Express News:
2025-02-13@10:28:31 GMT

اے این ایف کا کریک ڈاؤن؛ 3 کروڑ سے زائد کی منشیات برآمد

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

اینٹی نارکوٹکس فورس ( اے این ایف) نے مختلف کارروائیوں میں 3 کروڑ روپے مالیت سے زائد کی منشیات برآمد کرلیں۔

ترجمان اے این ایف کے مطابق منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیوں میں 6 ملزمان کو گرفتار کرکے 66 کلو سے زیادہ منشیات برآمد کی گئیں۔  

مانسہرہ میں کالج کے قریب ملزم کے قبضے سے  300 گرام چرس جبکہ کراچی میں یونیورسٹی کے قریب ملزم کے شولڈر بیگ میں چھپائی گئی 12 کلو گرام چرس برآمد کی گئی۔ گرفتار ملزم نے تعلیمی اداروں کے طلباء کو منشیات فروخت کرنے کا اعتراف کیا۔

لاہور میں گلشن راوی روڈ پر ملزم کےسفری بیگ میں چھپائی گئی 22.

2 کلو گرام چرس برآمد کر کے ملزم کو گرفتارکیا گیا۔  ملتان میں شاہ رخ عالم کے قریب 2 ملزمان کے قبضے سے 12 کلو گرام افیون، 16 کلو گرام ہیروئن اور 2 کلو گرام آئس برآمد ہوئی۔ ضلع خیبر میں جمرود سے 1.964 کلو گرام آئس برآمد کی گئی۔ ملزم کو گرفتارکر لیا گیا۔

گرفتار ملزمان کے خلاف انسداد منشیات ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے تحقیقات شروع کردی گئیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کلو گرام

پڑھیں:

پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے قانونی اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ نئے آنے والوں میں سے بعض دیگر ممالک جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں پناہ کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں مقیم تھے۔

سال رواں کے شروع میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کو سیکورٹی و معاشی وجوہات کی بنا پر واپس ان کے ملک بیجھنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے تحت دستاویزات کے بغیر اور موجود دستاویزات میں درج مدت سے زیادہ قیام کرنے والوں سمیت غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجھا جائے گا۔

(جاری ہے)

گرفتاری اور جبری طور پر افغانستان منتقلی کے ڈر سے ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کا دورہ پاکستان اور مہاجرین سے ملاقات

ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی

پشاور میں کاروبار کرنے والے ایک افغان باشندے عبدالماجد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اسلام آباد اور پنجاب کے کئی شہروں میں افغان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

کئی خاندان خیبر پختونخوا آ چکے ہیں۔ یہاں دستاویزات رکھنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبدالماجد کا کہنا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے پشاور میں کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے کئی شہروں میں کاروباری رابطے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا، ''اب اتنا بڑا کاروبار کس طرح چھوڑوں؟ افغانستان میں مجھے پھر نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا ہو گا اور وہاں اس وقت کاروبار آگے بڑھانے کے مواقع نہیں ہیں۔

‘‘

عبدالماجد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی ماحول میں تعلیم و تربیت کے بعد ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ان کے بچوں میں سے دو کبھی افغانستان نہیں گئے۔ ''کاروباری مجبوری اپنی جگہ ہے لیکن خاندان میں کوئی بھی واپس افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ حالات بہتر ہوں، تو پھر جائیں گے، تو عبدالماجد کا کہنا تھا کہ ان کی تو خواہش ہے کہ وہ چلے جائیں لیکن بچے تو پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔

‘‘ رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار

پاکستان میں مختلف ادوار میں دو سے آٹھ ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت 2002ء سے 31 اکتوبر 2024ء تک چار ملین افغان واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ البتہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان مختلف راستوں سے واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

ان افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد اور پشاور میں اس اُمید سے رہائش پذیر ہیں کہ انہیں کسی تیسرے ملک میں پناہ مل جائے گی۔ پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی سامنے آنے کے بعد پاکستان نے بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 200 سے زیادہ افغان باشندوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔

اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے مختلف شہر پہنچ رہی ہے۔ صوبائی صدر مقام پشاور میں سب سے زیادہ افغان رہائش پذیر ہیں، جن میں بعض کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔

ان افغانوں نے خیبر پختونخوا کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے۔ پشاور پہنچنے والے زیادہ افغان باشندےمالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیمپوں سے باہر رہنے والے افغان مہاجرین

خیبر پختونخوا میں 69 فیصد افغان باشندے مہاجر کیمپوں سے باہر رہائش پذیر ہیں، جن میں زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

پاکستانی اور غیر ملکی امدادی اداروں نے ان کی مالی معاونت بند کی ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں افغانستان جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن پاکستان میں گرفتاری کا خطرہ بھی ہے۔

غیر یقینی صورتحال کی وجہ سےافغان مہاجرین کے بچےکسی بھی تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھ سکتے۔ خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں بڑی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کسی کالج یا یونیورسٹی میں انہیں حصول علم میں مشکلات کا سامنا ہے۔ والدین سمیت بچوں کو بھی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہےجبکہ علاج معالجے کے بھاری اخراجات ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ دکان میں ڈکیتی کی واردات کرنے آئے ملزمان رنگے ہاتھوں گرفتار
  • لاہور: 14 سالہ لڑکے سے جنسی زیادتی کرنے والے 2 ملزم گرفتار
  • پڈعیدن،نواحی علاقوں میں کریک ڈائون ،8 ملزمان گرفتار
  • لاہور: پولیس کی مختلف کارروائیوں میں دو اشتہاریوں سمیت چار ملزمان گرفتار
  • بلوچستان میں بڑی کارروائی، 90 کروڑ سے زائد مالیت کی چرس برآمد
  • نیوزی لینڈ جانے والے پارسل سے 2 کلو سے زائد آئس برآمد
  • اوگرا کا ایل پی جی کے غیر قانونی استعمال کے خلاف کریک ڈاؤن
  • پی ٹی اے، ایف آئی اے کا پہلےسے فعال غیرملکی سمز کی فروخت کیخلاف کریک ڈاؤن
  • پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات