ملک بھر میں شب برات آج عقیدت و احترام کیساتھ منائی جائیگی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
ملک بھر میں شب برأت آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے گی، آج شب برأت کی مناسبت سے مساجد اور گھروں میں محافل کا اہتمام کیا جائے گا اور مسلمان رات بھر عبادات و نوافل اداکریں گے۔
آج رات ملک بھر کی مساجد میں علماء کرام اور مقررین شب برأت کی فضلیت بیان کرینگے جبکہ لوگ اس رات اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کریں گے،شعبان المعظم برکتوں سے بھرا ہوا مہینہ ہے مگر 15ویں رات شب برات کے نام سے منصوب ہے جو خاص اہمیت رکھتی ہے۔یہ رات اللہ رب العزت کی رحمتوں اور مغفرت کا خاص موقع ہے،روایات کے مطابق اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنوقلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے، اس رات کائنات کے تمام امور جیسے عروج و زوال، کامیابی و ناکامی اور رزق میں وسعت و تنگی کی فہرست مرتب کی جاتی ہے اور فرشتوں کو ان کے کاموں کی تقسیم کردی جاتی ہے۔شب برات کی رات میں خصوصی عبادات کا سلسلہ آج پوری رات جاری رہے گا، خاص طور پر بعد نماز مغرب6نفل ادا کیے جائیں گے، مسلمان اللہ کے حضور گناہوں کی توبہ، بخشش، ایمان، رزق کی کشادگی اور عالم اسلام بالخصوص پاکستان کی سلامتی کے لیے دعائیں کریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا سے کہ شب برات کی اس رات اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائیں اور اگلے آنے والوں سالوں میں ترقی ، خوشحال اور رزق میں برکت عطا فرمائیں اور جن لوگوں کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی مغفرت فرمائیںجو بیمار ہیں ان کو اللہ صحت والی زندگی عطا فرمائیں۔آمین
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
دین اسلام زندہ و تابندہ ہے اور تاقیامت دنیا کی تاریکیاں اس کے تعلیمات سے روشن رہیں گی کیوں کہ دین اسلام کے راستے میں قربانیاں دی گئیں ان قربانیوں کا یہ صلہ ہے ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کو اپنے لہو سے سینچا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 164ہجری میں بغداد میں پیداہوئے۔ان کا خاندانی تعلق عرب کے ایک قبیلہ ’’شیبان‘‘ سے تھا۔والد کاسایہ کمسنی ہی میں سر سے اٹھ گیا لیکن بیوہ ماں نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن بغداد میں حاصل کرنے کے بعد عصری علوم یعنی فقہ و حدیث کے حصول کے لئے خود کو آمادہ و تیار کرلیا اور کم عمری ہی میں فقہ اور علم حدیث میں مہارت حاصل کرلی اور عظیم حافظ حدیث کہلائے جانے لگے۔
امام احمد بن حنبل فقہی اصولوں کے بارے یہ رائے رکھتے تھے کہ قرآن اور احادیث ان کے بنیادی ماخذ ہیں ۔جہاں کہیں قرآن و حدیث میں واضح دلیل دستیاب نہ ہوتی تو پہلی وآ خری ترجیح اقوال صحابہ رضی اللہ ھم اجمعین کو دیتے ۔
آپ قیاس اور اجماع کو انتہائی محدود پیمانے پر توجہ کے قابل گردانتے تھے۔آپ کی صعوبتوں کا آغاز تب ہوا جب آپ نے عباسی دور میں معتزلہ کے اٹھا ئے فتنے کہ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ کے عقیدے کے خلاف آواز بلند کی ۔
خلیفہ مامون کا دور تھا وہ معتزلیوں کا عقیدت مند تھا پس اس نے امام کی گرفتاری کا حکمنامہ جاری کردیا۔یہ سلسلہ یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ مامون کے بعد جب معتصم نے خلافت سنبھالی تواس نے سزا کا سلسلہ تیز تر کردیا۔اہل سنت کے عقیدے کا دفاع کرنے پر امام علیہ الرحمت کوکوڑے مارے گئے اتنے کہ ان کا جسم ادھڑ کر رہ گیا مگر انہوں نے صدائے حق پر وہ استقامت دکھائی کہ دنیا حیران زدہ رہ گئی۔قیدو بند کی صعوبتیں امام احمد بن حنبل کی استقامت کو متزل نہ کر سکیں۔
معتصم کے اقتدار کے خاتمے کے بعد متوکل خلافت کے سنگھاسن پر براجمان ہوا تو حالات کا رخ بدل گیا ۔اب امام احمد کی سزائیں ختم کی گئیں انہیں عزت و احترام کے ساتھ رہا کیا گیا یوں عوام دل و جان سے ان کی قدر کرنے لگی۔
امام احمد بن حنبلؒکی مشہور تصنیف ’’المسند‘‘ ہے ۔جواحادیث نبویﷺ کا عظیم مجموعہ ہے جس میں احادیث کو راویوں کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔یہ مجموعہ تقریبا ً چالیس ہزار احادیث اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔جسے امام نے اصحاب رسول ﷺ کے اسمائے گرامی کے مطابق ترتیب دیا ہے ۔جس میں ہر صحابیؓ کی روایات کا جدا جدا ذکر کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے المستند کے مضامین انتہائی سلیقے سے بیان کئے ہیں جن میں عقائد و توحید، سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، فقہ و احکام،اخلاق و آداب ، فضائل و اعمال اور فتنوں سے متعلق پیش گوئیاں فرمائی گئی ہیں۔ مذکورہ مجموعے میں انتہائی جامعیت کے ساتھ احادیث کو ان کے مقام و اقسام مثلاً ضعیف، حسن اور صحیح احادیث جمع کی ہیں ۔
امام احمد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ’’ ہر وہ حدیث جو کسی نہ کسی طرح نبی علیہ السلام سے منسوب ہواسے ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘ امام نے اپنے مجموعہ احادیث میں سند کی مضبوطی کو ملحوظ خاطر رکھا، مسند میں صحیح اور حسن درجے کی احادیث کو فوقیت دی تاہم بعض ضعیف روایات شامل کیں جن کی وضاحت بعد کے محدثین نے کی۔اس مجموعے میں سات سو سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مرویات جمع کی گئی ہیں۔
امام احمد نے متعدد ایسی احادیث جو حدیث کی دیگر کتب میں ناپید ہیں انہیں اس مجموعے میں محفوظ کیا گیا ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 241ھ میں اپنی جنم بھومی بغداد ہی میں مالک حقیقی سے جاملے ،ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے جوق در جوق شرکت کرکے امام کے علمی مقام پر مہر تصدیق ثبت کی۔انا للہ وانا الیہ راجعون