تجاوزات کے بعد اداروں کی صفائی کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
جب مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن رہی تھیں تو کئی حلقوں کی جانب سے مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ وہ پہلی بار وزارت علیا کی کرسی پر متمکن ہو رہی ہیں تو کچھ ڈلیور کر پائیں گی یا نہیں؟ ان تحفظات کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ وہ اس سے پہلے پارٹی آرگنائزر تو رہیں لیکن کبھی وزیر نہیں بنیں’ تو اب اچانک ان کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں تو وہ معاملات کو سنبھال پائیں گی یا نہیں؟ ایک سوچ یہ بھی تھی کہ مرکز میں چچا وزیر اعظم ہیں’ اور پنجاب میں بھتیجی وزیر اعلیٰ تو صورت حال ٹھیک رہے گی یا نہیں؟ وہ حلقے یہ بھی سوچ رہے تھے کہ مریم نواز سے پہلے سید محسن نقوی اور ان سے پہلے مریم نواز کے چچا شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کامیاب ادوار گزار چکے تھے۔ دونوں حضرات نے اتنے بہترین انداز میں حکمرانی کی کہ شہباز شریف کو شہباز سپیڈ اور محسن نقوی کو محسن سپیڈ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کے وقت تحفظات ظاہر کرنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ آیا مریم نواز اتنی تیزی سے اور اتنے احسن انداز میں صوبے کے معاملات چلا سکیں گی جس بہترین انداز میں شہباز شریف اور محسن نقوی نے صوبے کے معاملات کو دیکھا’ فیصلے کیے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کرایا۔
میں یہ بات بڑی خوشی اور مسرت کے گہرے جذبات کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ مریم نواز ان دونوں سے بڑھ کر قابل ثابت ہوئی ہیں۔ آج پنجاب کے معاملات کا جائزہ لیں تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پورے پنجاب میں کام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کوئی ایسا شہر نہیں جہاں ترقیاتی اور دوسرے کام ہوتے ہوئے نظر نہ آ رہے ہوں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مریم نواز انڈس ہسپتال کے افتتاح کے لئے تشریف لائیں تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ جب تقریب ہو گئی تو میں نے چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کو ایک طرف لے جا کر ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ آپ کے پاس کمشنر موجود ہے’ ڈی سی موجود ہے’ آپ کے پاس اسسٹنٹ کمشنر موجود ہے’ لیکن آپ تجاوزات کے خلاف کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری نے میری باتیں نہایت غور سے سنیں اور جلد ان معاملات پر توجہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ میں یہ بتاتے ہوئے بڑی خوش محسوس کر رہا ہوں کہ اس کے چند ہی دنوں کے بعد تجاوزات کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات شروع ہو گئے’ آج حالات اچھے ہیں’ تجاوزات کا خاتمہ ہو رہا ہے اور پنجاب میں ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
میں دنیا کے متعدد ممالک کے دورے کر چکا ہوں۔ ان ممالک میں مجھے کہیں تجاوزات نظر نہیں آئیں۔ ہمارے ہاں تجاوزات قائم کرنا ایک رواج بن چکا ہے۔ خاص طور پر جی ٹی روڈ پر ہر دوسری بلڈنگ کمرشلائزڈ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہاں تجاوزات قائم ہو رہی ہیں۔ اس عمل کو روکا جانا چاہیے اور مزید کمرشلائزیشن کا سدِ باب ہونا چاہیے۔ یہ تجاوزات کا ہی کمال ہے کہ جی ٹی روڈ پر گاڑیاں اچانک رکتی ہیں’ اور اچانک ہی یو ٹرن لیتی ہیں اور اس طرح حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ بڑے دکانداروں نے اور بڑے ہوٹلوں کے مالکان نے اپنے لیے سپیشل یو ٹرنز یعنی سڑکوں پر کَٹ بنوائے ہوئے ہیں تاکہ ان تک زیادہ سے زیادہ گاہک آ سکیں اور گاہکوں کو ان تک پہنچنے میں آسانی ہو’ انہیں زیادہ لمبا فاصلہ طے نہ کرنا پڑے۔
جو تجاوزات قائم ہو چکی ہیں ان کا خاتمہ تو ہونا ہی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد ایسا ہونا چاہیے کہ کسی کو تجاوزات قائم کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔ تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف محض چھوٹی سی کارروائی کافی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور تجاوزات کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ترامیم کر کے ان کو مزید سخت بنایا جانا چاہیے تاکہ کوئی تجاوزات کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ اب تک ہوتا یہ رہا ہے کہ کارپوریشن کا عملہ آتا ہے’ جو تجاوزات کی گئی ہوتی ہیں وہ گراتا ہے یا اگر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جانے والی چیزیں ہیں تو وہ اٹھا کر لے جاتا ہے’ جو لوگ تجاوزات کرتے ہیں ان کو کچھ تھوڑا بہت جرمانہ کیا جاتا ہے اور بس۔ یہ لوگ یعنی تجاوزات قائم کرنے والے کارپوریشن کے دفتر جاتے ہیں’ جرمانہ ادا کرتے ہیں’ اپنی چیزیں واپس لے آتے ہیں اور واپس آ کر دوبارہ تجاوزات قائم کر لیتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسے اقدامات ہونے چاہئیں اور قانون اس سختی کے ساتھ لاگو کیا جانا چاہیے کہ ایک دفعہ تجاوزات ختم کر دی جائیں تو دوبارہ کسی کو تجاوزات قائم کرنے کی جرأت نہ ہو سکے۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پنجاب میں اگر تجاوزات مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہیں تو اس سلسلے کو دوسرے صوبوں تک بھی پھیلایا جائے تاکہ وہاں سے بھی تجاوزات ختم ہو جائیں اور پورا پاکستان صاف ستھرا ہو جائے۔ سارا ملک اپنا ہی تو ہے۔
میں نے 1995ء میں ہانگ کانگ میں نائٹ مارکیٹیں دیکھی تھیں۔ اسی طرز پر یہاں بھی کام ہونا چاہیے۔ جو جگہیں اور جو گرائونڈ خالی ہیں وہاں اگر ہانگ کانگ کی طرز کے نائٹ بازار لگائے جائیں تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور عوام کو سستی اشیا بھی دستیاب ہو سکیں گی۔ ہمارے ہاں منگل بازار’ جمعہ بازار اور اتوار بازار تو لگائے جاتے ہیں لیکن یہ بازار سڑکوں پر لگائے جاتے ہیں جو بذاتِ خود تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے اور جس سے ٹریفک کا بہائو بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہ بازار اگر نائٹ مارکیٹوں میں تبدیل کیے جائیں اور مارکیٹیں کھلی جگہوں پر لگائی جائیں تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی شام یا رات کے وقت لوگ فارغ ہوتے ہیں اور ان کے لیے اس وقت خریداری کرنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میںسال بھر میں چار پانچ مہینے شدید گرمی رہتی ہے اور دن کے وقت شاپنگ ناممکن ہو جاتی ہے۔ ایسے میں نائٹ مارکیٹیں کاروبار بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
تجاوزات کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ پنجاب میں رشوت اور کرپشن کا پھیلنا ہے۔ سرکاری ادارے عوام کے کام کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائے گئے ہوتے ہیں لیکن حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ آپ کسی سرکاری ادارے سے اپنا کوئی جائز کام بھی متعلقہ اہلکاروں اور کلرکوں کی مٹھیاں گرم کیے بغیر نہیں کرا سکتے۔ ہاں کچھ رشوت دے دیں’ کہیں سے کوئی سفارش لڑا لیں’ تو آپ کا کام فوری طور پر ہو جائے گا۔ بغیر رشوت لیے’ بغیر پیسے دیئے کوئی فائل حرکت نہیں کرتی۔ میرے خیال میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کو اس مسئلے کے حل پر بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ وہ اگر یہ کام کر لیتی ہیں تو نہ صرف ان کی حکمرانی گڈ گورننس کی مثال بن جائے گی بلکہ ان کی پارٹی مسلم لیگ ن کی پوزیشن بھی مزید مستحکم ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ کام سرکاری اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک اچھا اور فول پروف نظام قائم کر کے کیا جا سکتا ہے۔ مریم نواز اگر باقی شعبوں کی حالات بہتر بنا سکتی ہیں تو میرا نہیں خیال کہ وہ رشوت اور کرپشن پر قابو نہ پا سکیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں جو حل نہیں ہوتے اور لوگ انصاف چاہتے ہیں جو انہیں نہیں ملتا۔
مریم نواز جیسی لیڈر کو ووٹوں کا خیال نہیں کرنا چاہیے۔ سخت فیصلوں سے اگر دو چار ووٹر ناراض ہوتے ہیں تو دس نئے ووٹر بن جاتے ہیں۔ سخت فیصلے ہونے چاہئیں اور اداروں کا قبلہ درست کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ مریم صاحبہ کو رواج ڈالنا چاہیے کہ ان کے منسٹر ہفتے میں ایک دفعہ دو گھنٹے لوگوں کی آن لائن شکایات سنیں اور فوری طور پر احکامات جاری کر کے ان کے مسائل حل کریں۔ ہر ادارے کا ایک پورٹل ہوتا ہے۔ اس میں کمپلینٹ سیل قائم ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کے لیے اعلیٰ حکام تک رسائی آسان ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کچھ کم ہوئی ہے۔۔ مریم نواز اگر توجہ دیں ، تجاوزات کی طرح اداروں سے کرپشن کا صفایہ کریں تو پنجاب اور پاکستان کی کرپشن کے تناظر میں پوزیشن مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تجاوزات قائم کرنے تجاوزات قائم کر تجاوزات کے وزیر اعلی مریم نواز جاتے ہیں کے ساتھ ہیں اور نہیں کر ہے اور اور ان ہیں تو کے لیے کیا جا
پڑھیں:
لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز
ANKARA:پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ترکیے میں منعقدہ ڈپلومیسی فورم میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی سطح پر عہد پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور میں اے آئی (آرٹیفیشنل انٹیلیجینس) یونیورسٹی کا قیام اور اے آئی پر مبنی تعلیم کے فروغ سے مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے ترکیہ کے شہر انطالیہ میں ڈپلومیسی فورم 2025 فورم کے فورتھ ایڈیشن میں ‘خواب دیکھنے، ان کی تعبیر حاصل کر لینے اور کر دکھانے والے راہنماؤں’ کے اجتماع سے خطاب کیا اور اس سے اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا۔
مریم نواز نے کہا کہ ہم سب دنیا کو منصفانہ بنانے اور اجتماعی بہتری کی سوچ کے ساتھ یہاں جمع ہیں، ترکیہ کی خاتون اول محترمہ امینہ اردوان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، معارف فاؤنڈیشن لائق تحسین ہے جس نے ایک فیصلہ کن مرحلے پر یہ اجلاس منعقد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ دو قومیں لیکن ان کے دل ملے ہوئے ہیں اور وہ ایک مشترکہ سوچ اور مقصد کے لیے متحد ہیں، پنجاب کے عوام کی طرف سے ترک بہن بھائیوں کے لیے محبت بھرا سلام اور یک جہتی کا پیغام لے کر آئی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت بچوں، خواتین کی فلاح و بہبود اور انہیں تعلیم و ترقی کی فراہمی کے وعدے کی تکمیل کے لیے پورے جذبے، عزم اور محنت سے کام کر رہی ہے، خواتین اور بچوں کی سماجی بہتری کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مارچ 2024 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ان مضبوط بنیادوں پر کام کا آغاز کیا جو نواز شریف اور شہباز شریف اپنے پہلے ادوار میں تاریخی خدمت کرتے ہوئے قائم کر گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک نئے جذبے اور رفتار سے معاشی ترقی، تعلیم، صحت کے انفرا اسٹرکچر کی بہتری کا آغاز کیا، 4 ہزار سے زائد پرائمری اسکولوں کو اپ گریڈ کیا، روایتی رکاوٹوں کو مٹا کر نئی بنیادیں تشکیل دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد یقینی بنانا ہے کہ کوئی بچہ خاص طور پر دیہات میں تعلیم اور اسکول سے محروم نہ رہے، پنجاب بھر میں 6 ہزار اسکولوں میں ڈیجیٹل لرننگ رومز بنائے جا رہے ہیں، چاک کے بجائے ٹچ اسکرینز کا سفر شروع کر دیا گیا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ بند اسکولوں کو دوبارہ بحال کرکے علم کے گہواروں یں بدلا جا رہا ہے، 50 ہزار طلبہ کے لیے ہونہار اسکالرشپس کا آغاز کیا گیا تاکہ ہر طالب علم کا خواب حقیقت بنے۔
انہوں نے کہا کہ اسکول میں بچوں کو دودھ کی فراہمی، غذائیت کی کمی دور کرنے کا پروگرام شروع کیا گیا، معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے 30 ہزار نئے اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا پروگرام شروع کیا گیا ہے، اے آئی پر مبنی لرننگ پلیٹ فارمز مہیا کیے گئے تاکہ جدید دنیا کی رفتار کے ساتھ ہمارے بچے اور بچیاں ترقی کریں۔
انطالیہ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ لاہور میں پاکستان کی پہلی اے آئی یونیورسٹی کا قیام اور اے آئی پر مبنی تعلیم کا فروغ مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے۔
وزیر اعلی مریم نواز نے قصور کی ندا اور اس کے شوہر، جنوبی پنجاب کے اکرام کی تعلیم کا واقعہ بھی سنایا جنہیں پنجاب حکومت کے تعلیم دوست اقدامات سے فائدہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پہلی 'نواز شریف انٹرنیٹ سٹی' ڈیجیٹل پاکستان کا نیا چہرہ بنے گی، تعلیم صرف نصابی مواد نہیں بلکہ زخموں کو بھرنے اور محرومیوں کو ختم کرنے کی دوا بھی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب کی ہر بچی کو تعلیم دینا مریم نواز شریف کا مشن ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے خطاب میں فلسطینی، کشمیری، افغان اور سوڈان کے بچوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ فلسطین کے ملبے تلے معصوم بچے دفن ہیں، افغانستان میں بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے بچے تعصبات اور ظلم کا شکار ہیں، سوڈان میں خوراک کے لیے میلوں چلنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ مسائل ہیں جو تمام انسانیت بالخصوص ہم سب کے لیے باعث فکر و تشویش ہیں لیکن ہم سب کو مل کر ان مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ہوگا، ہم ان کی آواز بنیں گے جن کی آواز دبا دی گئی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ بچیوں کی تعلیم کے لیے عالمی اتحاد کی ضرورت ہے، آئیں عزت و وقار کی سفارت کاری کا آغاز کریں، خارجہ تعلقات میں انسانیت کو اولیت دی جائے، مراکش سے ملتان، دہلی سے ڈھاکہ تک لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی عہد کریں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ترکیہ کی یونیورسٹیوں کو پنجاب میں اپنی تعلیمی خدمات کے آغاز کی دعوت دیتی ہوں۔
مریم نواز نے ترک زبان میں شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم صرف لیڈر نہیں، نجات دہندہ بن کر آئے ہیں، اصلاحات سے ہی نیا مستقبل تعمیر ہو سکتا ہے، پاک-ترک دوستی دلوں کو ملانے اور نسلوں تک قائم رہنے والا رشتہ ہے جو ہمیشہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہے گا۔