Nai Baat:
2025-02-13@09:56:06 GMT

کتاب میلے اور ناشرین کی ہیرا پھیری !

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

کتاب میلے اور ناشرین کی ہیرا پھیری !

لاہور میں یہ مہینہ کتاب میلوں کا مہینہ ہے۔ سال کے پہلے مہینے ایسے ہی گزرتے ہیں۔ بہار کے مشاعرے ، کتاب میلے اور پھولوں کی نمائش لاہور کی پہچان ہے۔ پریس کلب ، الحمرا ہال ، ایکسپو سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی ، پاک ٹی ہاؤس ، پنجابی کمپلیکس سمیت علم و ادب کے دیگر ٹھکانوں سے شکر خوروں کو شکر ملتی رہتی ہے۔ باغ جناح اور جیلانی پارک یعنی ریس کورس میں بھی پھولوں کی نمائش اور ہریالی زندگی کا پتہ دیتی ہے۔ نہر اور مال روڈ کو بھی سجایا جاتا ہے۔ لاہور اسی لیے لاہور ہے کہ آلودگی میں پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود یہاں کی تیز ترین زندگی سے بھی خوشی کے چند لمحے کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یہ شہر گاؤں سے آنے والے لاکھوں کڑیل نوجوانوں کو کھا گیا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہجرت کرنے والے اب اسی شہر کے مقیم ہیں۔ یہ بھی عجیب زندگی ہے کہ پہلے لاہور کے ارد گرد موجود گاؤں دیہات سے نوجوان روزگار کے لیے یہاں آئے ، زمین بیچ کر کاروبار کیا اور اب کئی سال لاہور گزارنے کے بعد ایکڑوں میں بیچی گئی زمین مرلوں میں خرید رہے ہیں۔ لاہور کے ارد گرد موجود پھولوں کے باغ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ باغ بیچنے والے اب اسی جگہ گھر بنا رہے ہیں کہ پطرس بخاری کی وفات کے کئی برس بعد بھی لاہور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ چند سال قبل لاہور کو اوقات میں رکھنے کے لیے شہر کے گرد دائرے میں ایک سڑک بنا دی گئی تھی تاکہ اس شہر کی حد بندی ہو سکے ،اب وہ رنگ روڈ بھی شہر کے اندر ہے اور لاہور اس کے چاروں طرف پھیل چکا ہے۔

اگلے روز لاہور ایکسپو سنٹر میں کتاب میلہ سجا۔ اس کتاب میلے میں کراچی تک سے لوگ آتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست بیرون ممالک سے بھی تشریف لائے۔ بلاشبہ ایکسپو سنٹر لاہور اور کراچی کے کتاب میلے پاکستان کے بڑے کتاب میلے ہوتے ہیں۔ کچھ دوستوں کے مطابق لاہور کا کتاب میلہ دوسرے نمبر پر ہے کہ پہلا بڑا میلہ تاحال کراچی میں سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ بھی شاندار ہوتا ہے جو چند روز بعد سجے گا۔ اس بار کتاب میلے میں جہاں برگر شوارمے اور کتابوں کے بکنے پر بحث چلتی رہی وہیں ناشرین اور خریداروں کے درمیاں بھی مباحثے ہوئے جس پر سوشل میڈیا میں اب بھی گفتگو چل رہی ہے۔ کتاب میلے میں کچھ بک سٹال خالی خالی تھی تو کہیں کھڑکی توڑ رش نظر آیا۔ جہلم بک کارنر کے مالکان کا دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ کتاب علی اکبر ناطق کی فروخت ہوئی۔ مجھے علی اکبر ناطق سے بعض معاملات میں شدید اختلاف ہے لیکن پبلشر کی گواہی کے بعد ایمانداری کا تقاضا ہے کہ انہیں بطور لکھاری سراہا جائے جو آج کے دور میں قاری کو ایسا ادب مہیا کر رہے ہیں جس نے کتاب کلچر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ جہلم بک کارنر نے یہ روایت زندہ رکھی ہوئی ہے کہ وہ معروف ادیبوں کو اپنے سٹال پر بلاتے ہیں، لوگ کتب خرید کر اپنے پسندیدہ ادیب کے ساتھ تصویر بناتے ہیں اور کتاب پر دستخط کراتے ہیں۔ ناطق بیسٹ سیلر رہے لیکن سیلفی اور تصاویر کے حوالے سے ہجوم روف کلاسرا کے ارد گرد رہا۔ ان کی کتاب بھی دھڑا دھڑ بک رہی تھی۔ کتاب میلے پر ان کی کم از کم ایک نئی کتاب لازمی منظر عام پر آتی ہے۔ ایکسپو سنٹر میں سٹال بہت مہنگا ملتا ہے جس کی وجہ سے کئی اچھے پبلشر غائب تھے۔ قلم فاؤنڈیشن والے علامہ عبد الستار کی تحریک پر گزشتہ برس سو سے زائد نجی "رحمت للعالمین لائبریریاں ” قائم ہوئیں لیکن ان کی کتب حسن عباسی کے "نستعلیق ” پر تھیں۔
جہاں کتاب میلہ شاندار تھا وہیں کچھ شکایات بھی تھیں۔ اس بار پبلشرز نے یہ ڈنڈی ماری کہ کتاب پر قیمت پرنٹ نہیں کی۔ قیمت کے سامنے رقم والی جگہ خالی چھوڑ دی تھی۔ ایسی کتب من مانی قیمت پر فروخت کی گئی۔ اسی طرح پرانی قیمت پر زیادہ قیمت والے سٹیکر لگا کر پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ کے نام پر بھی اصل قیمت میں کتابیں بیچی گئیں۔ قارئین اس پر شکوہ کرتے نظر آئے۔ کتاب میلے کے منتظمین کو ایسی "وارداتوں” کا نوٹس لینا چاہیے ورنہ قارئیں بدظن ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے نامور ناشر اعجاز احمد نواب کتب فروشوں کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سپر سٹور پر پڑی پرانی اشیا کا ریٹ تبدیل ہونے پر پہلے سے موجود سٹاک پر نیا ٹیگ لگ سکتا ہے تو پرانی کتب پر بھی نئے ریٹ کا سٹیکر لگانا درست ہے۔ ان سے عرض کی کہ اگر کتاب کے نئے ایڈیشن موجود ہوں تو پرانی کاپی کو پرانی قیمت پر ہی فروخت کرنا چاہیے کیونکہ نئی کی نسبت وہ خستہ حال ہو چکی ہو گی۔اگر کتاب نایاب ہو اور اس کی کوئی کاپی دستیاب نہیں یا بہت قدیم نسخہ ہو تو اس کی کمیابی کی اہمیت کے پیش نظر قیمت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ سپر سٹور پر دودھ سمیت ایسی کئی اشیا ہیں جو ایکسپائری تاریخ تک فروخت نہ ہوں تو واپس یا ضائع ہو جاتی ہیں۔ پرانی چیزوں کی اہمیت کسی نہ کسی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ رؤف کلاسرا کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اچھا کانٹنٹ بک رہا ہے اور اچھا کانٹنٹ شائع کرنے اور رائلٹی دینے والے پبلشرز کامیاب ہیں۔ جن پبلشرز نے مصنف سے مکمل اخراجات و منافع ایڈوانس لے کر غیر معیاری مواد کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کر دیا ان کی کتاب واقعی نہیں بکتی لیکن اس کی قیمت وہ پہلے ہی مصنف سے لے چکے ہوتے ہیں۔ اس کاروباری کلچر نے بھی کتاب کو نقصان پہنچایا ہے۔ کتاب کلچر آج بھی زندہ ہے اور پبلشر منافع میں ہیں۔ غیر معیاری کتب ، پرانی قیمت پر نئے ریٹ کے سٹیکر ، ڈبل قیمت رکھ کر "آدھی ” یعنی اصل قیمت پر کتاب بیچنے کے ہتھکنڈے بھی قارئین کو متنفر کر رہے ہیں۔ کتاب کلچر کو بچانے کے لیے پبلشرز کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ایکسپو سنٹر نے والے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی نئی نسل کیسی کتابیں پڑھنا چاہتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) آج کل کے ڈیجیٹل دور میں پاکستان کی نئی نسل میں کتاب خوانی کے رجحانات میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔

لاہور میں منعقدہ پانچ روزہ کتاب میلے میں شریک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا بالکل نہیں کہ نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔

آج بھی ایک خاص تعداد کتابوں کی شیدائی ہے اور طبع شدہ کتابیں پڑھنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ لیکن زیادہ تر نوجوانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سوشل میڈیا کے دور میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بیشتر نوجوان آن لائن ریسورسز کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

لاہور کے ثقافتی و سماجی پس منظر میں لکھا گیا ناول جلایا کیوں گیا؟

ٹیکنالوجی کی طاقت، ترقی اور محروم طبقات کا استحصال

’’آج‘‘ کے ذریعے ادب کو عوامی بنانے کی کوشش

کتاب میلے میں موجود اسما نامی ایک لڑکی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ آج کے بچے ویزوئل دور والے بچے ہیں، ان کا کتابوں سے تعلق کم ہو رہا ہے۔

وہ ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں جن پر ٹیکسٹ کم ہو اور اس کے ساتھ تصویریں زیادہ ہوں۔ اسما کے مطابق ابھی تک پاکستان میں آڈیو بکس پڑھنے کا رجحان فروغ نہیں پا سکا۔

کتاب میلے میں شریک تانیہ نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایاکہ نوجوان نسل بڑی حد تک کتابوں سے دور ہو چکی ہے۔ اب لوگ آن لائن ریڈنگ یا پی ڈی ایف فارمیٹ میں الیکٹرانک کتابیں پڑھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

ان کے بقول مذہب اور شاعری سمیت بہت سے دیگر موضوعات کی نسبت بچے فکشن زیادہ پڑھتے ہیں۔ اسما زیادہ تر جاپانی اور کوریا کے مصنفین کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھتی ہیں۔ انہیں روحانیت، ٹائم ٹریول اور فینٹیسی پر مبنی کتابیں پسند ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ وہ سیلف ہیلپ اور ذہنی صحت کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ زیادہ تر بچوں نے فکشن پڑھنے کو اپنی پسند بتایا۔

فرسٹ ایئر کے طالب علم محمد شاہ زیب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر طالب علم کا معاملہ مختلف ہے۔ کچھ کتابوں میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے اور کچھ اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ ''مجھے دنیا کی مقبول ترین کتابیں پسند ہیں اور خوش قسمتی سے پاکستان میں بہت سی ایسی کتابوں کے تراجم پر مبنی کتابیں اب دستیاب ہیں۔ مجھے فکشن فلسفہ اور تاریخ کے موضوعات پر مبنی کتابیں پسند ہیں لیکن اب موضوعات بھی بدل رہے ہیں۔

بہت سے نوجوان مصنوعی ذہانت، ای کامرس اور سوشل میڈیا سے پیسے کمانے والی معلومات رکھنے والی کتابیں بھی پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال سے پاکستانی پبلشرز کو نوجوان بچوں کی کی نفسیات اور ان کی پسند و ناپسند کو سامنے رکھ کر کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘

نئی نسل خصوصاً جنریشن زی کے بچے کس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں اسما کا کہنا تھا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر بچے کا ذوق مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اسما کے بقول جنریشن زی کو ایسی کتابیں پسند ہیں جن کے چند صفحات پر مبنی چھوٹے چھوٹے چیپٹرز ہوں اور چیپٹرز بھی زیادہ نہ ہوں۔ ہر صفحے پر دو سو سے زائد الفاظ نہ ہوں اور ٹیکسٹ کی تصویروں کی مدد سے وضاحت کی گئی ہو۔ آج کل بھاری بھرکم مواد اور ثقیل زبان والی کتابیں بچوں کو پسند نہیں آتیں۔

آج کی جنریشن شیکسپئیر جیسی تحریروں کی بجائے عام فہم اسلوب پڑھنا پسند کرتی ہے۔ چھوٹے فقرے، آسان زبان، صاف اور سیدھی باتوں اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی تصویروں والا ٹیکسٹ ہی بچے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

اسما کے مطابق جس طرح کوک اسٹوڈیو نے مقامی میوزک کو جدید ٹچ کے ساتھ نوجوان نسل کے لیے دلچسپ بنایا اس طرح مقامی کہانیوں کو بھی انگریزی اور اردو کتابوں میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹک ٹاک پر بک ٹاک سمیت انسٹا گرام اور ایکس پر کتابوں کی مارکیٹنگ نوجوان نسل کو کتابوں سے جوڑ رہی ہے۔ لوگ کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں اور کتابوں کے ویڈیو کلپ بناتے ہیں۔ اگر کسی کو کتاب اچھی لگے تو وہ خرید بھی لیتے ہیں۔

ثنا نامی لاہور کی ایک طالبہ نے بتایا کہ بچوں کو فلموں سے واپس کتابوں کی طرف لانے کے لیے کتابوں کے معیار، مواد اور قیمتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

کلاس دہم کے طالب علم محمد سمیر نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ کتاب میلوں میں ایک چھت کے نیچے ہزاروں کتابوں کی کولیکشن میسر آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کی کتابیں خرید سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اچھی کتاب کے لیے زیادہ قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔ ای بکس میں وہ مزا نہیں جو ایک کتاب ہاتھ میں پکڑ کر اسے محسوس کرکے پڑھنے میں آتا ہے۔ اسما کا خیال ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کی قوت خرید کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہاں کتابیں مہنگی ہیں۔

میں نے دس ہزار روپے میں چار کتابیں خریدی ہیں باقی امپورٹڈ کتابیں اس سے بھی مہنگی ہیں۔

ایک پبلشر کے بقول امیر لوگوں کو کتاب کی قیمت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لوئر مڈل کلاس کے لیے کتاب خریدنا آسان نہیں، انہیں دال روٹی کی فکر رہتی ہے لیکن مڈل کلاس صرف اچھی کتابوں کے لیے پیسے خرچ کرتی ہے۔

ایمان حسن نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ وہ آرٹ ورک کی طرح اچھی کتابوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے بچپن میں جو کتابیں پڑھی تھیں اب وہ ان کتابوں کے خوبصورت چھپے ہوئے مہنگے ایڈیشن خریدتی ہیں۔ ''مجھے انہیں بار بار پڑھنے میں مزا آتا ہے۔ میں نے بہت پہلے الکیمسٹ پڑھی تھی، اب میں نے اس کا جدید اور مہنگا والا ایڈیشن خریدا ہے۔ اچھی کتاب کا خوشگوار احساس ، اس کے کاغذ کی خوشبو اور اس کے ٹائیٹل کی فیل مجھے کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

‘‘

کراچی سے آئے ہوئے ایک پبلشر شاہ فہد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان میں کتابوں کی دنیا کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ''دنیا بدل گئی ہم الف انار اور ب بکری سے باہر نہیں آ سکے۔ ہم نے بہت چھوٹے بچوں کے لیے ایک تصویری کتاب شائع کی ہے، جس میں بچہ تصویریں دیکھ کر ہسپتال، شاپنگ مال کی شناخت کرتا ہے اور باہر جا کر ان عمارتوں کو پہچانتا ہے۔

‘‘

ان کے بقول انہوں نے یورپی کتابوں کا جائزہ لے کر اپنی اشاعتی پالیسی بنائی ہے جس میں تھوڑے ٹیکسٹ کو استعمال کرکے تصویروں والے آرٹ ورک کے ساتھ بچوں کی کتابیں تیار کرتے ہیں اور وہ بچوں میں کافی مقبول ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بکرہ لیموں نہیں کھاتا اور شیر تھو تھو نہیں کرتا لیکن ہم تخلیقی انداز میں نئی نئی کہانیاں لا رہے ہیں، جس کا مطلب نوجوان ریڈرز کے ذہن کھولنا ہے۔

ہماری کتاب خریدنے والے ہماری ویب سائٹ پر جا کر اس کہانی کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے ایک ممتاز پبلشر سلیم ملک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان کی بک انڈسٹری کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے نجی شعبے کو حکومت کا تعاون درکار ہے۔ ان کے بقول کچھ پبلشرز نے پہلے ہی نوجوان نسل کی بدلتی ضروریات کے مطابق کام شروع کر رکھا ہے۔ چند سال پہلے لاہور نے بولتی کتابوں کے نام سے پرنٹ اور سی ڈی پر مبنی بچوں کی کہانیاں تیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو کہ ابھی تک چل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور پولیس کے اے ایس آئی کی موت، تشدد کرنے والے گرفتار
  • لاہور: 14 سالہ لڑکے سے جنسی زیادتی کرنے والے 2 ملزم گرفتار
  • لاہور،دریائے راوی کے خشک ہونے والے حصے پر لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں
  • سبی میلہ مویشیاں کا آج سے آغاز
  • سچائی کا جزیرہ
  • بُک شیلف
  • کراچی: چشمہ گوٹھ سمندری دلدل سے خاتون کی 5 روز پرانی لاش ملی
  • مرغی کا گوشت پھر مہنگا ہوگیا
  • پاکستان کی نئی نسل کیسی کتابیں پڑھنا چاہتی ہے؟