Jasarat News:
2025-02-13@07:51:38 GMT

جنت میں جانے کی شرط اور غامدی خیالات

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

جنت میں جانے کی شرط اور غامدی خیالات

آج کل ایک بات تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی نہیں جائیں گے بلکہ ہر وہ شخص جس کا تعلق کسی بھی مذہب فرقے یا گروہ سے ہو اپنے اچھے کاموں کی بنا پر جنت کا حقدار ٹھیرے گا۔ جس کے لیے قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔ کیا نجات کے لیے مسلمان ہونا لازمی ہے؟ کیا جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ایک آیت کا ترجمہ و تشریح: ’’(یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے) مسلمان ہوں یا یہودی، صابی ہوں یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا‘‘۔ (ترجمہ: تفہیم القران)

’’سلسلۂ عبارت کو پیش ِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصْود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ یہاں تو یہْودیوں کے اِس زعمِ باطل کی تردید مقصْود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دْوسرے انسانوں سے نہیں ہے، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دْور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے، وہ ایمان اور عمل ِ صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے ربّ سے اپنا اجر پائے گا۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسٹروں پر‘‘۔ (تفہیم القران: ۔ سْورَۃْ البَقَرَۃ حاشیہ نمبر: 80)

درج بالا مضمون میں جو کچھ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس کا تمام مفسرین نے الفاظ کے کچھ ردو بدل سے ایک جیسا ہی ترجمہ کیا ہے جو قرآن کہتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ لوگوں نے جاوید احمد غامدی کو مفسرین کی فہرست میں شامل کردیا سب جانتے ہیں کہ غامدی کو امریکی برانڈڈ اسلام کا پرچار کرنے کے لیے پاکستان بھیجا گیا ہے۔ جس پر مختلف حلقہ حل و عقد اپنی تشویش کا متعدد بار اظہار بھی کر چکے ہیں۔ دیگر تفاسیر میں جو تفصیلات موجود ہیں وہ لگ بھگ ایک ہی ہیں۔ غامدی صاحب نے جہاں الفاظ کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے وہیں ایک مسلمان کی اور ایک کافر کی تفصیل بھی بیان کردیتے تو مدعا کھل کر بیان کیا جا سکتا تھا۔ ان کا یہ جملہ خاصہ معنی خیز بلکہ قابل گرفت بھی ہے کہ ’’محض پیغمبروں پر ایمان لانے سے وہ کسی خاص گروہ میں شامل ہونے سے جنت کا مستحق نہیں ہوجاتا۔ اصل قابل گرفت بات یہ ہے ’’محض پیغمبروں کو مان لینے سے‘‘ یعنی پیغمبروں پر ایمان لانا غامدی صاحب کے نزدیک ایک واجبی سی ضرورت ہے جس کے بغیر بھی ایک انسان اپنے اچھے اعمال کی بنا پر جنت میں جا سکتا ہے، جو پیغمبر ہی کو نہ مانے وہ اللہ کو اپنا ربّ کیسے مانے گا۔ یہودیوں کے زعم باطل کی جو بات کہی ہے وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے سورہ جمعہ میں اسی مضمون کو اس مفہوم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ: اے گروہ یہود اگر تم کو اللہ کا مقرب ہونے کا اتنا ہی زعم ہے تو خدا سے ملاقات کے لیے موت کی تمنا بھی کرو، یقین جانو یہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرتے رہے ہیں‘‘۔

پیغمبروں پر ایمان لانا مسلم ہونے کے لیے بنیادی ایمانی شرائط میں سے ہے اور ایمان مفصل میں جن چیزوں پر ایمان لانا ہے پیغمبروں پر بھی ایمان لانا ہے۔ اس کے ساتھ پچھلی انبیا کی امتوں پر آگے آنے والے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جیسے ابراہیم ؑ پر ایمان لانے والے پر لازم تھا کہ وہ اسماعیل ؑ پر ایمان لائے اسماعیل ؑ پر ایمان لانے والے پر لازم تھا کہ اسحاقؑ پر پھر یعقوبؑ پر پھر یوسف ؑ پر ایمان لائے۔ جیسے یہودی اگر صرف اسحاقؑ پر ایمان لائیں اور بعد کے پیغمبروں کو جھٹلائیں اور پیغمبروں کو قتل کریں تو وہ کیسے خدا کے مقرب اور چہیتے ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ سیدنا موسیٰؑ کو نبی پیغمبر اور رسول ماننے کے باوجود سرزمین فلسطین میں جنگ کی غرض سے صرف اس بنا پر داخل نہ ہوں کہ وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں، اے موسیٰؑ تم جاؤ اور تمہارا خدا جائے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ قدم قدم پر اللہ کے حکم سے سرتابی کرنے والے یہودی جن کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ آخر میں انہی یہودیوں نے نبی کریمؐ کے ساتھ معاہدے کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ مدینے پر حملہ کرنے کی سازش بھی کی۔

مدعا یہ کھل کر سامنے آیا کہ گزشتہ امت کے صرف وہ اہل ایمان جنت کے مستحق ٹھیریں گے جو وہ اپنے نبی، رسول یا پیغمبر کی دی ہوئی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا رہے اب ظاہر ہے نبی کی تعلیمات میں اللہ کی عبادت کے ساتھ حسن سلوک، نیک اعمال سب ہی شامل ہوں گے وہ چاہے یہود کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں چاہے سیدنا عیسیٰؑ کے ماننے والوں میں شامل ہوں۔ جبکہ توریت انجیل اور زبور میں نبی مہربان محمدؐ کی آمد کی بشارت دی گئی مگر یہودیوں اور عیسائیوں کی قلیل تعداد ہی نبی کریمؐ پر ایمان لائی باقی سب نے ماننے سے انکار کردیا یعنی ایک نبی کے انکار نے انہیں کافر بنا دیا۔ قرآن کریم کی واضح آیت موجود ہے کہ کافر کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی ناممکن ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اب چاہے یہ یہود و نصاریٰ دنیا میں کتنے بھی اچھے اچھے کام کرتے رہیں ان کا اجر ان کو بس اسی دنیا میں مل جائے گا اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ان یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی کو قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ: ’’تم اہل ایمان، یہود و نصاریٰ کو اپنی دشمنی میں سب سے آگے پاؤگے‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ جنت میں جانے کے لیے اچھے اعمال کے ساتھ پیغمبروں پر غیر متزلزل ایمان لانا بنیادی شرط ہے اور آخر میں اللہ ربّ العزت نے اتمام حجت فرماتے ہوئے یہ بھی وضاحت کر دی کہ سیدنا محمدؐ کو خاتم النبیین بھی تسلیم کرنا ہوگا، وگرنہ اس اقرار کے بغیر تم بدستور کافر ہی ٹھیرائے جاؤگے۔ جسے غامدی صاحب نے ’’محض پیغمبروں کو ماننا‘‘ کے الفاظ سے اس شرط کو ساقط کرنے کی کوشش کی ہے۔

سورہ النباء کی آخری آیت میں فرمایا گیا کہ جب کافر دوزخ کا عذاب دیکھے گا تو کہے گا، کاش میں مٹی ہوتا۔ اسی مفہوم کے تحت ایک جگہ فرمایا گیا ہے کافر چاہے گا کہ کسی طرح عذاب جہنم سے بچ جاؤں، اس سے کہ زمین کے برابر بھی سونا دے گا بلکہ اتنا ہی اور دے دے تب بھی دوزخ کی آگ سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ یہ باتیں مسلمان کے لیے نہیں کہی گئی۔

فارمولا یہ طے پایا کہ ایمان مفصل پر ایمان رکھنے والے ہی جنت میں جائیں گے اور ایسا گروہ روئے زمین پر صرف مسلمانوں کا ہی گروہ ہے کیونکہ مسلمان اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہر چیز پر ایمان رکھتے ہی۔ جیسے اللہ پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، روز قیامت پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ مسلمان اگر دوزخ میں گیا بھی تو اتنی ہی سزا پائے گا جتنے اس نے گناہ کیے ہوں گے اور اگر جنت میں گیا تو وہاں ہمیشہ رہے گا یہ نہیں ہوگا کہ جتنے نیک اعمال کیے تھے بس اتنے ہی عرصے کے لیے جنت میں رہے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پر ایمان لانا پیغمبروں کو پیغمبروں پر کے ساتھ نے والے گروہ سے کے گروہ کے لیے

پڑھیں:

خطبہ عرفات… ابدی آئین

رحمت دو عالمؐ نبی کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ ترین پائے کے منتظم اور ہادیٔ برحق بھی ہیں۔ آپؐ نے جب کسی صحابی کو کسی بھی مملکت یا علاقے کی طرف روانہ کیا اسے دی جانے والی ہدایات ایک مکمل چارٹر کا درجہ رکھتیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو نصیحت کی کہ: اے معاذؓ میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرنے کی، اور سچ بات کہنے کی، اور عہد پورا کرنے کی، اور امانت ادا کرنے کی، اور خیانت نہ کرنے کی، اور یتیم پر رحم کرنے کی، اور پڑوسی کا خیال کرنے کی، اور غصے کو پی جانے کی، اور نرم بات کرنے کی، اور کثرت سے سلام کرنے کی، اور امام کو لازمی پکڑنے کی، اور قرآن میں سمجھ حاصل کرنے کی، اور آخرت سے محبت کرنے کی، اور حساب سے ڈرنے کی، اور امیدوں کو چھوٹا کرنے کی، اور اچھا عمل کرنے کی۔ اور میں تجھے منع کرتا ہوں اس بات سے کہ کسی مسلمان کو گالی دے، یا جھوٹے کی تصدیق کرے، یا سچے کو جھٹلائے، یا منصف امام کی نافرمانی کرے، اور اس سے کہ زمین میں فساد کرے۔ اے معاذ اللہ تعالیٰ کو یاد کر ہر درخت اور پتھر کے پاس اور ہر گناہ سے توبہ کر جو پوشیدہ کیا ہو اس سے توبہ بھی پوشیدہ طور پر کر اور جو علانیہ کیا ہوا اس سے توبہ علانیہ کر۔ (ابو ندیم فی الحلیۃ۔ حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہم) حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ نے ان کو یمن کیلئے رخصت کیا تو آپؐ ان کے ساتھ بہت دور تک چلتے گئے۔ حضرت معاذؓ کی سواری بھی ساتھ تھی، آقا کریمﷺ معاذؓ بن جبل کے ساتھ نکلے تو معاذؓ سوار تھے اور آپؐ ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپؐ وعظ و نصیحت سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے معاذ! اے جبل کے بیٹے تم اس سال واپسی پر شاید مجھ سے ملاقات نہ کر پاؤ، میری مسجد کے پاس سے گزرو گے تو میری قبر دیکھو گے جس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رو پڑے۔

اسی طرح اگر میدان عرفات میں ارشاد فرمائے گئے خطبے کی بات کریں تو یہ خطبہ تا قیامت نوع انسانی اور انسانیت کیلئے ایک مکمل چارٹر کی کا درجہ رکھتا ہے جس میں زندگی گزارنے کے بنیادی طور طریقے شامل ہیں تو دوسری طرف یہ انسانی حقوق کا دیباچہ بھی ہے۔دس ہجری، ذی الحج کی نو تاریخ، جمعہ کا دن، مقام منیٰ۔ علی الصبح ربیعہ بن کعبؓ نے حضورﷺ کے لیے وضو کا انتظام کیا اور حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان دی۔ حضورؐ کی اقتدا میں صحابہ کرامؓ نے نماز ادا کی اور جب سورج ذرا نکل آیا تو آپؐ نے وادی نمرہ میں اپنے لیے خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ حضورؐ وادی نمرہ میں تشریف لائے اور سنت ابراہیمیؑ کے مطابق اعلان فرمایا: ’’اپنے مقدس مقامات پر ٹھہرو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی میراث پر ہو‘‘۔ حضورؐ کے لیے کوہ شبیر کے ایک غار کے دہانے پر سرخ اونی کپڑے کا ایک خیمہ نصب کر دیا گیا۔ آپؐ نے دن ڈھلے تک خیمے میں قیام فرمایا اور عبادات میں مصروف رہے۔ پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے اور وادی عرفات میں جبل الرحمت کی طرف بڑھے۔ قصواء خراماں خراماں قدم اٹھاتی ہوئی اپنے عظیم المرتبت سوار کو پہاڑی کے اوپر لے گئی۔ نیچے وادی میں ایک لاکھ سے بھی کہیں زیادہ کا اجتماع تھا۔ احرام میں ملبوس فرزندان اسلام کا اتنا بڑا اجتماع چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چاروں طرف مکبّر تعینات تھے کہ حضورؐ کے لب مبارک سے ادا ہونے والے ایک ایک جملے کو اس طرح دہراتے جائیں کہ ایک ایک لفظ ہر شخص کے کانوں تک پہنچ جائے۔

حمد و ثنا کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’جاہلیت کے تمام دستور میرے قدموں تلے ہیں۔ اے لوگو! بیشک تمہارا رب ایک ہے، اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے، اگر کوئی فضیلت ہے تو محض تقویٰ کی بنیاد پر۔ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ آج جاہلیت کے تمام خون معاف کر دیئے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ربیعہ بن حارث کا خون معاف کرتا ہوں۔ جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دیئے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کا سود منسوخ کرتا ہوں۔ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا خون، تمہارا مال تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح اس مہینے میں اور اس جگہ آج کا دن حرام ہے۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز کیا ہے، اللہ کی کتاب!۔۔۔ اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اب کسی کو وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے آقا کے سوا کسی اور طرف اپنی نسبت کرے، اس پر اللہ کی لعنت۔ عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے، عاریتاً لی ہوئی ہر چیز واپس کی جائے، عطیے کا بدلہ عطیہ ہے اور ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے‘‘۔

میدان عرفات میں چاروں طرف پھیلے ہوئے مکبر آپؐ کا ایک ایک لفظ نشر کر رہے تھے اور حجاج ہمہ تن گوش، نہایت غور سے آپؐ کا خطبہ مبارک سن رہے تھے۔ خطبہ کے بعد آپؐ نے حاضرین سے دریافت فرمایا: ’’تم سے اللہ کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟‘‘۔ سب نے بیک آواز عرض کیا: ’’یا رسول اللہﷺ! ہم کہیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک ہم تک پہنچایا‘‘۔ اس پر آپؐ نے اپنی انگشت مبارک آسمان کی طرف بلند کی اور تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے: ’’اے اللہ تو گواہ رہنا کہ یہ لوگ کیسی صاف صاف گواہی دے رہے ہیں‘‘۔
کیا اس کے بعدبھی نوع انسانی کو کسی اور آئین، قانون یا منشور کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے، نہیں ہرگز نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بے ایمان لوگ
  • پی ٹی آئی گروہ بندی کا شکار ہو چکی ، سینئر رہنمائوں کو نکالا جا رہا ہے ، خواجہ آصف
  • چیف جسٹس پاکستان کبھی بھی ججز کی گروہ بندی کا حصہ نہیں رہے، رانا ثناء اللّٰہ
  • انسانی سوچ کو الفاظ میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی تیار، میٹا کا دعویٰ سامنے آگیا
  • خوابوں کی تعبیر
  • دین اسلام اور ا من و سلامتی
  • خطبہ عرفات… ابدی آئین
  • افغانستان داعش کا گڑھ، دہشت گرد گروہ عالمی سلامتی کیلیے خطرہ، پاکستان
  • اللہ کرے ہم ایک بار پھر ٹیک آف کرسکیں: نواز شریف