غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
غزہ کی جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا فلسطین پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس کے اس بیان کے چند ہی دن بعد حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا۔ جب محمود عباس یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت یہ بات پوری طرح کھل نہ سکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے امریکا کے پوشیدہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی منصوبوں کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو تک اس کے باشندوں کو اُردن اور مصرسمیت کئی دوسرے ممالک میں آباد کرنا چاہیے جہاں وہ زیادہ آرام سے پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے عرب ملکوں پر دبائو بڑھانے کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اُردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ وائٹ ہائوس طلب کر لیے گئے ہیں۔ مصر کے حکمران عبدالفتح السیسی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیل کے ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے وہ بھی فلسطینیوں کا اپنے ہاں آباد کر سکتا ہے۔ جس کے جواب میں سعودی عرب کی بااثر شوریٰ کونسل کے رکن یوسف بن طراد السعدون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہیے وہ اسرائیلیوں کو الاسکا میں آباد کریں۔ اور پھر گرین لینڈ پر قبضہ کرکے انہیں وہاں منتقل کریں۔ انہوں نے ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکا کی خارجہ پالیسی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور نسل کشی کو جائز ٹھیرا رہی ہے لیکن یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ صہیونیوں نے بنایا ہے اور منظور کیا ہے جس کے بعد اسے وائٹ ہائوس کے حوالے کیا گیا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی نامزدگی بادشاہ کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے تھے جب سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات اس وقت بحال ہوں گے جب فلسطینی ریاست کے لیے واضح راستہ اپنایا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کی وزرات خارجہ کی طرف سے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور امن دشمنی قرار دیا گیا ہے۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے نیتن یاہو کے ریمارکس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی ریاست فلسطین کی سرزمین پر بنے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں عارضی جنگ بندی سے پیدا ہونے والی دائمی امن کی موہوم امید ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد قیدیوں کی رہائی روک دی ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو کھلی دھمکیاں دینے کا انداز اپنالیا ہے۔ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور مستقبل کے غزہ میں حماس کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ حماس نے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا پہلا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور سلامتی رہا ہے۔
امریکا نے عرب دنیا کو ہمیشہ اسرائیل کی عینک سے دیکھا۔ یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت برطانیہ نے امریکا کو سونپا تھا اور امریکا نے برطانیہ کے جانشین کے طور پر یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے ادا کی۔ عرب دنیا میں جمہوریت کا راستہ روکنا، آمریتوں کو مضبوط کرنا کبھی کسی تھکے ہارے حکمران کا تختہ اُلٹنا اور تازہ دم شخص کو آگے لانا جہاں اسرائیل کی مخالفت کا چراغ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے حیلوں بہانوں سے بجھا دینا غرض یہ کہ امریکا نے عرب دنیا کی اتھل پتھل کا ہر قدم اسی زاویے کے تحت اُٹھایا۔ عرب رائے عامہ میں اس پالیسی کا ردعمل بھی ہوتا رہا مگر نائن الیون نے امریکا کو عرب دنیا پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور عرب رائے عامہ کے جذبات کو کچلنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔ اب امریکا از خود مشرق وسطیٰ میں آنا چاہتا ہے تو یہ بھی اسرائیل کے گرد قبروں کا ایک حصار بنانے کی پالیسی ہے۔ اسرائیل کی طاقت اور توسیع پسندی کا الائو جلتا رہے اور اس کے گرد کمزور ناتواں اور نحیف عرب ممالک اس الائو سے ہاتھ تاپتے رہیں۔ حماس حزب اللہ اور حوثی سب اس حصار کی ناکامی اور شکست وریخت کا نام تھا اسی لیے امریکا اور اسرائیل نے اس رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں براہ راست آتا ہے تو یہ اس کے لیے افغانستان میں داخلے کی طرح کا فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران، چین اور روس بہرطور اس خطے میں امریکا کی موجودگی نہیں چاہتے۔ تینوں ملکوں کے حکمرانوں کی ایک معنی خیز تصویر ڈیڑھ سال قبل سامنے آئی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کے ہی ایک دورے میں تینوں حکمران دوربین سے خلا میں دیکھتے ہوئے نظرآرہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں کسی کے خلا سے زمین پر اُترنے کا انتظار اور تلاش ہو۔ اس تصویر میں امریکا کے لیے کوئی پیغام ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی عرب دنیا کے بعد کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
فلسطینیوں کی بیدخلی کا مذموم منصوبہ
پاکستان نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے حالیہ بیان کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی ہے جس میں انھوں نے فلسطینی عوام کو سعودی عرب میں ریاست قائم کرنے کی غیر ذمے دارانہ تجویز دی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کو مسترد اور اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی استحکام صرف 2 ریاستی حل کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز دی ہے۔ نیتن یاہو کے اس بیان نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ اسرائیلی مقاصد کی حمایت میں ایک نیا قدم معلوم ہوتا ہے، جس میں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بیدخل کرنے کا دیرینہ خواب شامل ہے۔
یہ پالیسی دراصل اسرائیلی حکومت کے اس ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے، جو 1948 سے فلسطینیوں کو نکال کر ان کی زمینوں پر یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی دلی خواہش اور تمنا ہے کہ فلسطینیوں کو زبردستی بیدخل کردیا جائے، حالیہ منصوبہ اسرائیلی وزیراعظم کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی امیدوں کو بھی دھچکا پہنچایا ہے۔
مذموم منصوبے کے تحت غزہ کو ایک ’’جدید شہر‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، جہاں بڑی بڑی عمارتیں، ہوٹل اور کاروباری مراکز قائم کیے جائیں گے، لیکن اس ترقی کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ فلسطینی آبادی کو ان کے گھروں سے بیدخل کر کے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا جائے۔
اس سے پہلے بھی ٹرمپ انتظامیہ نے 2020 میں ’’صدی کا معاہدہ‘‘ (Deal of the Century) پیش کیا تھا، جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے اسرائیل کے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ اس منصوبے پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے اس منصوبے کی مذمت کی ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مسلم ممالک، خاص طور پر ترکی، ایران، اور ملائیشیا، نے اسے فلسطینی عوام کے خلاف کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کے کئی ممالک نے فلسطینیوں کی جبری بیدخلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اسرائیل و امریکا پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں۔ مصر اور اردن پہلے ہی فلسطینی مہاجرین کو سنبھال رہے ہیں، اس منصوبے کو اپنے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔
غزہ کے لاکھوں شہری پہلے ہی اسرائیلی بمباری کے بعد بے گھر ہو چکے ہیں، اور اب اگر انھیں مکمل طور پر بیدخل کر دیا گیا تو ان کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی۔ اس منصوبے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید بدامنی پھیل سکتی ہے،کیونکہ یہ منصوبہ فلسطینی مزاحمت کو مزید بھڑکانے کا سبب بنے گا۔
فلسطینی عوام ایسا کرنے کے بجائے اپنی سرزمین پر موت کو ترجیح دیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی طاقتیں خاص طور پر فرانس، جرمنی اور کئی دوسرے یورپی ممالک نے بھی اس فارمولے کو رد کرتے ہوئے ٹرمپ کی سوچ کی مذمت کی ہے۔
فلسطین ایک ایسا خطہ ہے جس کی زمین تاریخ کے جبر، جنگ اور ناانصافی کی گواہ ہے۔ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیے جانے کا عمل ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کے زاویے سے بھی ناقابل قبول ہے۔
اگر اسرائیل واقعی غزہ کی تعمیر نو میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا کوئی اور خفیہ ایجنڈا نہیں ہے، تو سب سے منصفانہ اور پائیدار حل یہی ہوگا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ ان علاقوں میں دوبارہ بسایا جائے جہاں سے انھیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد زبردستی نکال دیا گیا تھا اور وہ آج بھی مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے اور دیگر ممالک میں بھی فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جو اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے کا حق رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 بھی فلسطینی مہاجرین کے حقِ واپسی کو تسلیم کرتی ہے، لیکن اسرائیل نے اس قرارداد پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا۔
غزہ کے رہائشیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنا ’عارضی یا طویل مدتی‘ پالیسی ہو سکتی ہے۔ اردن پہلے ہی 23 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اور کئی بار ایسے کسی بھی منصوبے کو مسترد کر چکا ہے جس کا مقصد اردن کو ’متبادل وطن‘ بنانا ہو۔بین الاقوامی سیاسی حالات کا جس طرح سے نقشہ سامنے آرہا ہے۔
اس میں امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غلط ارادہ اور منصوبہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی سیز فائر کا سہرا امریکی صدر اپنے سر باندھ رہے ہیں لیکن اس کے بعد کے اعلانات، ارادوں اور اقدامات پر بین الاقوامی قوتیں بداعتمادی کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقتور ملک امریکا کا صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد جو اعلان فلسطین کے حوالے سے کیا ہے، وہ بڑا غور طلب، مضحکہ خیز، خوفناک اور ظالمانہ سوچ کا عکاس ہے۔ غزہ کو برباد کرنے اور انسانی آبادیوں، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد چند دن پہلے فلسطینی مسلمانوں کو فلسطین سے باہر آباد کرنے کا جو فارمولا ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا ہے، وہ ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے۔
ٹرمپ نے استدلال پیش کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو اتنا برباد کر دیا ہے کہ اب کھنڈرات پر مشتمل یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کے رہائشیوں کو آباد کرنے اور تعمیر نو کو سالہا سال لگ سکتے ہیں جس پر، وہ کہتے ہیں، میں نے اردن کے بادشاہ عبداللہ ثانی اور مصری صدر عبدالفتح السیسی سے بات کی ہے کہ یہاں کے رہائشی فلسطینی عوام کو اپنے ملک میں آباد کریں یعنی مصر اپنے ریگستانی علاقے سرائے سینا میں فلسطینی عوام کو جگہ دے اور اردن سے کہا گیا ہے کہ وہ فلسطین سے ملحقہ مغربی کنارے میں انھیں آباد کرے۔
کیا امریکی صدر تاریخ سے نابلد ہیں؟ شاید انھیں یہ سمجھ نہیں کہ فلسطین کے عوام سات دہائیوں سے اپنی سرزمین کو صیہونی طاقت سے آزاد کروانے کے لیے جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، وہ اپنی دھرتی ماں کو چھوڑکر کیوں سرائے سینا اور اردن کے علاقوں میں آباد ہوں گے؟
عالمی برادری کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کی سرزمین کے مالک و مختار فلسطینی عوام ہیں۔ انبیا ء کی اس مقدس سرزمین کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے ایک بڑی سازش کے ذریعے صیہونی طاقتوں کے حوالے کرنے کی ابتدا کی۔
جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اسلحے، سرمایے اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے مختلف جنگوں میں قابض صیہونی ریاست کے مدد گار رہے ہیں، تاکہ فلسطین پر قبضہ جاری رکھا جاسکے اور آج بھی وہ اس قسم کے چالوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی وسعت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
اس علاقے میں اسرائیلی طاقت کے سامنے مختلف سازشوں کے ذریعے اپنی صیہونی مملکت کو وسعت دینے کا اعادہ کر رہی ہے اوراس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے، جیسا کہ شام کے اندر حافظ الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور جولانی گروپ کا اقتدار پر قبضہ اسرائیل کو تحفظ دینے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی ابتدا ہے، کہ ایک منصوبے کے تحت شام کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے اسرائیل اپنی مملکت کو جغرافیائی وسعت دینے کی ابتدائی تیاریاں کر رہا ہے۔
اسرائیل کے اقدامات سے مملکت اردن کی خود مختاری کو بھی خطرہ ہے اور لبنان پر بھی قبضہ کرنے کی خواہش کا اظہار اسرائیل کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو کہ ناممکن ہوگا اور خدشہ ہے کہ کرہ ارض ایک نئی عالمی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
ٹرمپ نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران امریکی مکاری کے اندر چھپی ہوئی جو تقاریر کی تھیں، وہ بڑی طاقت کے بڑے حکمران کے اقتدار میں آتے ہی بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں۔ فلسطینی کیسے اسرائیل کو غزہ پر قبضہ کرنے کے لیے دوسرے ممالک میں چلے جائیں، وہ نسل در نسل اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
1948سے اب تک انھوں نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر کی تجویز پر غزہ اسرائیل کے حوالے کر دیں، یہ ناممکن ہوگا۔غزہ کی پٹی دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں لاکھوں افراد محدود وسائل میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اگر ان فلسطینیوں کو اسرائیل میں واپس بسایا جائے تو غزہ پر آبادی کا دباؤ کم ہو جائے گا اور وہاں کے حالات میں بہتری آئے گی۔ جبری بیدخلی بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، جس کا خمیازہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔