Jasarat News:
2025-02-13@07:15:47 GMT

پیکا اور جسارت

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

پیکا اور جسارت

زبان بندی ایوب خان سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ہر حکمران چاہے اس کا تعلق ووٹ سے ہو یا بندوق سے نہیں چاہتا کہ اس کی رائے کے برعکس کوئی بات کی جائے یا ہاں میں ہاں نہ ملائی جائے، یہ بندوق والے حکمران مشرق وسطیٰ میں اپنا طویل دور گزار کر جب رخصت ہوئے یا رخصت کر دیے گئے تو کوئی ان کے لیے رویا نہیں بلکہ شایانے بجائے گئے۔ زبان بندی کس دور میں نہیں ہوئی یہ تمیز کیے بغیر کہ دور جمہوریت کا تھا یا آمریت کا یہ ہر دور میں ہوئی ہے۔ جسارت کو بھی جمہوریت اور آمریت کے دور میں سچ لکھنے کی متعدد بار سزا دی گئی۔ ایوب خان، بھٹو دور، ضیاء الحق دور غرض ہر دور میں جسارت کسی سے برداشت نہیں ہوا۔ مگر جسارت‘ جسارت کرتا رہا اور اس نے جسارت کرنا نہیں چھوڑی۔ ہمیں دیگر اخبارات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ہاں البتہ کچھ واقعات ہیں جنہیں یاد دلانا بہت ضروری ہے۔ ان دنوں پیکا قانون کے خلاف بہت سی آراء دی جارہی ہیں بات احتجاج اور مظاہروں تک بھی جاپہنچی ہے۔ اپنے نکتہ نظر کے حق پر امن رہ کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنا، آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن جھوٹ لکھنا، جھوٹ پھیلانا کیوں قانونی اور آئینی حق تسلیم کیا جائے، جھوٹ صرف یہی نہیں ہے کہ یہ کام اپوزیشن کے ہی حصے میں آیا ہے۔ جھوٹ حکومت بھی بول سکتی ہے۔ نائن الیون کو کیا ہوا تھا؟ ایک حکومت نے ہی بیانیہ بنایا تھا اور پوری دنیا اس نے اپنے ساتھ ملا لی۔ پاکستان کے اس وقت کے حکمران نے کہا آپ کے سارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں حتیٰ کہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی گئی۔ اس لاجسٹک سپورٹ کی حد کیا تھی؟ اس وقت کے حکمران کے ساتھ رہنے والے قوم کو ذرا سچ تو بتادیں کہ اس کی حد کیا تھی؟ کوئی نہیں بتائے گا۔

دنیا بھر میں یہی وتیرہ ہے کہ جھوٹ پھیلانا ہو تو سب آگے آگے ہوں گے۔ اسرائیل کیا کرتا ہے، کیا یہ سچ پھیلا رہا ہے؟ آج دنیا بھر میں دو ہی بیانیے ہیں جو سچ بھی ہیں مگر دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اقوام متحدہ بھی اس پر توجہ دینے سے گریز کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پہلا بیانیہ فلسطین کا ہے، حماس کا ہے، یہ بیانیہ کون خرید رہا ہے؟ پاکستان کے کتنے یوب ٹیوبرز ہیں جنہوں نے اس بیانیے کو خریدا اور دنیا کے سامنے پیش کیا؟ کتنے ہیں؟ کسی کو یاد ہیں؟ دوسرا بیانیہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کا ہے، ان کا بیانیہ کتنے یو ٹیوبرز نے خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ پاکستان کے بڑے بڑے یو ٹیوبرز کا نام تو لیں! کتنے ہیں جنہوں نے کشمیری حریت پسندوں کا بیانیہ خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ انہیں علم ہے اس بیانیے میں پیسا نہیں ہے اس لیے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ہاں جسارت نے یہ دونوں بیانیے خریدے ہیں اور اپنی بساط کی حد تک دنیا کے سامنے پیش بھی کیا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ دنیا جان لے کہ اس جہاں میں فلسطینی مجاہدین، عفت مآب خواتین، بچوں، بزرگوں کا بیانیہ فلسطینی شہداء کا بیانیہ، اسماعیل ہانیہ کا بیانیہ ہی چلے گا۔ کشمیری مجاہدین، حریت پسندوں، سید علی گیلانی اور کشمیری شہداء کا ہی بیانیہ چلے گا۔ عالم اسلام کے اتحاد کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ مسجد کے منبر اور محراب کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ باقی سب بیانیے دفن ہوجائیں گے۔ اس بیانیے کے لیے دنیا میں کہاں لاجسٹک سپورٹ ہے؟ یہ ہمارا اور دنیا کا امتحان ہے یہ ہمارے اخلاق اور ہمارے ایمان کا بھی امتحان ہے یہ ہمای جرأت اور بہادی کا امتحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کتنے ہیں جو اس امتحان میں پورا اترنے کی کوشش میں ہیں۔

جہاں تک پیکا کا تعلق ہے پیکا سے اس شخص کو خوف کھانے کی ضرورت ہی نہیں جو سچ لکھتا ہے۔ حقائق بیان کرتا ہے سنسنی نہیں پھیلاتا۔ سچ کو تو خوف ہی نہیں ہوتا۔ ایک ماضی کا قصہ بھی سن لیجیے کہ سنسنی خیزی کیا ہوتی اور کس طرح پھیلائی جاتی ہے شبیر احمد خان اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ تھے انہیں لاہور سے پشاو جانا تھا ان کے بورڈنگ کارڈ کے لیے برادر احسن اختر ناز ان کا بریف کیس لے کر ائر پورٹ گئے اور اسکین کرایا بریف کیس میں شاید شبیر احمد خان کا لائسنس یافتہ پستول بھی رکھا تھا مگر ہوا کیا؟ ایک اخبار نے خبر دی کہ جہاز اغواء کرنے کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا اور تفصیلات میں یہی فلاں فلاں…‘ کیا بات ہے اس اخبار کی لیکن جب اسلامی جمعیت طلبہ نے رد عمل دیا کہ یہی اخبار زمین پر لیٹ گیا اور جس کو خوش کرنا تھا اس کی بھی سبکی ہوئی۔ اگر آج پیکا لایا گیا ہے تو یہ نئی بات نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی کے کھیل سے باہر نکلنا چاہیے اور جو سچ ہے اسے سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کیا ہورہا ہے یہی تو ہورہا ہے کہ بس ایک سرا پکڑا لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ رہ گئی بات آزادی صحافت کی، آزادی صحافت کیا ہے؟ ایک رپورٹر کی آزادی صحافت کی سب سے پہلی رکاوٹ تو اس کا اپنا ہی ادارہ ہے۔ حکومت تو بعد میں آتی ہے۔ اگر کوئی اخبار اپنے رپورٹر کی خبر نہ شائع کرنا چاہے تو کیا رپورٹر اپنے اخبار کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرے گا؟ دھرنا دے گا۔ بس اس سوال کا جواب دیجیے رہ گئی صحافتی تنظیمیں ان تنظیموں کو تو بس کام چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دنیا کے سامنے پیش کا بیانیہ اور دنیا نہیں ہے کیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

جہاں حکومت کو ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے. خرم دستگیر کا اعتراف

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 فروری ۔2025 )پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی راہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے اعتراف کیا ہے کہ جہاں حکومت کو ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے اور جس بہتری کی توقع تھی وہ فی الحال نظر نہیں آئی ہے ‘ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے جیسے حالات پی ٹی آئی حکومت میں تھے ویسے ہی موجودہ حکومت میں بھی ہیں.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں سابق وفاقی وزیرکہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہتک عزت کا سیلاب آرہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کس طرح خواتین صحافی اور سیاست دانوں کی جعلی فحش تصاویر بنائی گئیں ہمیں اس بیماری کا تو معلوم ہے مگر اس کا علاج ریاست تخلیقی طریقے سے نہیں کر سکی اس لیے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان آسانی سے”بین استان‘ ‘ بن جاتا ہے کہ اسے بین کر دو کیونکہ حکومت کے پاس حل موجود نہیں ہوتا.

انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے اور پیکا قانون کے خلاف جو تحریک اٹھی ہے میں سمجھتا ہوں جو صحافی سچ لکھے گا اس پر کوئی قدغن نہیں ہو گی پاکستان میں سیاست دان مختلف ادوار میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ میری پہلے بھی رائے تھی کہ نیب کا قانون غلط ہے اسے ختم ہونا چاہیے اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ اسے ختم ہونا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ21 ویں صدی کے پاکستان کی ریاست اس معاملے کو نہیں سمجھ پائی کہ کیسے کرنا چاہے وہ نیب ہو کہ سرکاری اہلکاروں کا احتساب کیسے کرنا ہے اور اسی طرح پیکا اور دیگر میڈیا قانون کو آئین میں موجود شہری آزادی کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود گند کو کیسے روکا جائے.

پیکا قانون سے متعلق خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ توقع ہے آئندہ دنوں میں حکومتی وزیر صحافی تنظیموں سے مل کر اس پر مزید مشاورت کریں گے اور جہاں ضرورت پڑی قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے پی ٹی آئی کی جانب سے 26نومبر کے واقعات پر کمیشن کی تشکیل کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ معتبر صحافتی اداروں کو آزدانہ تحقیقات کرکے حقائق سامنے لانے چاہیںپانچ رینجرز اور ایک پولیس اہلکار کی جان گئی اور ظاہر ہے ان کو ریاست نے تو شہید نہیں کیا کہیں نا کہیں متشدد اور مسلح لوگ آئے اور اس پر گفتگو ہو سکتی ہے خرم دستگیر نے کہاکہ اگر احتجاج کرنے والی جماعت مذاکرات کے دوران ٹھوس شواہد لے کر آتی تو اس پر جوڈیشل کمیشن بن سکتا تھا.

متعلقہ مضامین

  • ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا
  • بے ایمان لوگ
  • جہاں حکومت کو ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے. خرم دستگیر کا اعتراف
  • فافن کی رپورٹ اور دنیا میں انقلاب
  • کرپشن تھمنے کا نام نہیں لے رہی، پاکستان دنیا کا 46 واں کرپٹ ترین ملک
  • فیک نیوز کی پبلیکیشن رکنی چاہیے یا نہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
  • پیکا قانون کیخلاف درخواست: عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے طلب کر لیا
  • خدا کی لاٹھی اور اندھے کا لٹھ
  • فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں دیا جائے گا، صدر ٹرمپ