Juraat:
2025-04-15@09:56:19 GMT

اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار، بنی اسرائیل

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار، بنی اسرائیل

ریاض احمدچودھری

یہودیوں کی بدقسمتی یہ کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے بھی متعدد بار لعنت بھیجی ہے۔ یہودیوں نے اپنی ہزاروں سالہ زندگی اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانیوں میں گزاری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور سے بنی اسرائیل نام کی قوم کا آغاز ہوا اور دم تحریر تک یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ دنیا بھر کی اقوام میں یہ وہ واحد قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ غضب و غصے اور پھٹکار و ملامت کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔ اسرائیلیوں کی مکرو فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔قرآن پاک کے مطابق یہ قوم عہد و پیمان کی مسلسل نافرمانی کرتی تھی جس کے بعد کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لٹکایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عہد شکنیوں کاان کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ اللہ کی آیات کو فروخت کرتے تھے اور ان سے اپنے ڈھب کے مطلب برآمد کرتے تھے۔ اللہ نے جب انہیںآسمان سے بلامحنت و مشقت رزق (من و سلویٰ) فراہم کیا تو ضد کر کے اسے بند کروایا اور مطالبہ کیا کہ ان کے لئے زمین سے اناج اور سبزیاں اگانے کا بندوبست کیا جائے۔ اللہ نے انہیں ایک بستی میں داخل ہوتے وقت ”حطّہ” (معانی) کا لفظ ادا کرنے کے لئے کہامگر انہوں نے ضد میں اسے بدل کر کسی اور لفظ میں تبدیل کردیا۔ آسمان سے بھیجے گئے اپنے پیغمبروں کو قتل کرنے اور انہیں پھانسی پر چڑھانے سے بھی انہیں کوئی عار نہ تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کروایا۔ ایک نبی کو کنوئیں میں الٹا لٹکا کر چھوڑ دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختہ دار تک پہنچانے کی سازش میں پیش پیش رہے۔اللہ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بہت سٹپٹائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانچ دفعہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رب سے اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک حکم لے کر آئیں تاکہ وہ کسی طرح گائے کے ذبح سے بچ جائیں وغیرہ وغیرہ۔
یہودیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ ” اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو انہیںبدترین عذاب دیں گے۔” (الاعراف۔ ٧٦١)
ایک اور مقام پر اللہ نے کہا ہے کہ ”یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذلت کی مار پڑی۔ کہیں اللہ یا انسانوں کی حفاظت میں انہیں پناہ مل گئی تو اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ہیں اور محتاجی اور مغلوبی ان پر مسلط کردی گئی ہے۔” (آل عمران۔٢١١)
اس وقت دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں جن میں سے اڑتالیس لاکھ اسرائیل میں بستے ہیں۔اسرائیل نہ تو ان کی آبائی زمین تھی اور نہ ہی یہاں ان کے مکانات وغیرہ تھے۔ یہودیوں کو جنگ عظیم اول کے بعد ایک سازش کے تحت برطانیہ نے فلسطین میں یہ کہہ کر آباد کرایا کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔
عیسائی اقوام وسیع و عریض خلافت عثمانیہ کو توڑ کر پاش پاش کیا اور دسیوں چھوٹی بڑی عرب ریاستیں وجود میں لے کر آئے ۔ یوں انہوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اس دن سے آج تک مسلمانوں کو نہ تو پھر ویسی اتحاد و یکجہتی میسر ائی اور نہ ”اسرائیلی” ریاست سمٹ کر مختصر ہوسکی۔ آج عالم یہ ہے کہ یہ یہودی ریاست مسلسل توسیع پذیر ہے اوراس کی سرحدیں آئے دن پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔
یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر ملکیت کا تنازع کھڑا کیا۔ کہا کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی ہے۔ یہ ہماری ملکیت ہے۔ رسول اللہۖ ایک رات میں خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ گئے۔ پھر مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” سے آسمانوں پر اللہ سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔اس کاذکر قرآن شریف میں موجود ہے۔ مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” کویہودیوں نے دیوار گریہ بنا ڈالا۔ اس پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے 1930میں ایک بین الاقوامی عدالت نے مسجد اقصیٰ اور اس کے اردگرد کے علاقے پر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے پر، برطانیہ کے بادشاہ نے ایک فرمان بھی جاری کیا تھا جسے”ویسٹرن وال ڈیکری آف1931ء کا جاتا ہے جو اْس وقت کے گزٹ میں بھی شائع ہوا تھا جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس فیصلے اورفرمان کے بعد یہودی خاموش ہو گئے تھے۔
حکومت برطانیہ نے اس معاملہ پر کہ کیا مسجد اقصیٰ مسلمانوںکی ہے( جو یقینی اور تاریخی طور پر مسلمانوں کی ہے) یا یہودیوں کا دعویٰ کہ یہ ہیکل سلیمانی تھا فیصلہ کرنے کے لیے یورپی ثالثوں، غیر جانبدار، ججوں،وکلا، بین الاقوامی مورخین اور ماہر آثار قدیمہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں ایک بھی مسلمان نہیں تھے۔ مسجد اقصیٰ اور اس کے قدیمی مغربی دیوار کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔اس بین الاقوامی عدالت نے اسے دیوار”براق” تسلیم کیا تھا نہ دیوار گریہ۔مسجد اقصیٰ کو بھی مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت نے تسلیم کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی دلیلیں درست ہیں۔ مسلمان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مسجد اقصیٰ ”دیوار براق” اور آس پاس کا علاقہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ اس کا ذکر قرآن شریف میں بھی موجود ہے۔ اس پر یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ دیوار گریہ پر یہودی اپنا حق ثابت نہیں کر سکے۔دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد ثالثی کمیٹی نے اپنا آخری اجلاس28 نومبر سے یکم دسمبر1930ء میںپیرس میں منعقد کیا۔ متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔نمبر ایک، مغربی ویوار صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے اور ان ہی کا اس پر حق ہے۔ اس روز روشن فیصلے کے بعد بھی کم ظرف اور اللہ کی دھتکارے ہوئے یہودی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر کے اس کو مسمار کر کے ہیکل سلیمانی بنانے اور مسجد اقصیٰ کی مغربی ”دیوار براق” کو دیوار گریہ کہہ کر اس کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ یہ سراسر شیطانی فعل ہے۔ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز نہیںپڑھنے دیتے۔ ہر وقت اسکی شیطانی فوجیں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بین الاقوامی علیہ السلام مسلمانوں کی اللہ تعالی دیوار براق دیوار گریہ اللہ نے کے بعد

پڑھیں:

زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ

ڈاکٹر سلیم خان

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جہاں ملک بھر میں وقف بل کو لے کر شدید بے چینی پائی جارہی ہے وہیں سمراٹ اشوک کی سرزمین بہار میں بدھ مت کے پیروکار مقدس مہابودھی وہار پر ہندو کنٹرول کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ بودھ گیا میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ہندو رسومات بدھ مت کے اصولوں کی خلاف ہیں اس لیے وہار کا مکمل اختیار بودھ سماج کو دیا جائے ۔ مہابودھی وہار کا انتظام و انصرام 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے ۔ اس کے آٹھ رکنی کمیٹی میں ہندو اور بودھ نمائندوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے ، تاہم بودھ رہنما اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دے کر مندر کے مکمل انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تاریخی اعتبار سے یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سولہویں صدی میں ہندوؤں نے مندر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے خود ساختہ بودھ گیا مٹھ نے وہار کے دفاع اور تحفظ کی ذمہ داری ازخود اپنے اوپر اوڑھ لی اور اس کے تحفظ کی آڑ میں بودھوں کے سب سے مقدس عبادتگاہ پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔
اس معاملے میں حقیقت بالکل ہی برعکس ہے کیونکہ اس بودھ وہار کے تشخص کو انہیں ہندووں سے خطرہ لاحق رہا ہے ۔ ماضی میں جن لوگوں نے مہا بودھی وہار( گیا) کی حفاظت کا ڈھونگ کرکے اسے نگل لیا اب وقف املاک کے محافظ بن کر سامنے آئے ہیں اس لیے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت اور ارادے کیا ہیں؟ سپریم کورٹ میں معلق یہ ہندو بود ھ تنازع حتمی فیصلے کا منتظر ہے ۔ بودھ راہبوں نے گزشتہ ماہ اس معاملے میں بھوک ہڑتال کی تو پولیس نے انہیں زبردستی ہٹادیا۔مظاہرین کا الزام تھا کہ ہندو اکثریت کے زیر سایہ حکومت بدھ مت کے حقوق کو نظرانداز کر رہی ہے ۔ہندو سادھو سنتوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے ۔ وہ خود تو ایودھیا سے لے کر کاشی ، متھرا اور اب سنبھل تک جی بھرکے سیاست کرتے ہیں مگر مسلمان یا بدھ مت کے ماننے والے اپنے حقوق کی خاطر میدانِ عمل میں آئیں تو ان کے احتجاج کو سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے لیکن اس بار ان کی دال نہیں گلے گی کیونکہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے پرعزم مظاہرین کی یکجہتی میں مسلسل اضافہ ہو تا چلا گیا ۔
مرکزی حکومت میں شامل سماجی انصاف کے وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے گزشتہ ماہ مہابودھی مندر ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کرنے کے سلسلے میں پٹنہ جاکر وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کی تو اس معاملے کی آنچ این ڈی اے کے خیمے تک پہنچ گئی ۔ ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (آٹھاولے ) کے قومی صدر نے کے ملاقات کے بعد بتایا کہ میٹنگ کے دوران انہیں مثبت نتائج کا یقین دلایا گیا ہے ۔ مودی کے رام راج میں ہندووں کے ہاتھوں سے ایک بودھ وہار ر کا اختیار نکل جانا جسے انہوں نے عملاً مندر بنادیا ہے بی جے پی کے رائے دہندگان کو ناراض کرسکتا ہے ۔ مرکزی وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے اپنے دورے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ وہ بودھ گیا میں مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے بھکشوؤں کی جاری تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اور مہابودھی مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیر موصوف نے گوتم بدھ کے ورثے کو بچانے کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے آکاش لامہ جیسے بدھ بھکشووں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس عملاً شریک ہوئے ۔ اٹھاولے نے کہا کہ جب سے ناگارجن سورئی سوسائٹی نے مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے تحریک شروع کی ہے ، وہ اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (اٹھاولے ) کا مطالبہ ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی میں ”مہابودھی مندر ایکٹ” کو جلد از جلد منسوخ کرے ۔ اس مطالبے کو لے کر دہلی میں بھی مظاہرے کا اعلان ہوا تو اس کو کامیاب کرنے کے لیے رام داس اٹھاولے نے 5 لاکھ روپے کی فوری امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ان کے مطابق بدھ مت دلتوں کو انسانی حقوق فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، کیوں کہ یہ مذہب انفرادی وقار اور مساوات پر زور دیتا ہے ۔ اس لیے مہابودھی وہار ٹرسٹ کے صدر اور سکریٹری سمیت تمام عہدوں پر صرف بودھ مت کے پیروکاروں کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے نیزٹرسٹ کے تمام ارکان اسی مذہب کے پیروکار ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو مندروں اور بودھ وہاروں کا انتظام و انصرام اگر اس مذہب کے ماننے والے ہی کرتے ہوں تو وقف بورڈ میں غیر مسلم کا کیا کام ؟ اٹھاولے اس معاملے کو بودھوں تک پہنچایا تو راہل گاندھی نے وقف کو عیسائیوں تک پھیلا دیا ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وقف کے بعد اب آر ایس ایس کی توجہ چرچ کی زمینوں پر مرکوز ہو گئی ہے ۔
راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں کیتھولک چرچ بمقابلہ وقف بورڈ کے عنوان سے شائع مضمون کا حوالہ دیا ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیتھولک ادارے ملک میں تقریباً سات کروڑ ہیکٹیئر زمین کی ملکیت کے سبب سب سے بڑے غیر سرکاری زمین دار ہیں ۔راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ” وقف بل اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے لیکن مستقبل میں یہ دوسرے اقلیتی طبقات پر بھی حملے کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ ملک میں ایک جانب مسلم ، بودھ اور عیسائی اپنی عبادتگاہوں کے تحفظ میں بیدار ہورہے ہیں اور سکھ اور جین برادریاں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہ ورہیں دوسری جانب ہندو اپنے مندروں میں خود شودروں کو آنے سے روک رہے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا آ بھی جائے تو مندرکے احاطے کو گنگا جل میں گائے کا پیشاب ملا کر مندر کو پاک کررہے ہیں۔ یہ معاملہ اب غیر ہندووں یعنی ہیما مالنی یا شودروں تک محدود نہیں ہے بلکہ کنہیا کمار جیسے بھومی ہار یعنی کاشتکار برہمن تک پہنچ چکا ہے ۔
بہار ی نوجوانوں کا مسائل لے کر جب کنہیا کمار سڑکوں پر اترے اور بیروزگار ی کے خلاف ریاست گیرمہم کے تحت ”نقلِ مکانی روکو، روزگار دو” یاترا شروع کی تو بی جے پی بے چین ہوگئی۔ مہم کے دوران انہوں نے سہرسہ ضلع کے بنگاؤں میں بھگوتی استھان مندر کے اندر خطاب کیاتو انہیں روایتی پگڑی اور مالا پہنا کر اعزاز دیا گیامگر وہاں سے جانے کے بعد وارڈ کونسلر کے نمائندے امت چودھری مندر نے ”گنگا جل” سے مندر کو دھلوایا ۔ اس شرمناک حرکت کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ کنہیا اعلیٰ ذات کے تو ہیں مگران کے ملک مخالف بیانات کووہ نہیں بھولے ۔ یعنی جے این یو کے متنازعہ بیانات کو معاف نہیں کیاجاسکتا۔ بہار کے سانحہ کواگر انتخاب سے جوڑ کر نظر انداز کردیں تب بھی راجستھان کے الگڑ میں کانگریس کے دلت رہنما ٹیکارام جولی کے رام مندر کے پران پرتشٹھا (افتتاحی ) میں حصہ لینے کی مخالفت کا کیا کریں گے ؟
بی جے پی کے گیان دیو آہوجا نے ٹیکا رام جولی کے مندر میں آجانے سے ناراض ہوکر اسے گنگا جل سے پاک کیا ۔ اس شرمناک واقعہ پر راہل گاندھی نے لکھا ،’یہ بی جے پی کی دلت مخالف اور منوادی سوچ کا ایک اور نمونہ! بی جے پی مسلسل دلتوں کی توہین اور آئین پر حملہ کرتی ہے ‘۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ آئین کا احترام ہی نہیں، اس کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔مودی جی، ملک آئین اور اس کے اصولوں کے مطابق چلے گا، نہ کہ اس منوسمرتی کے تحت ، جو بہوجنوں کو کم درجہ کا شہری سمجھتی ہے ‘۔بی جے پی رہنما نے اپنی اس غلیظ حرکت کا ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عمل میں ذات پات کا پہلو نہیں تھابلکہ کانگریس رہنما چونکہ رام کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں اس لیے انہیں ایسے پروگراموں میں شامل ہونے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے ۔اس طرح بی جے پی نے رام پر اپنی مونو پولی بنالی ۔
گیان دیو آہوجا کے مطابق کانگریس پچھلے سال ایودھیا میں رام مندر پران پرتشٹھا ن کی تقریب کا بھی "بائیکاٹ کیا تھا اور ان کا یہ قدم اس نقطہ نظر کی وجہ سے ہے ناکہ جولی کے دلت ہونے کے سبب لیکن اگر ایسا ہے گنگا جل چھڑک کر پاک کرنے کا کیا مطلب ؟ بی جے پی کا ساراجھوٹ مہاراشٹر کے دیولی میں واقع رام مندر میں کھل گیا ۔ وہاں ان لوگوں نے پچھلے 40 سالوں سے اس مندر میں درشن کے لیے جانے والے سابق بی جے پی رکن پارلیمان رام داس تڑس کو اندرجانے سے روک دیا۔ اس سال رام نومی کے موقع پر مندرکے ٹرسٹی اور پجاری نے انہیں برہمن نہ ہونے کے سبب اندر کے حصے میں آنے سے منع کردیا۔ آگے چل کر مندرانتظامیہ نے اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بعد معافی تو مانگی مگر چھوت چھات کی ذہنیت کا اظہار ہوچکا تھا ۔ رام داس تڑس نے یہ الزام بھی لگایا کہ کسی زمانے میں اس مندر کے پاس دو سو ایکڑ کھیتی تھی جو اب گھٹ کر پچاس ایکڑ بچی ہے ۔ اس ٹرسٹ کے ہندو ارکان جب اپنے ہی مندر کی تین چوتھائی زمین بیچ کر کھا گئے تو اسی طرح کے ہندو وقف بورڈ میں آکر مسلم املاک کا تحفظ کیسے کریں گے ؟ سچ تو یہ ہے بی جے پی ایک لینڈ مافیا ہے اور اس سے مندر، مسجد، گرجا اور بودھ وہار سبھی خطرے میں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان: مسجد کے قریب دھماکہ ، ایک شخص جاں بحق، 3 زخمی
  • افغانستان کے شہر مزار شریف میں مسجد کے باہر دھماکہ، ایک جاں بحق، تین زخمی
  • کراچی ’لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا غزہ‘ کے نعروں سے گونج اٹھا، یکجہتی غزہ مارچ کی جھلکیاں 
  • زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ
  • دہشتگردی عالمی چیلنج ہے، پاکستان دہشتگردی اور دنیا کے درمیان دیوار کی حیثیت رکھتا ہے،  وزیر داخلہ
  • مذاکرات کے باوجود شام میں اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان تصادم کا خطرہ ، ترک تجزیہ نگار عبد اللہ چفتچی کا انکشاف
  • اسرائیل غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین سفاکیت و بربریت جاری رکھے ہوئے ہے، علامہ فاروق سعیدی
  • پاکستان دہشتگردی اور دنیا کے درمیان دیوار کی حیثیت رکھتا ہے،وفاقی وزیر داخلہ
  • پاکستان دہشتگردی اور دنیا کے درمیان دیوار ہے، عالمی برادری بھرپور تعاون کرے، محسن نقوی
  • معافی اور توبہ