مصنوعی ذہانت کا دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کا خدشہ، سابق سربراہ گوگل
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
PARIS:
پیرس میں اے آئی ایکشن سمٹ کے اختتام پر سابق گوگل کے چیف ایگزیکٹو ایرک اسمتھ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو دہشت گردوں یا باغی ریاستوں کی جانب سے معصوم لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اسمتھ نے کہا کہ میرے حقیقی خوف وہ نہیں ہیں جو زیادہ تر لوگ اے آئی کے بارے میں بات کرتے ہیں، بلکہ میں انتہاپسند خطرات کی بات کر رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا، ایران، یا یہاں تک کہ روس اس ٹیکنالوجی کو اپنانے اور اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے حیاتیاتی ہتھیار تیار کر سکتے ہیں۔
اسمتھ نے اے آئی ماڈلز کی ترقی کرنے والی نجی ٹیک کمپنیوں پر حکومتی نگرانی کا مطالبہ کیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی خبردار کیا کہ زیادہ ضوابط انوکھائی کو روک سکتے ہیں۔
سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلیٰ مائیکرو چپس کی برآمدات پر پابندیاں عائد کیں، تاکہ حریفوں کی اے آئی تحقیق میں ترقی کو سست کیا جا سکے۔ یہ پابندیاں اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے واپس لی جا سکتی ہیں۔
اسمتھ نے کہا کہ کہ شمالی کوریا، ایران، یا یہاں تک کہ روس کے بارے میں سوچیں، جن کا کوئی نہ کوئی بدعنوان مقصد ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اتنی تیز ہے کہ وہ اسے اپنا لیں گے اور حقیقی نقصان کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غلط ہاتھوں میں اے آئی سسٹمز کو اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کسی بدعنوان شخص کی جانب سے خطرناک حیاتیاتی حملے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
اسمتھ نے ایک توازن کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جہاں حکومتوں کی نگرانی اے آئی کی ترقی پر ہو اور مستقبل قریب میں اسے بڑی حد تک نجی کمپنیوں کے ذریعے بنایا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسمتھ نے اے آئی کہا کہ
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت کی ریگولیشن: یورپ راضی، امریکا و برطانیہ ناراض
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں مصنوعی ذہانت کے مستقبل پر ہونے والے دو روزہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر منگل کو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے پر 61 ملکوں کے نمائندگان نے دستخط کیے اور یہ یقینی بنانے پر اتفاق کیا کہ اے آئی کو صاف و شفاف، اخلاقی، سب کے لیے، محفوظ اور قابل بھروسہ ہونا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی قواعد و ضوابط کا احترام بھی لازمی ہے۔
دستخط کرنے والے ملکوں میں چین، فرانس، جرمنی اور بھارت شامل ہیں۔فرانس میں عالمی اے آئی سمٹ، مواقع اور خطرات کا جائزہ
ڈیپ سیک کی مقبولیت ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے، ٹرمپ
ایف آئی اے پر حکومتی دباؤ، قانونی مسافروں کی سختی
دوسری جانب امریکہ، برطانیہ اور اس شعبے کے کئی بڑے شراکت داروں نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔
(جاری ہے)
امریکا کی جانب سے اس فیصلے کی وضاحت فی الحال سامنے نہیں آئی۔ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ اے آئی سے متعلق دیگر معاملات پر تعاون جاری رہے گا جبکہ اعلامیے کے مسودے کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ لندن حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذکورہ معاہدے پر دستخط 'قومی مفاد‘ سے متعلق وجوہات کی بناء پر نہیں کیے گئے۔پیرس میں منعقدہ یہ دو روزہ سمٹ 10 فروری سے شروع ہو کر 11 فروری کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس سمٹ میں ایک سو سے زائد ممالک کے نمائندگان سمیت ٹیکنالوجی سیکٹر کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں شریک مہمانوں کی تعداد 1,500 کے قریب تھی اور اس کی میزبانی فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کی۔
امریکا کے تحفظاتاجلاس میں شریک امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے مصنوعی ذہانت کے خلاف سخت ریگولیشن سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی پر قدغنیں لگانا کئی نسلوں کی سب سے زبردست ٹیکنالوجی کو معذور کر دینے کے مساوی ہو گا۔ وینس کے بقول دنیا اس وقت ایک نئے صنعتی انقلاب کی جانب رواں ہے بالکل ان وقتوں کی طرح جب بھاپ سے چلنے والا انجن ایجاد ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ''لیکن وہ پاس نہیں ہو گا اگر ضرورت سے زیادہ ریگولیشن نے تخلیق کاروں کو ترقی کے لیے لازمی خطرات مول لینے سے روکا۔‘‘ یورپ کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کا اعلانیورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن نے مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یورپی سرمایہ کاری اس شعبے میں تحقیق اور جدت کو آگے بڑھائے گی۔
فان ڈیئر لائن نے کہا کہ یورپ اس مقصد کے لیے 200 بلین ڈالر لگائے گا، جن میں سے 50 بلین برسلز کے اپنے بجٹ سے آئیں گے جبکہ بقیہ رقوم کا بندوبست دیگر سرمایہ کاروں اور شراکت داروں سے کیا جائے گا۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی کے شعبے میں آگے نکلنے کی دوڑ میں ترقی پذیر ممالک پیچھے رہ سکتے ہیں۔ پیرس میں سمٹ سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی طاقت کے ساتھ، جو کہ اس وقت چند مخصوص ہاتھوں میں ہے، اس کا استعمال کرنے والوں پر بے انتہا ذمہ داری بھی آتی ہے۔
ع س / م م (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)