چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کی کاز لسٹ منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کی کاز لسٹ منسوخ کر دی گئی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل بینچ کے سامنے 40 مقدمات سماعت کے لیے مقرر تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بینچ ٹو اب بینچ ون میں کیسز کی سماعت کرے گا۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی آج چیمبر ورک کریں گے۔
مزید پڑھیں؛ سپریم کورٹ میں 7 ججوں کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری، ہائیکورٹس کےقائم مقام چیف جسٹسز بھی مقرر
دوسری جانب، سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تقریب حلف برداری کا شیڈول تبدیل کر دیا گیا اور نئے ججز کی تقریب حلف برداری اب جمعہ کو ہوگی۔
واضح ہے کہ چھ مستقل اور ایک عارضی جج کی تقریب حلف برداری آج ہونا تھی لیکن رات تاخیر سے ججز کی تقرریوں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے سبب حلف برداری تقریب بھی نہیں ہو سکی۔
سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تعینات ہونے والے ججز تاخیر سے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے سبب نہیں پہنچ سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔
مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم
دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔
ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس
ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔
ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔
واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔