Jasarat News:
2025-04-15@06:48:27 GMT

غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

غزہ کی جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا فلسطین پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس کے اس بیان کے چند ہی دن بعد حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا۔ جب محمود عباس یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت یہ بات پوری طرح کھل نہ سکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے امریکا کے پوشیدہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی منصوبوں کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو تک اس کے باشندوں کو اُردن اور مصرسمیت کئی دوسرے ممالک میں آباد کرنا چاہیے جہاں وہ زیادہ آرام سے پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے عرب ملکوں پر دبائو بڑھانے کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اُردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ وائٹ ہائوس طلب کر لیے گئے ہیں۔ مصر کے حکمران عبدالفتح السیسی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیل کے ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے وہ بھی فلسطینیوں کا اپنے ہاں آباد کر سکتا ہے۔ جس کے جواب میں سعودی عرب کی بااثر شوریٰ کونسل کے رکن یوسف بن طراد السعدون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہیے وہ اسرائیلیوں کو الاسکا میں آباد کریں۔ اور پھر گرین لینڈ پر قبضہ کرکے انہیں وہاں منتقل کریں۔ انہوں نے ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکا کی خارجہ پالیسی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور نسل کشی کو جائز ٹھیرا رہی ہے لیکن یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ صہیونیوں نے بنایا ہے اور منظور کیا ہے جس کے بعد اسے وائٹ ہائوس کے حوالے کیا گیا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی نامزدگی بادشاہ کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے تھے جب سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات اس وقت بحال ہوں گے جب فلسطینی ریاست کے لیے واضح راستہ اپنایا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کی وزرات خارجہ کی طرف سے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور امن دشمنی قرار دیا گیا ہے۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے نیتن یاہو کے ریمارکس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی ریاست فلسطین کی سرزمین پر بنے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں عارضی جنگ بندی سے پیدا ہونے والی دائمی امن کی موہوم امید ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد قیدیوں کی رہائی روک دی ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو کھلی دھمکیاں دینے کا انداز اپنالیا ہے۔ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور مستقبل کے غزہ میں حماس کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ حماس نے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا پہلا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور سلامتی رہا ہے۔

امریکا نے عرب دنیا کو ہمیشہ اسرائیل کی عینک سے دیکھا۔ یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت برطانیہ نے امریکا کو سونپا تھا اور امریکا نے برطانیہ کے جانشین کے طور پر یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے ادا کی۔ عرب دنیا میں جمہوریت کا راستہ روکنا، آمریتوں کو مضبوط کرنا کبھی کسی تھکے ہارے حکمران کا تختہ اُلٹنا اور تازہ دم شخص کو آگے لانا جہاں اسرائیل کی مخالفت کا چراغ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے حیلوں بہانوں سے بجھا دینا غرض یہ کہ امریکا نے عرب دنیا کی اتھل پتھل کا ہر قدم اسی زاویے کے تحت اُٹھایا۔ عرب رائے عامہ میں اس پالیسی کا ردعمل بھی ہوتا رہا مگر نائن الیون نے امریکا کو عرب دنیا پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور عرب رائے عامہ کے جذبات کو کچلنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔ اب امریکا از خود مشرق وسطیٰ میں آنا چاہتا ہے تو یہ بھی اسرائیل کے گرد قبروں کا ایک حصار بنانے کی پالیسی ہے۔ اسرائیل کی طاقت اور توسیع پسندی کا الائو جلتا رہے اور اس کے گرد کمزور ناتواں اور نحیف عرب ممالک اس الائو سے ہاتھ تاپتے رہیں۔ حماس حزب اللہ اور حوثی سب اس حصار کی ناکامی اور شکست وریخت کا نام تھا اسی لیے امریکا اور اسرائیل نے اس رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں براہ راست آتا ہے تو یہ اس کے لیے افغانستان میں داخلے کی طرح کا فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران، چین اور روس بہرطور اس خطے میں امریکا کی موجودگی نہیں چاہتے۔ تینوں ملکوں کے حکمرانوں کی ایک معنی خیز تصویر ڈیڑھ سال قبل سامنے آئی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کے ہی ایک دورے میں تینوں حکمران دوربین سے خلا میں دیکھتے ہوئے نظرآرہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں کسی کے خلا سے زمین پر اُترنے کا انتظار اور تلاش ہو۔ اس تصویر میں امریکا کے لیے کوئی پیغام ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی عرب دنیا کے بعد کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل امریکا کی آشیرباد سے نسل کشی کررہا ہے اور اسلامی ممالک خاموش ہیں، اگر اسلامی ممالک ملکر پیش قدمی کا اعلان کریں تو پھر غزہ جنگ رک سکتی ہے۔

کراچی میں فلسطین سے متعلق مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کراچی نے ایک بار پھر ثابت کہ جیتا جاگتا شہر ہے، اہل غزہ جس تکلیف مصیبت میں ہیں بیان سے باہر ہے، 60 سے 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے جس میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں بلکہ غزہ میں طاقت اور دہشت گردی کا راج ہے، اقوام متحدہ کا چارٹر ان طاقتوں نے پھاڑ کر پھینک دیا، مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ صیہونی عالم عرب کو چھوڑ دیں گے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ یہ یہودیوں کی تاریخ ہے احسان کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے، نبیوں کو چھوڑنے والے عرب حکمرانوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، عرب حکمران ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تو تاریخ میں ان کا نام ہوگا اور اگر یہودیوں کے سہولت کار بن کر خاموش رہے تو ان کی داستان بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم افواج کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل اور اس کی ٹیکنالوجی شکست کھا چکی ہے، اسرائیل اب بچوں سے انتقام لے رہا ہے، اسرائیل نسل کشی کررہا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ اسرائیل آج بھی القسام برگیڈ کامقابلہ نہیں کرسکتا، اگر مسلمان حکومت کے ایٹمی ہتھیار اور میزائل سامنے آئیں تو بچوں کی شہادت رک جائیں گی، پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف عالمی کانفرنس مدعو کریں اور مشترکہ اعلامیہ جاری کریں کہ بہت ہوچکا اب پیش قدمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جس روز یہ سب کچھ ہوا تو اسی دن جنگ بند ہو جائیگی اور ٹرمپ خود جنگ بند کروائے گا، اسرائیل اور امریکا سے نفرت کرنے والے باضمیر افراد پر جگہ سڑکوں پر ہیں۔

حافظ نعیم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکاری سطح پر اس پالیسی کا اعلان کرے کیونکہ اس کے ذریعے بھی فلسطینیوں کو کچھ ریلیف مل سکے گا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج کی ریلی میں لاکھوں کی تعداد میں شرکا موجود ہیں جس سے اہل غزہ کو نیا جذبہ ملے گا، اسماعیل ہانیہ کا خاندان مسلسل قربانیاں دے رہا ہے اور حماس کی تحریک اب کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اہل فلسطین اور اہل غزہ سے اظہار یک جہتی کیا جارہا ہے، امریکا میں پچاس فیصد رائے دہندگان حماس کے حامی ہوچکے ہیں، حماس کی جدوجہد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آئینی ہے  اور وہ ایک جمہوری قوت ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب کے فتوے پر تکلیف یہودیوں کے ایجنٹ کو ہورہی ہے، پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن سے پوچھتا ہوں امریکا کی مذمت کیوں نہیں کرتے اور اسرائیل کے خلاف کھل کر کیوں کھڑے نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) اپنے لیڈر کے لیے لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیلی کے خلاف امریکا میں لابنگ کیوں نہیں کرتی۔ حافظ نعیم نے دعویٰ کیا کہ لیاقت علی خان کو کہا گیا کہ اسرائیل کو مان لو بہت کچھ دیں گے مگر لیاقت علی خان نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری روح قابل فروخت نہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کو عزت ملی تھی۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے کہہ رہا ہوں اہل غزہ کے لیے آواز اٹھائیں اسرائیل کی مذمت کریں، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے کہتا ہوں جہاد کے فتوے اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک پر ان پارٹیوں کی اہم شخصیات نے اس کے خلاف  مہم شروع کردیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی پارٹی پالیسی واضح کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ طاغوت کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال کریں گے لیکن ان کی تجارت کا بائیکاٹ کریں گے، ان کی مصنوعات کی طاقت سے ہی یہ ہمارے بچوں کو شہید کررہے ہیں، جہاد کا فتویٰ مسلم ممالک اور افواج کے لیے دیا گیا، کروڑوں لوگ غزہ کے بچوں کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جذبہ جہاد کو سازشوں سے کم نہیں کیا جاسکتا۔

حافظ نعیم نے کہا کہ عوام ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار رہیں، ہماری ترجمانی کرنے والی حکومتیں ہمارے پاس نہیں ہیں، ہمیں حق و انصاف کی بالا دستی کے لیے آواز اٹھانا ہوگئی۔

اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ اگلے مرحلے میں بچوں کا ایک الگ مارچ کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان 20 اپریل کو اسلام آباد میں غزہ مارچ ہوگا، اسلام آباد میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، جس کی فلسطینی قیادت سے بھی توثیق کرلی ہے۔ عالم اسلام کی دیگر تنظیموں سے بھی اس روز ہڑتال کی بات کریں گے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں کاروبار بند کرکے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خطوط لکھ رہا ہوں، پوری دنیا میں امریکا کی غلاموں کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے غلاموں کے خلاف تحریک کی قیادت کراچی کرے گا اور ہم کامیابی حاصل کریں گے۔ حافظ نعیم نے آخر میں مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم افواج پاکستان کے سربراہان کا اجلاس بلائیں اور غزہ کے حوالے سے پالیسی بنائیں، پیشقدمی سے ہی محاصرے کو توڑ سکیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا اسرائیل کو نیا تحفہ! 18 کروڑ ڈالر کے فوجی انجن دینے کی منظوری
  • امریکا کی اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالرز کے انجن فروخت کرنے کی منظوری
  • کراچی میں ’غزہ ملین مارچ:‘ جماعت اسلامی کا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان
  • بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
  • امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • (ن) لیگ، پی پی، پی ٹی آئی غزہ کیلئے آواز اٹھائیں، امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، حافظ نعیم
  • ن لیگ، پی پی، پی ٹی آئی غزہ کیلئے آواز اٹھائیں، امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، حافظ نعیم
  • اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم
  • برطانیہ کے چینی اسٹیل کمپنی پر قبضے کی وجہ کیا بنی؟
  • وسطی یورپی ممالک میں مویشیوں میں منہ کھر کی وبا، سرحدیں بند