباب اختیار کے علاوہ سب کو پتہ ہے کہ پیسے کے عوض یہاں کیا نہیں ہوتا۔
یہ لوگ تو مجبور ہیں کیونکہ اس ملک میں کسی کا مستقبل محفوظ نہیں۔ ہر صوبے اور پورے ملک میں نوکریاں فروخت ہوتی رہی ہیں اور ہورہی ہیں۔ ایک نوکری کی قیمت عام طور پر اس کی تین سال کی تنخواہ ہوتی ہے اور جو یہ نہ دے سکے تو آپ ہی بتایئے کہ اس کے پاس ہجرت کے سوا کیا چارہ کار رہ جاتا ہے؟ چاہے اس کا انجام موت ہی کیوں نہ ہوں۔ ان تمام حادثات کو دیکھ اگر لوگ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے تو شاید یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ ہوگا۔
یقین مانیے کہ ماضی میں مختلف ممالک نے ہمارے وزرا کے کردار پر انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سوال اٹھائے ہیں بالخصوص برطانیہ نے تو باقاعدہ حکومت سے شکایت بھی کی تھی۔ اس معاملے میں گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے علاقے زیادہ مشہور یا بدنام ہیں اور اب آہستہ آہستہ یہ عفریت ہمارے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک سے وہ کثیرالقومی ادارے جو پچاس پچاس سال سے ملک میں کام کررہے تھے اپنے کام بند کرکے جارہے ہیں۔ اگر نئے لوگوں کو لانا ہے تو پہلے ان اداروں کو تو روکیں، تاکہ دیگر سرمایہ کاروں کے سامنے یہ آپ کی اچھی حکمت عملی اور پالیسیوں کے سفیر بننے نا کہ وہ نیب کو خط لکھے کہ ہم سے کاروبار کرنے کی رشوت مانگی جارہی ہے۔ اس وقت سوائے حکومت میں موجود لوگوں کے اور ان سے وابستہ ان کے ایجنٹوں کے کاروبار ہی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں کیونکہ وہ دن میں دگنی محنت کررہے ہیں اور رات کو چوگنی محنت کرتے ہیں، کم از کم محاورے سے تو یہی سمجھ آتا ہے۔
حکومت اگر اپنے قول و فعل میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی صفوں سے کالی بھیڑیں نکالنی ہوگی۔ وہ کالی بھیڑیں کیسی ہیں اور کون ہیں اس پر ایک لطیفہ نما واقعہ اور اختتام۔
ایک بادشاہ کو اپنے ایک وزیر کی شکایت ملتی ہے کہ اسے کسی بھی محکمے میں رکھوں یہ وہاں رشوت کا بازار لگا لیتا ہے۔ اس صورتحال میں بادشاہ اس کی ڈیوٹی سمندر کے کنارے لہریں گننے پر لگا دیتا ہے اور سوچتا ہے اس کام میں وہ کیسے اور کس سے رشوت لے گا۔ وزیر بہت ہی کائیاں تھا اور تھوڑے دنوں میں پھر اس کی رشوت کے حوالے سے شکایت آتی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا اب وہ کس سے رشوت لیتا ہے تو لوگوں نے بتایا کہ وزیر ان بحری جہازوں سے رشوت لیتا ہے جو یا تو بندرگاہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں یا بندرگاہ سے باہر جارہے ہوتے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کیوں اس کو رشوت دیتے ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ جہاز کے چلنے سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اس سے اس کی گنتی کے عمل میں خلل ہوتا ہے اور چونکہ گنتی کا حکم شاہی ہے اس لیے وہ رشوت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
امید ہے کہ اس کہانی سے لوگوں کو اور خود سرکار کو بھی اپنے اداروں کے کام کرنے کی سمجھ آگئی ہوگی اور اگر نہیں تو وزرا کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن پھر نام لینے والے کو بھی ہجرت کرنی پڑے گی اور بھی ایسی ہی غیر قانونی کشتی پر اور جس کا انجام ہم سب کو معلوم ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مستقبل کے کرنے کی ملک میں ہیں اور ہے اور اور ان اس ملک ہیں تو
پڑھیں:
ہفتہ بارہ بجے کے بعد
اسلام ٹائمز: خوش گمانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جن کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آ کر جنگوں کو ختم کریں گے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ ان کا مقصد محض ان جنگوں کا خاتمہ تھا جنہیں وہ امریکہ کے لیے غیر ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن وہ ایسی جنگ کو امریکہ کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو سکے۔ لہذاء اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنی اس دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کام شروع کر دیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تحریر: سید تنویر حیدر
فرعون کے مقابلے میں اگر موسٰی اپنے عصا کے ساتھ کھڑے تھے تو فرعون کو خدا ماننے والے بھی کچھ کم نہ تھے۔ جہاں ایک طرف فرعون نوزائیدہ بچوں کا قاتل تھا وہاں دوسری جانب لوگ اسے اپنے بچوں کا خالق بھی سمجھتے تھے۔ اسی طرح آج کی دنیا میں بعض لوگ جسے شیطان بزرگ کہتے ہیں وہ کچھ لوگوں کے لیے ان کا مسیحا بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دوراقتدار میں جس طرح فلسطینیوں کے بعض مقبوضہ علاقوں کو غاصب صیہونی حکومت میں باقاعدہ طور پر مدغم کرنے میں اس ناجائز حکومت کی معاونت کی اور بیت المقدس کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا، اس سے یہ بات ظاہر تھی کہ ٹرمپ کس طرح غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ خوش گمانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جن کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آ کر جنگوں کو ختم کریں گے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ ان کا مقصد محض ان جنگوں کا خاتمہ تھا جنہیں وہ امریکہ کے لیے غیر ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن وہ ایسی جنگ کو امریکہ کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو سکے۔ لہذاء اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنی اس دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کام شروع کر دیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
جوبائیڈن نے اپنے دور اقتدار میں غزہ کو کھنڈر بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن ٹرمپ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر فلسطینیوں سے وہ کھنڈر بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ ”اوسلو امن معاہدہ“ کرکے بعض عرب حکمران سمجھ رہے تھے ہم اسرائیل کے مقابلے میں اپنے ہتھیاروں کی جگہ زیتون کی شاخ پکڑ کر اسرائیل کو رام کر لیں گے اور اس طرح اپنے اقتدار اور اپنی حکومتوں کو دوام دینے کا سامان کر لیں گے اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنے عشرت کدوں میں چین کی بانسری بجاتے رہیں گے لیکن ”طوفان اقصیٰ“ نے جہاں اسرائیل کی سلامتی کے لیے کھڑی کی گئی دیوار کو گرا دیا ہے وہاں بعض حکمرانوں کے تعمیر کردہ خوابوں کے محل کو بھی زمیں بوس کردیا ہے اور ان کی سہانی راتوں کو ڈراونی راتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ عرب شیوخ اسلامی جمہوری ایران کو اسرائیل سے زیادہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ لڑ کر تباہ ہو جائے۔ یہ صاحبان اقتدار غاصب صیہونی حکومت کا دامن پکڑنے کے لیے اپنی آخری حدوں کو چھو چکے تھے۔
”ابراھیم اکورڈ“ کے تحت وقت کے نمرود کے پہلو میں بیٹھنے والوں کو خبر نہیں تھی کہ اس جھوٹے خدا نے اولاد ابراھیم کے لیے جو آگ دہکائی ہے وہ اس میں ان حکمرانوں کو بھی جھونکنے کے لیے تیار ہو جائے گا جو خود کو اس ستم کار کے سایہء عاطفت میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ مسلم حکمران ہیں جو اسرائیل کی ناراضی سے بچنے کے لیے اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتے رہے۔ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے وقت جنہوں نے یزید کے عتاب سے بچنے کے لیے امام کا ساتھ نہیں دیا آخرکار ”واقعہ حرہ“ میں اس یزید کے ہاتھوں ہی اپنے جان و مال اور اپنی عزت و ناموس سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تاریخ میں نشان عبرت بن گئے۔ غزہ میں جو آگ بڑھکائی گئی تھی اب اس کی اگلی منزل ”غرب اردن“ ہے۔ فطری طور پر اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی اردن اور مصر اس آگ کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک شاہی فرمان میں اردن اور مصر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں بسا لیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کی ذہنی حالت کے حوالے سے ان کی میڈیکل رپورٹس جو کہتی ہیں ان میں مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اردن اور مصر کی امریکہ کے سامنے جو حیثیت ہے اس کے تناظر میں ان حکومتوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی اس فرمائش کو آسانی سے رد کریں۔
”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات “ صدر ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے اردن کے شاہ عبداللہ کو مختصر نوٹس پر اپنے دربار عالیہ میں طلب بھی کر لیا ہے۔ شاہ عبداللہ نے اپنے سر سے وقتی طور پر اس بلا کو ٹالنے کے لیے دو ہزار بیمار اور معذور فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کی پیش کش کی ہے لیکن اس طرح کے حیلوں سے اسرائیل اور امریکہ کے آئندہ کے منصوبوں کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکی صدر نے شاہ عبداللہ کو بتایا ہے کہ ہم غزہ کو خریدنے نہیں جا رہے بلکہ اسے اپنے ماتحت کرنے جا رہے ہیں گویا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس علاقے کی حیثیت کسی خریدے ہوئے غلام کی طرح کی نہیں ہوگی بلکہ اس کا اسٹیٹس مفت کے غلام کا سا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز حماس کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئندہ آنے والے ہفتے کو 12 بجے دن تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اردن اور مصر نے اسرائیل کے ممکنہ حملوں کے بعد کی صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی سرحدوں پر اپنی افواج کی تعیناتی شروع کردی ہے۔ ”آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا“۔