Daily Mumtaz:
2025-02-13@10:19:44 GMT

سبی میلہ مویشیاں کا آج سے آغاز

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

سبی میلہ مویشیاں کا آج سے آغاز

سبی کا سالانہ تاریخی میلہ آج سے شروع ہو رہا ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے میلے کے شایان شان انعقاد کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کرلیے گئے، صوبائی وزیر صنعت و حرفت سردار کوہیار ڈومکی میلے کا افتتاح کریں گے۔

سبی میلہ مویشیاں و اسپاں 13 فروری سے 17 فروری تک جاری رہے گا جس میں ملک بھر سے مالدار حضرات شریک ہونگے۔

میلہ میں بلوچستان کے معاشی سرگرمیوں مالداری، زراعت، دستکاری کے علاوہ معاشرتی طرز حیات و فنون لطیفہ کے حوالے سے اسٹالز اور کئی پروگرام مرتب کیے گئے ہیں۔

بلوچستان کے ثقافتی و معاشرتی رنگوں کو میلہ میں خصوصی طور پر اجاگر کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر صنعت و حرفت سردار کوہیار ڈومکی سبی کے تاریخی میلے کا افتتاح کریں گے، جبکہ میلے کی اختتامی تقریبات میں گورنر بلوچستان، وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت وفاقی و صوبائی وزراء اور دیگر کی شرکت متوقع ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

امریکی میڈیا، سچ اور معاشرتی علوم

ذرا ایک لمحے کو تصور کیجیے ماضی کے اس عالمی منظر نامے کا جہاں 2  ہی عالمی طاقتیں تھیں۔ ایک یو ایس ایس آر اور دوسری یو ایس اے۔ اور دنیا سیاسی لحاظ سے انہی 2 کے بیچ منقسم تھی۔ کہنے کو ایک گروپ غیر وابستہ ممالک کا بھی تھا مگر یہ غیر وابستہ ممالک بھی کسی نہ کسی درجے میں وابستہ ہی تھے۔ ان 2 عالمی طاقتوں میں سے جسے بھی زوال آتا دوسری طاقت کے وارے نیارے ہونے تھے۔ زوال آیا، وہ بھی ہماری نظروں کے سامنے۔ سوویت یونین تحلیل ہوگیا اور بظاہر پوری دنیا پر واحد سپر طاقت کی حیثیت سے امریکی راج کا راستہ کھل گیا۔

یہ راستہ کسی بھی رکاوٹ سے اس قدر صاف تھا کہ فرانسس فوکویاما نے ’اینڈ آف ہسٹری‘ لکھ کر دنیا پر واضح کردیا کہ سوویت زوال کی صورت انسانی تاریخ کے اس باب کا تتمہ رقم ہوگیا جس کی ہر سطر نظریاتی کشمکش سے عبارت تھی۔ اب بس ایک ہی نظریہ ہوگا جو پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ لبرلزم کا نظریہ۔ تب ہمارے دانش کدوں کی ہر شاخ پر کمیونسٹوں کے جلوے تھے۔ انہوں نے فوکویاما کے اینڈ آف ہسٹری کو حرف آخر مان کر قبول کرلیا اور جس منہ سے ایک روز قبل کمیونزم کے گن گا رہے تھے، اسی منہ سے اگلی صبح لبرلزم کے گیت گانے شروع کردیے۔ رنگ اتنی تیزی سے بدلے کہ گرگٹ بھی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین

مگر سوال تو یہ ہے کہ سوویت زوال کے بعد ایک دن بھی ایسا دیکھا جاسکا جب لبرلزم نصف دنیا پر ہی اپنا راج قائم کر پایا ہو؟ دو ہی سپر طاقتیں تھیں۔ ان میں سے ایک تحلیل ہوگئی تو امریکا کے لیے راستہ صاف تھا۔ اس راستے میں کوئی روڑا تھا نہ ہی کانٹا تو پھر عظیم امریکا دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے میں بری طرح ناکام کیوں ہوگیا؟ یقین مانیے راستہ بالکل ہی صاف تھا مگر امریکا کے راستے میں اچانک ایک بڑی رکاوٹ آگئی۔ اس رکاوٹ کا نام بھی امریکا ہی تھا۔اور وہ یوں کہ امریکا جنگی جنون کا دوسرا نام ہے۔ اپنی 250 سالہ تاریخ میں اس ملک نے 240 سے زائد چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ ذرا لسٹ نکال کر دیکھ لیجیے کہ اپنے حریف یہ کس دانشمندی سے چنتا آیا ہے۔ پسماندہ ممالک ہی اس کے جنون کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔

سوویت زوال کے بعد امریکا کو یہ بھی تو دکھانا تھا کہ واحد سپر طاقت ہونا کیا ہوتا ہے؟ سو بقول سابق نیٹو کمانڈر جنرل ویزلے کلارک، 7 ممالک کی لسٹ بنائی گئی کہ انہیں ملیامیٹ کرکے دنیا کو دکھانا ہے کہ واحد سپر طاقت کیسی ہولناک ہوتی ہے۔ خیال یہ تھا کہ انہی 7 ممالک کے انجام سے عبرت پکڑ کر باقی سب نے ’راضی خوشی‘ امریکا کا کلمہ پڑھ لینا تھا۔ ہرچند کہ واضح ہوچکا تھا کہ کھیل افغانستان اور عراق میں ہی بگڑ چکا۔ مگر کچھ ردوبدل کے ساتھ پلان کو عرب اسپرنگ کی صورت آگے بڑھانے کی بھی کوشش ہوئی جو بری طرح ناکام ہوگئی۔

مزید پڑھیے: مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین

اس بہت ضروری کام میں امریکا نے خود کو 20 سال تک الجھائے رکھا۔ اور مشن پر اس حد تک فوکسڈ رہا کہ آزو بازو دیکھ ہی نہ پایا کہ چین ان تمام میدانوں میں اس سے آگے نکل رہا ہے جن میدانوں میں آگے نکلنے کا نتیجہ عالمی طاقت بننے کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ روس بھی ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہوچکا۔ یوں سوویت زوال کے 35 سال بعد آج ہم ایک ایسی دنیا میں کھڑے ہیں جہاں گوگل پر یہ سرچ کیا جا رہا ہے کہ چائنیز نیوی بڑی ہے یا امریکی نیوی؟ روس، چین اور ایران کے پاس تو ہائپرسونک میزائلز ہیں، امریکا کے پاس کیوں نہیں ہیں؟ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں امریکا کو چین کی ہمسری حاصل کرنے میں کتنے برس لگیں گے؟  یہ وہ چند سوالات ہیں جو مغرب کا نوجوان گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کر رہا ہے۔

اور اگر انہی حوالوں سے کوئی مغربی صحافی امریکی صدر یا حکومت سے سوال کردے کہ چین اور روس ٹیکنالوجی کے باب میں ہم سے آگے کیسے نکل رہے ہیں؟ تو جواب ہر بار ایک ہی ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ ہماری ہی ٹیکنالوجیز ہیں جو انہوں نے ہم سے چرا لی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی 2 ہفتے قبل ہی فرمایا تھا کہ ہائپرسونک ٹیکنالوجی روس نے ہم سے ہی چرائی ہے۔ چلیے مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہے تو ذرا اپنا وہ ہائپرسونک میزائل بھی تو دکھایے جو آپ نے بنا رکھا ہے اور جس کی ٹیکنالوجی روس نے چرا لی ہے۔ امریکی صدر سے یہ کہنا چھوڑیے، ان سے تو یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ جنابِ صدر اگر ہم ٹیکنالوجی میں آج بھی واقعی اتنا آگے ہیں کہ روس اور چین ہماری ٹیکنالوجیز چرا رہے ہیں تو ہم کوئی ایسا تالا کیوں ایجاد نہیں کر پا رہے جس سے ہمارا وہ صندوق محفوظ ہوسکے جس میں ساری ٹیکنالوجیز رکھی ہیں؟

مزید پڑھیں: امریکی سیاست اور مذہبی ٹچ

یوں لگتا ہے جیسے امریکا کے ساتھ کوئی بہت بڑا ’پرینک‘ ہوگیا ہے۔ بقول فوکویاما سوویت زوال کے بعد اس کو واحد عالمی طاقت کے طور پر 21ویں صدی پر راج کرنا تھا۔ خود بش سینیئر نے کہا تھا کہ 21ویں صدی ہماری صدی ہوگی۔ مگر 21ویں صدی شروع ہوتے ہی اولے پڑنے شروع گئے۔ اور ان اولوں نے صرف 25 برس میں اس کا حال یہ کردیا ہے کہ اس کے زوال کی بڑی علامات بھی ظاہر ہونے لگی ہیں۔

پچھلے 25 برسوں کے دوران خود ہمارے لبرل دانشور ہمیں بار بار باور کراتے تھے کہ امریکا نے دنیا کو آزادی کا ایسا حقیقی تصور دیا ہے جہاں بھونکنے کی بھی کھلی اجازت ہے۔ آپ فری اسپیچ کے نام پر بول بھی سکتے ہیں اور بھونک بھی سکتے ہیں۔ پھر ہمیں امریکی میڈیا دکھا کر بتایا جاتا کہ ایسا ہوتا ہے ’آزاد میڈیا‘ کسی مائی کے لال کی جرأت نہیں کہ گورے صحافی کو لفافہ آفر کر سکے۔

یہ بھی پڑھیے: امام غزالی، دینی تعلیم اور مُلا

اگرچہ لگتا یہ ہے جیسے امریکا ہی نہیں ہمارے لبرل دانشور بھی کسی پرینک کا شکار ہیں۔ مگر ہم یہ کہیں گے کہ یہ زوال کی بڑی علامات میں سے ہے کہ آپ اپنی شناخت پر ہی سمجھوتا کر جائیں۔ فریڈم اور فری اسپیچ امریکا کا بنیادی تعارف تھا۔ آج جان کیری ہی نہیں ہیلری کلنٹن بھی صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ یہ فری اسپیچ گلے پڑ رہی ہے، اس کا کوئی علاج کرنا چاہیے۔ جبکہ ٹرمپ کی حکومت نے ابھی صرف یو ایس آئی ڈی کے گٹر کا ڈھکن ہی اٹھایا ہے اور اس گٹر سے لال بیگ نہیں بلکہ یہ تفصیل برآمد ہو رہی ہے کہ مغربی میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو سالہا سال سے اس مد میں اربوں ڈالر عطا کیے جا رہے تھے کہ وہ صرف ’معاشرتی علوم‘ والا سچ ہی بیان کریں۔ یعنی وہ سچ جو امریکی ریاست کا تخلیق کردہ ہو۔ اب یہ تو ہمیں کوئی لبرل دانشور ہی بتا سکتا ہے کہ ’لفافہ‘ صرف روپے والا حرام ہوتا ہے یا ڈالر والے لفافے کا بھی یہی حکم ہے؟

مزید پڑھیں: ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی

جانتے ہیں اس سچ نے امریکی میڈیا کا کیا حشر کردیا ہے؟ سی این این جیسے پاپولر نیوز چینل کی پرائم ٹائم ویورشپ صرف 3 لاکھ پر آگری ہے۔ سی این بی سی کو ایلان مسک چٹکی بھر رہا ہے کہ بھئی اگر چینل بیچنا ہو تو میں خریدنے کو تیار ہوں۔  یہ 2 نام تو ہم نے بس بطور مثال ہی لیے ہیں۔ حال سب کا یہی ہے۔ آج کی تاریخ  میں مین اسٹریم امریکی نیوز چینلز سے زیادہ ویورشپ امریکا کے متوسط درجے والے پوڈکاسٹرز کی ہے۔ کسی نے تصور بھی کیا تھا کہ امریکی یوٹیوبرز کے ناظرین سی این این سے زیادہ ہوسکتے ہیں؟ مارکیٹ میں خبر گرم ہے کہ بڑے امریکی چینلز نے بڑی تنخواہوں والے ان اینکرز کی لسٹیں تیار کر لی ہیں جنہیں یہ کہہ کر نکالنا ہے کہ جب آپ کا پروگرام کوئی دیکھتا ہی نہیں تو ہم آپ کو موٹی موٹی تنخواہیں کیوں دیں؟ بد قسمتی دیکھیے کہ یہ بیچارے ہمارے اینکرز کی طرح یہ بھی نہیں کہہ پائیں گے ’یہ سچ کا گلا گھونٹنے کی سازش ہے‘ کیونکہ لفافے تو ٹرمپ طشت از بام کرتا جا رہا ہے۔ جو لفافے کے عوض ہو، وہ کہاں سے سچ ہوگیا ؟ وہ تو معاشرتی علوم ہوتا ہے !

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا امریکی میڈیا اور سچ پرینک چین روس سپرپاورز معاشرتی علوم

متعلقہ مضامین

  • اجتماعی زیادتی کے واقعات، اثرات اور حل
  • میلہ مویشیاں بحال ویل ڈن مریم نواز
  • امریکی میڈیا، سچ اور معاشرتی علوم
  • بلوچستان، دہشتگردی سے متاثرہ افراد کی امداد کیلئے ترمیمی بل منظور
  • ورلڈ بینک کے منصوبوں پر بلوچستان کے تحفظات دور کریں گے، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی یقین دہانی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججز کی کازلسٹ منسوخ، جسٹس اعجاز ایک بار پھر رخصت پر
  • صدر مملکت آج نیشنل اسٹیڈیم کا افتتاح کریں گے، تیاریاں مکمل ، شائقین کا داخلہ مفت
  • ترک صدر رجب طیب اردوان 2 روزہ دورہ پر 12 فروری کو پاکستان پہنچیں گے
  • نیشنل اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریب کی تیاریاں مکمل، صدر مملکت افتتاح کریں گے، شائقین کا داخلہ مفت