تلسی گبارڈ امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر مقرر
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
دنیا کی طاقتور ہندو خاتون تلسی گبارڈ امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر بن گئیں، عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
تلسی گبارڈ کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کو دوبارہ قومی سلامتی پر مرکوز کریں گی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ انٹیلی جنس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
تلسی گبارڈ امریکا کی 18 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی۔
واضح رہے کہ ’کرما یوگی‘ کہلانے والی 43 سالہ تلسی امریکی کانگریس میں پہلی ہندو رکن تھیوالدین امریکی ہیں جن کا بھارت سے کوئی رسمی تعلق نہیں تاہم ان کی والدہ نے ہندو مذہب اختیار کیا۔
تُلسی گبارڈ کی پہلی شادی 2006 میں طلاق پر ختم ہوئی، دوسری شادی 2015 میں ہوئی لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں، تلسی نے امریکی پارلیمنٹ میں بھگوت گیتا پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا، ان کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، انہوں نےگجرات فسادات میں مودی پر امریکی ویزا پابندی کو بڑی غلطی قرار دیا تھا۔
انہوں نے 2014 میں مودی کی دعوت پر ہندوستان کا 15روزہ دورہ کیا، 2019 میں ہندوستانی حکومت کے ایونٹ کی مہمان خصوصی بنیں، تُلسی کی مہم کو ہندو اکثریتی تحریک سے وابستہ 100سے زیادہ افراد سے چندہ ملا تھا جس کا مودی کی بھارتیہ جنتہ پارٹی ایک حصہ ہیں۔
تُلسی 20 سال امریکی فوج کا حصہ رہیں، عراق و کویت اور افریقا میں بھی تعینات رہیں، 2024 میں ری پبلکن پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے انہوں نے اکتوبر 2022 میں ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے خفیہ دہشت گردی کی واچ لسٹ میں ڈال دیا، 2021 میں، تلسی نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے تحفظ کے لیے امریکی کانگریس میں قرارداد پیش کی،پاکستان پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا، گبارڈ نے حافظ سعید کی رہائی پر تنقید کی۔
ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس قومی سلامتی کے امور پر صدر، قومی سلامتی کونسل اور ہوم لینڈ سکیورٹی کونسل کے مشیر کے طور پر کام کرتا ہے۔
یہ پوزیشن 11ستمبر2001 کو امریکا پر حملوں کے بعد بنائی گئی تھی، اپنے آپ کو ’کرما یوگی‘ کہلانے والی 43 سالہ تلسی امریکی کانگریس میں پہلی ہندو ہونے کے ساتھ امریکن ساموا سے تعلق رکھنے والی پہلی رکن ہیں، ان کے والدین کا تعلق امریکا سے ہے۔
1981میں پیدا ہونے والی تلسی 2013 سے 2021 تک ہوائی پارلیمنٹ کی رکن رہیں، ان کی پرورش ہوائی میں ہوئی اور اس نے اپنے بچپن کا ایک سال فلپائن میں گزارا۔ چار بار رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں اور 2020 میں صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار بھی تھیں تاہم انہیں خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی اور انہوں نے اپنی امیدواری واپس لے لی۔
2024 میں ری پبلکن پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے انہوں نے اکتوبر 2022 میں ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا تھا، تُلسی نے 20 سال یو ایس آرمی نیشنل گارڈ میں خدمات انجام دیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انٹیلی جنس تلسی گبارڈ انہوں نے
پڑھیں:
امریکی صدر کی اردن کے حکمران سے ملاقات‘پریس کانفرنس میں شاہ عبداللہ کا ٹرمپ کے غزہ منصوبے پرنیم رضامندی کا اظہار
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 فروری ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم غزہ کو خریدنے نہیں جار ہے، غزہ امریکا کے ماتحت ہوگا صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاﺅس میں اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات میں اپنے اس عزم کو دوہرایا کہ غزہ میں فلسطینی واپس نہیں جا سکیں گے یہ علاقہ امریکہ کے کنٹرول میں ہو گا اور اسے ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جائے گا.(جاری ہے)
شاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کس طرح صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو ممکنہ طور پر صرف اس صورت میں کام کر سکتا ہے جب اردن مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی ہو. ٹرمپ اور عبداللہ کی اوول آفس میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ اس صورت میں کہ وہ غزہ سے لوگوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ کرنے پر راضی نہیں ہوتے وہ اردن یا مصر جیسے دیگر عرب ممالک کے لیے امریکی امدادکو نہیں روکیں گے. صدرٹرمپ نے کہا کہ مجھے اس بارے میں دھمکی دینے کی ضرورت نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ ہم اس سے بالا ترہیں یہ امریکی صدر کے اس سابق بیان سے مختلف موقف ہے جس میں واشنگٹن کی جانب سے امداد روکنا ایک امکان تھامشترکہ پریس کانفرنس میں شاہ عبداللہ سے صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کی تعمیر نو کے منصوبے کے بارے میں بار بار پوچھا گیا لیکن انہوں نے اس پر کوئی ٹھوس تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس تجویز پر کہ ان کا ملک غزہ سے بڑی تعداد میں نئے مہاجرین کو قبول کر سکتا ہے. جب صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ اردون کیوں فلسطینیوں کو اپنے پاس رکھے گا؟ تو انہوں یہ سوال شاہ عبداللہ سے پوچھے جانے کے لیے کہاکہ میں نہیں جانتا لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہیں ہم نے ملاقات میں اس پر بات کی ہے انہوں نے شاہ عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ابھی کچھ کہنا چاہیں گے؟ اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا کہ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر مصر اور عرب ملک ان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم کس طرح سے کام کریں جو سب کے لیے فائدہ مند ہو. انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے ہمیں امریکہ کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور خطے کے لوگوں بالخصوص میرے اپنے اردن کے لوگوں کے مفادات کو بھی ہم اس پر تفصیلی بات کریں گے فوری طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم دو ہزار فلسطینی بچوں کو لے رہے ہیں جو کینسر کا شکار ہیں یا شدید بیمار ہیں اور پھر ہم مصر کے پلان کا انتظار کریں گے کہ کس طرح ہم صدر ٹرمپ کے غزہ چیلنج سے متعلق پلان پر کام کر سکتے ہیں. اس پر ٹرمپ نے اردن کو سراہتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ غزہ سے کینسر کے شکار دو ہزار بچوں کو لے رہے ہیں یہ خوبصورت اظہار ہے اور میں اس کی تعریف کروں گا غزہ منصوبے پر امریکی صدر نے کہاکہ ہم اس پر کام کرتے رہیں گے آپ دیکھیں گے کہ مصر کے ساتھ بھی بات آگے بڑھے گی اردن کے ساتھ بھی دیگر اعلی سطح کی شراکت داری بھی ہو گی یہ پیچیدہ کام نہیں ہے. انہوں نے زور دیا کہ ا مریکہ جس بڑے زمینی رقبے پر کنٹرول چاہ رہا ہے اس سے خطے میں استحکام آئے گا مشرق وسطی میں پہلی بار استحکام آئے گا انہوں نے کہاکہ فلسطینی جو ابھی غزہ میں رہتے ہیں خوبصورت انداز میں زندگی گزار رہے ہوں گے تحفظ کے ساتھ نہ کہ ہر دس سال بعد وہ مارے جا رہے ہوں یا گھروں سے نکالے جا رہے ہوں میں کئی برسوں سے یہ سب کچھ دیکھتا آ رہا ہوں وہاں سوائے مصائب کے اور کچھ بھی نہیں. صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ تجاویز بھی دہرائیں کہ امریکہ غزہ پر کنٹرول کر سکتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے لیے امریکی فنڈز کی ضرورت نہیں پڑے گی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ امریکی اتھارٹی کے تحت ممکن ہو گا اس کی وضاحت کیے بغیر کہ وہ اصل میں کیا ہوگاصدر ٹرمپ نے غزہ میں امریکی کنٹرول کے بارے میں کہاکہ ہم کچھ خریدنے نہیں جا رہے ہیں ہم اسے حاصل کرنے جا رہے ہیں انہوں نے تجویز پیش کی کہ تعمیر نو کے بعد علاقے میں نئے ہوٹل، دفتری عمارتیں اور مکانات تعمیرہو سکتے ہیںاور ہم اسے زبردست بنائیں گے. صدرٹرمپ جنہوں نے نیویارک کی ایک رئیل اسٹیٹ ایمپائر بنائی جس نے اسے شہرت تک پہنچایا غزہ کے رہائشیوں کے بارے میں کہا کہ میں آپ کو رئیل اسٹیٹ کے بارے میں بتا سکتا ہوں انہیں وہ بہت ہی پسند آئے گا. شاہ عبداللہ امریکی صدر سے دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد کیپٹل ہل میں امریکی کانگریس کے اراکین کے دو جماعتی گروپ سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے” ایکس“ پر پوسٹ کیا کہ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران میں نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف اردن کے مستحکم موقف کا اعادہ کیا انہوں نے لکھا کہ یہ عربوں کا متحدہ موقف ہے کہ فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو اور سنگین انسانی صورت حال سے عہدہ بر آ ہونا سب کی ترجیح ہونی چاہیے. اردن کے حکمران اپنے دورے میں ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہدہ داروں سے بھی ملاقات کریں گے جن میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز، مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور اراکین کانگریس شامل ہیںشاہ عبداللہ تیسرے غیر ملکی راہنما ہیں جنہوں نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے ٹرمپ کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات کی ہے. ادھرمصر نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک جامع تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جب کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین پر برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے قاہرہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ خطے میں جامع اور منصفانہ امن کے حصول کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے . شمالی کوریا کے سرکاری ٹیلی ویژن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے واشنگٹن پر بھتہ خوری کا الزام عائد کیا ہے کورین نشریاتی ادارے نے براہ راست ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ اس تجویز سے فلسطینیوں کی سلامتی اور امن کی کمزور امیدوں کو کچلا جا رہا ہے کوریا کا کہنا ہے کہ دنیا اب امریکا کے اعلان پر دلیے کے برتن کی طرح ابل رہی ہے. فرانسیسی صدر ایمانول میکرون نے امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این“ کو ایک انٹرویو میں غزہ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے ٹرمپ کے منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینیوں اور ان کے عرب ہمسایوں کے لیے احترام پر زور دیا انہوں نے کہا کہ آپ 20 لاکھ لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹھیک ہے اب اندازہ لگائیں کیا ہوگا؟ آپ کو نکال دیا جائے گا اس کا صحیح جواب رئیل اسٹیٹ آپریشن نہیں ہے یہ ایک سیاسی آپریشن ہے. انہوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا میکرون نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ اپنے اختلاف کا اعادہ کیا ہے ایک بار پھر نہیں سمجھتا کہ بعض اوقات عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے اتنا بڑا آپریشن درست آپشن ہے دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 30 سے زائد آزاد ماہرین نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضہ کرنے اور مسلسل دھمکیاں دینے کی مذمت کی گئی ہے. ماہرین کا کہناہے کہ غیر ملکی علاقوں پر زبردستی حملہ کرنا اور ان کا الحاق کرنا، اس کی آبادی کو زبردستی ملک بدر کرنا، فلسطینی عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم کرنا، بشمول غزہ کو خودمختار فلسطینی ریاست کے اندر برقرار رکھنا واضح طور پر غیر قانونی ہے. ماہرین نے خبردار کیا کہ ایک بڑی طاقت کی طرف سے اس طرح کی کھلی خلاف ورزیوں کے عالمی سطح پر امن اور انسانی حقوق کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے اور دنیا نوآبادیاتی فتح کے سیاہ دنوں میں واپس چلی جائے گی انہوں نے ایسے طریقے بھی تجویز کیے جن سے ٹرمپ فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں حقیقی طور پر فکر مندی ظاہر کرسکتے ہیں ان میں پائیدار جنگ بندی، یو این آر ڈبلیو اے کو فنڈنگ دوبارہ شروع کرنا، اسلحے کی منتقلی کو روکنا اور اسرائیل کو فراہم کیے جانے والے امریکی ہتھیاروں اور گولا بارود کے نتیجے میں فلسطینیوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ دینا شامل ہے.