حریت وفد نے ملاقات کے دوران ملائیشیا کے نمائندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال سے آگاہ کیا جن میں دوران حراست قتل، آبادی کے تناسب میں تبدیلی اور قابض بھارتی فورسز کی طرف سے منظم خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے ایک وفد نے ملائیشیا میں اسلامی تنظیموں کی مشاورتی کونسل (MAPIM) کے صدر محمد اعظمی عبدالحمید اور دیگر رہنمائوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق حریت رہنما الطاف حسین وانی کی زیر قیادت وفد میں ایڈوکیٹ پرویز احمد، شمیم شال، سید فیض نقشبندی اور شیخ عبدالمتین شامل تھے۔ حریت وفد نے ملاقات کے دوران ملائیشیا کے نمائندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال سے آگاہ کیا جن میں دوران حراست قتل، آبادی کے تناسب میں تبدیلی اور قابض بھارتی فورسز کی طرف سے منظم خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ الطاف حسین وانی نے کہا کہ بھارتی حکومت کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آنے کا بیانیہ عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے دھوکہ دہی پر مبنی ایک ہتھکنڈا ہے۔ وفد نے ملائیشین رہنمائوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم شناخت کو مٹانے کے لئے مندروں کی تعمیر اور علاقے میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو مسلط کرنے کی بھارتی حکومت کی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا۔ ملائیشیا کے وفد نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں، بھارت کی طرف سے مسلط کی جانے والی آبادیاتی تبدیلیوں اور علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنے کی منظم کوششوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کی حالت زار کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کا یقین دلایا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں وفد نے

پڑھیں:

بنگلہ دیش احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ گزشتہ سال بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے خلاف عوامی احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم پامالیوں کا ارتکاب کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس دوران صرف 46 یوم میں 1,400 لوگ ہلاک ہوئے جن کی اکثریت سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنی۔

یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ سابق حکومت کے عہدیدار، انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے اداروں اور سابق حکمران جماعت سے وابستہ متشدد عناصر نے سوچے سمجھے انداز میں یہ جرائم کیے۔ اس تشدد میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے جن پر قریب سے براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔ Tweet URL

طلبہ کے زیرقیادت اس احتجاج کے دوران لوگوں کو ماورائے عدالت ہلاک کیا گیا، انہیں ناجائز قید میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان قیدیوں میں بچے بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

وولکر ترک نے کہا ہے کہ انہوں نے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں بھی حقوق کی ان سنگین پامالیوں کے بارے میں بتایا ہے جو بین الاقوامی جرائم کے مترادف ہو سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش 'آئی سی سی' کا رکن ہے اور روم معاہدے کے تحت عدالت ایسے ملک میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم بشمول جارحیت پر مبنی جرائم پر قانونی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔

بچوں کی ہلاکتیں

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ سابق سیاسی قائدین اور اعلیٰ سطحی سکیورٹی حکام اس تشدد سے آگاہ تھے اور انہوں نے اس کے لیے سہولت اور ہدایات بھی دیں۔ اس کا مقصد مظاہرین کو دبانا اور اقتدار پر حکومت کی گرفت کو مضبوط رکھنا تھا۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں میں 12 تا 13 فیصد تعداد بچوں کی تھی۔

بنگلہ دیش کی پولیس کے مطابق، یکم جولائی اور 15 اگست 2025 کے درمیان اس کے 44 اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

یہ احتجاج سرکاری نوکریوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا تھا جو بعدازاں حکومت مخالف تحریک میں بدل گیا۔ رپورٹ کے مطابق سابق حکومت کا تباہ کن اور بدعنوان انداز حکمرانی، سیاسی مخالفین پر جبر اور ملک میں پھیلی گہری عدم مساوات اس احتجاج کے بنیادی اسباب تھے جو شیخ حسینہ کی اقتدار سے بیدخلی پر منتج ہوئے۔

بدترین ریاستی تشدد

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ حکومت نے سوچی سمجھی اور مربوط حکمت عملی کے تحت اس احتجاج کا پرتشدد جواب دیا۔ اس حوالے سے اکٹھی کی جانے والی شہادتوں اور لوگوں کے بیانات سے بدترین ریاستی تشدد، ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے، مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل کو مستحکم بنانے کے لیے احتساب اور انصاف بہت ضروری ہے۔

بنگلہ دیش میں اس احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق تحقیقات کے لیے 'او ایچ سی ایچ آر' نے اپنا کام 16 ستمبر 2024 کو شروع کیا تھا۔ اس ضمن میں فارنزک، اسلحے اور صنفی امور کے ماہرین اور ایک تجزیہ کار پر مشتمل ٹیم کی تشکیل دی گئی ہے۔ ان تفتیش کاروں نے یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں سمیت بہت سی ایسی جگہوں کا دورہ کیا ہے جہاں سے انہیں صورتحال کا درست اندازہ قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ٹیم نے اپنی رپورٹ کی تیاری کے لیے 900 سے زیادہ ایسے لوگوں سے بھی بات چیت کی ہے جو اس تشدد کے عینی شاہد اور متاثرین ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان میں بے امنی پھیلانے کی تفصیلات سامنے آ گئیں
  • مقبوضہ کشمیر، کانگریس نے ”ریاستی درجے“ کی بحالی کیلئے 15روز مہم شروع کر دی
  • بنگلہ دیش احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں، رپورٹ
  • مغربی طاقتوں کا دوہرا معیار
  • مقبوضہ کشمیر میں دھماکے سے ایک افسر سمیت دو بھارتی فوجی ہلاک
  • مقبوضہ کشمیر میں گشت پر مامور بھارتی فوج کی گاڑی دھماکے میں تباہ؛ 2 افسر ہلاک
  • مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب دھماکہ، کیپٹن سمیت 2 بھارتی فوجی ہلاک
  • کشمیری حریت رہنما مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی کیوں دی گئی تھی؟
  • تحریک آزادی جموں وکشمیر کے عظیم رہنما مقبول بٹ کا آج یوم شہادت