پریشان نہ ہوں ہمیں بخوبی علم ہے کہ پتے ہوا دیتے ہیں لیکن گذشتہ کالم ’’ آخری مورچہ بھی چلا گیا ‘‘ کی مناسبت سے اس کالم کا عنوان یہی مناسب لگا ۔ اس لئے کہ محاورہ تو یہی ہے کہ ’’ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ‘‘ اور ہم نے گذشتہ کالم میں جن مورچوں کا ذکر کیا تھا وہ مورچے بھی کسی کے لئے پتوں کا کام کر رہے تھے لیکن اب بلا جھجک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی مورچے ہوا دینے لگے ۔ آپ کا دل اگر کرے تو مورچوں کی جگہ پتے بھی کہہ سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں ۔ لمبی تمہید سے قارئین کو بوریت سے بچاتے ہوئے پتوں اور مورچوں کے حوالے سے مختصر سی گفتگو کے بعد اب اصل بات پر آ جاتے ہیں ۔ حالات یہ ہو گئے تھے کہ اڈیالہ جیل سے لے کر انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک خطوط کے ذریعے ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کرنے کی حد درجہ کوشش کی گئی اور یہ کوششیں دم توڑ جائیں گی اس حوالے سے یقین کے ساتھ کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے اس لئے کہ بانی پی ٹی آئی نے تو اپنے پہلے خط پر جس طرح کا دل شکن رد عمل آیا تھا اس کے باوجود دوسرا خط بھی لکھ ڈالا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آئندہ ہفتے وہ تیسرا خط بھی لکھیں گے ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ محترم ججز نے بھی خط لکھے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو لکھا کہ دیگر ہائیکورٹس سے اسلام آباد میں آنے والے ججز سے نیا حلف لے کر ان کی سنیارٹی طے کی جائے ۔ نیا حلف لینے کا پنڈورا بکس کھولنے کا اول و آخر مقصد یہی تھا کہ کچھ بھی ہو لیکن اسلام آباد کا نیا چیف جسٹس ان کی مرضی کا ہو اور سنیارٹی کا یہ مسئلہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز تک محدود نہیں رہا بلکہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے بھی چیف جسٹس کو اسی حوالے سے خط لکھ کر استدعا کی کہ جب تک 26ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کو موخر کیا جائے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ وکلاء کے اقلیتی گروہ نے پیالی میں طوفان بپا کرنے کی بھی پوری کوشش کی اور جس دن جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہونا تھا اس دن شاہراہِ دستور پر احتجاج کا اعلان کر دیا گیا ۔ اس تمام تگ و دو کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ جو کچھ بھی ہو وہ آئین اور قانون کے تحت نہ ہو بلکہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے فین کلب اور سہولت کاروں کی مرضی و منشا کے مطابق ہوں اس لئے کہ جو کچھ ہونے جا رہا تھا وہ بھی تو کوئی معمولی نہیں تھا بلکہ اس سے مستقبل میں بہت کچھ بدلنے جا رہا تھا ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پانچ محترم ججز کے خط کا بڑا ہی موثر اور مدلل جواب دیا کہ ٹرانسفر اور تعیناتی میں بڑا فرق ہوتا ہے اور جو ججزدیگر ہائیکورٹس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئے ہیں ان کی تعیناتی نہیں ہوئی بلکہ ٹرانسفر ہوئی ہے اس لئے حلف لینا ضروری نہیں ہے ۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی سپریم کورٹ کے چار محترم ججز کے خط پر رائے دینے کی بجائے اسے جوڈیشل کمیشن میں رکھ کر اس پر رائے لی تو اکثریت نے ججز کی رائے کے بر خلاف رائے کا اظہار کیا اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں چھ مستقل اور ایک عارضی جج کی منظوری دے دی ۔ ان تمام مراحل کے بعد اب کم از کم عدالتی محاز پر آنے والے دنوں میں راوی کافی حد تک چین ہی چین لکھ رہا ہے اس لئے کہ آئین اور قانون کی بجائے ضمیر کی آواز پر فیصلے کرنے والے ججز کو بڑے طریقے سلیقے سے پس منظر پر بھیج دیا گیا ہے اور ان تمام مراحل میں کسی ایک مرحلے پر بھی کسی بھی قسم کی کوئی غیر آئینی حرکت نہیں کی گئی اور جو کچھ بھی ہوا وہ سب آئین اور قانون کے مطابق ہوا ۔ اس میں ایک بات خاص طور پر اہم ہے کہ وہ 26ویں ترمیم کہ اس دوران جس کا بڑا چرچا رہا اور عوام کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب کچھ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہو رہا ہے لیکن ایسانہیں تھا ۔ جہاں تک ایک ہائیکورٹ سے دوسرے ہائیکورٹ میں ججز کی ٹرانسفر کی بات ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل200کے تحت کیا گیا جو کہ آئین میں 26ویں ترمیم سے پہلے ہی موجود ہے جبکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعدادکو کسی آئینی ترمیم سے نہیں بلکہ قانون کے ذریعے بڑھایا گیا ہے ہاں البتہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو یقینا 26ویں آئینی تریم کے تحت ہوئی ہیں ۔
جیسا کہ عرض کیا کہ اب عدالتی معاملات تو سکون ڈاٹ کام سے چلنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں لیکن کالم کے شروع میں عرض کیا تھا کہ کیا ملکی سیاست میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں ختم ہو جائیں گی تو ایسا بالکل نہیں بلکہ ایک کوشش ناکام ہونے کے بعد دوسری کوشش کی جائے گی اور یہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ یوم ِ سیاہ کے موقع پر تمام تر دعوئوں کے باوجود صوابی کے جلسے میں گذشتہ جلسوں سے کم تعداد میں لوگ آئے تھے ۔عوام سے مایوس ہونے کے بعد اب تمام تر امیدیں آئی ایم ایف سے وابستہ کر لی ہیں کہ آئی ایم ایف کا جو وفد پاکستان آیا ہوا ہے تو اس کی ملاقاتیں چیف الیکشن کمیشن اور دیگر احکام سے ہونی ہے اور کوشش یہی ہو رہی ہے کہ کسی بھی طرح آئی ایم ایف ان کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بن جائے لیکن ایسا ہوتا ابھی نظر نہیں آ رہا ۔ اس لئے آئی ایم ایف معیشت کی بہتری کے لئے اگر ملکی سیاست میں استحکام کا خواہاں ہے تو 26ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد ہونے والے اقدامات سے ملکی سیاست میں انتشار نہیں بلکہ مستقبل میں استحکام کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو آئی ایم ایف کے اگر کچھ اپنے مخصوص مقاصد نہ ہوئے تو وہ کسی سے بھی ملاقات کر لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور آئی ایم ایف سے لگائی امیدیں بھی اسی طرح ریت کی دیوار ثابت ہوں گی کہ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے لگائی گئیں امیدیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ ملکی سیاست میں جوڈیشل کمیشن ا ئی ایم ایف 26ویں ا ئینی سپریم کورٹ نہیں بلکہ اس لئے کہ کورٹ میں چیف جسٹس کوشش کی کورٹ کے نے والے تھا وہ کے تحت ججز کی کے بعد
پڑھیں:
عمران خان نے پی ٹی آئی کو وکلا تحریک کا ساتھ دینے کی ہدایت کردی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر پارٹی کو وکلا تحریک کا ساتھ دینے کی ہدایت کردی جبکہ فیصل چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی آئی ایم ایف وفد سے رابطہ کرے گی اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات بھی ہوگی، آئی ایم ایف وفد کو پیش کرنے کے لیے ایک ڈوزئیر تیار کرلیا ہے جس میں پی ٹی آئی پر ڈھائی سال میں ہوئے مظالم سے متعلق بتایا جائے گا۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید سابق وزیراعظم عمران خان سے ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وکلا فیصل چوہدری شعیب شاہین، علی اعجاز بٹر، عرفان نیازی اور عمران نیازی نے ملاقات کی ہے، ملاقات کانفرنس روم میں الگ الگ کروائی گئی۔
عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فیصل چوہدری نے کہا کہ ایس او پی کے تحت عمران خان سے آج وکلا اور بشریٰ بی بی کی ملاقات کروائی گئی، عمران خان نے ایک بار پھر 26ویں ترمیم کو پاکستان کے عدالتی نظام پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کا مفاد اور ملکی مفاد متضاد ہے۔
فیصل چوہدری نے بتایا کہ عمران خان نے پارٹی کو ہدایت کی کہ ججز تقرریوں پر وکلا تحریک کا ساتھ دیں، انہوں نے کہا ججز کو امپورٹ کرکے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ لایا جارہا ہے، پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے، جس کی عوام نے 8 فروری 2024 کو بھرپور حمایت کی، قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن فراڈ کو پورا تحفظ فراہم کیا۔
عمران خان کے وکیل نے مزید کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے جو اوپن خطوط لکھے ہیں ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، پاکستان میں رول آف لا کو ختم کردیا گیا ہے، دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں کرنے کے بجائے ایجنسیوں کو پی ٹی آئی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ صوابی جلسے پر بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے، عمران خان کا ٹرائل کنٹرولڈ ماحول میں کیا جارہا ہے، فیئر ٹرائل نہیں دیا جارہا ہے، ہم نے عمران خان کا ٹرائل کھلی عدالت میں کرانے سے متعلق ایک درخواست بھی دائر کی ہے، کل عمران خان کی گفتگو کچھ میڈیا چینلز نے آن ایئر کی، ہم چاہتے ہیں میڈیا جرات کا مظاہرہ کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کا نظام شفافیت پر چلتا ہے، انسانی حقوق کی 60 ہزار پٹیشنز سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کا جو آڈٹ ہوتا ہے اس کے لیے 2 ہفتے رکھے گئے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کو اپنی کتابیں کھولنی چاہیئے، بنیادی اصول انصاف کی فراہمی ہے، ذوالفقا ربھٹو کو 40 سال بعد سپریم کورٹ نے ایڈمٹ کیا، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو اوپن کورٹ میں پیش کیا جائے، ہم نے حکومت سے مذاکرات معطل کیے ہیں، ہم گرینڈ اپوزیشن الائنس کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں 6 مستقل جبکہ ایک ایکٹنگ جج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
گزشتہ روز وکلا کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ ججز کی تقرریوں کا معاملہ مؤخر کیا جائے۔
مزیدپڑھیں:’بات کر لیں گے تو گھِس نہیں جائیں گے‘، خاتون کی کرکٹر صائم ایوب سے بدتمیزی، ویڈیو وائرل