حیدرآباد،گسٹا کے تحت رشوت طلبی کیخلاف احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)گورنمنٹ سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن (گسٹا) تعلقہ لطیف آباد کے تحت گورنمنٹ کمپری ہینسو گرلز ہائی اسکول لطیف آباد نمبر 5 میں پرنسپل نائلہ سموں کی طرف سے معلمات سے سالانہ انکریمنٹ پر 500روپے فی معلمہ رشوت وصولی کرنے کے خلاف لطیف آباد نمبر 6لبیک چوک پر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں اساتذہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی مظاہرین نے کرپشن اور رشوت خوری کے خلاف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔احتجاجی مظاہرے سے گسٹا ڈویژن کے صدر محمود احمد چوہان، گسٹا ضلع حیدرآباد کے صدر عبد القیوم شیخ، ضمیر خان،اعجاز کیانی،فیصل ناغڑ،طلعت بیگم، اور آپا صابرہ نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ گورنمنٹ کمپری ہینسو گرلز ہائر سیکنڈری اسکول کی پرنسپل نائلہ سموں کے خلاف کارروائی کر کے فوری طور پر بر طرف کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ سے زبردستی رشوت لیے جانے کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرنسپل نائلہ سموں نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے ہر ایک اساتذہ سے سروس بک میں انٹری کرنے کی مد میں 500 روپے وصول کیے جا رہے ہیں جو کہ اساتذہ کے ساتھ نا انصافی ہے۔ گسٹا اس عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔گسٹا پرنسپل نائلہ سموں کی برطرفی تک احتجاجی تحریک جاری رکھے گی۔گسٹا عہدیداران نے مطالبہ کیا کہ کرپٹ رشوت خور پرنسپل کے خلاف کارروائی کر کے فی الفور بر طرف کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
بجٹ تجاویز کی طلبی!
حکومت نے بجٹ 2025-26 کے لیے تاجروں وصنعتکاروں اور ان کے ایوانوں سے بجٹ تجاویز طلب کر لی ہیں۔
حکومت کی جانب سے بجٹ تجاویز طلب کئے جانے کی اطلاع بیشتر تاجروں اور صنعتکاروں کو 4 فروری کے اخبارات سے ملی،
اطلاعات کے مطابق حکومت نے بجٹ تجاویز پیش کرنے کیلئے 8 فروری تک کا وقت دیاتھااس خبر کی اشاعت کے اگلے ہی روز 5 فروری چھٹی کا دن تھا۔ پھر 6 سے 8 فروری تک صرف3 دن دستیاب تھے۔
یہ بات واضح ہے اور حکومت کی جانب سے بجٹ تجاویز طلب کرنے والے حکام کو بھی یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کسی چیمبر کی طرف سے مشاورت کی ضرورت ہو یا صنعتکاروں کی ایسوسی ایشن کی طرف سے تجاویز طلب کی جا رہی ہوں، تو سب سے پہلے وہ اپنے طور پر مشاورت کریں گے۔
مشاورت کے دوران یہ بات ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممبرز مشاورت میں حصہ لیں یا میٹنگ میں شرکت کریں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف تین دن میں مشاورت کی ابتدائی باتیں بھی کس طرح طے ہو سکیں گی۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تاجر برادری کو تجاویز تیار کرنے کیلئے جنوری سے ہی آگاہ کیا جا رہا تھااور حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ تجاویز موصول ہوئی ہیں، مگر تمام تجاویز کا حصول ضروری ہے۔ اس کے لیے وقت ایک اہم عنصر ہے۔
اس افراتفری میں تاجروں اور صنعت کاروں سے تجاویز کی طلبی پر سوال اٹھنا فطری امر ہے اور اپوزیشن کا یہ کہنا بڑی حد تک منطقی معلوم ہوتاہے کہ حکومت نے محض خانہ پری کیلئے تجاویز کی طلبی کا ڈرامہ رچایاہے اگر ایسا نہ ہوتا توتاجروں او ر صنعتکاروں کی نمائندہ تنظیموں کو اس اہم کام کیلئے کم وبیش 10 کا وقت تو دیاہی جانا تھا ۔
بیرون ملک سے درآمد کئے گئے وفاقی وزیر خزانہ کو کیا یہ معلوم نہیں کہ مغربی ملکوں میں کسی معاملے پر مشاورت کیلئے کتنا وقت دیا جاتاہے اور اس کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیاجاتاہے۔وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت برآمدات سے معاشی نمو حاصل کرنا چاہتی ہے،برآمدات میں اضافے کے ذریعے معاشی نمو حاصل کرنے کی کوشش تو طویل عرصے سے کی جا رہی ہے لیکن برآمدات میں اضافے کی راہ میں سب سے اہم ترین رکاوٹ بجلی، گیس کے نرخ اور کارخانہ داروں کو کسی بھی علاقے کے واٹر بورڈ کی جانب سے پانی کی فراہمی کی عدم دستیابی ہے، جس کے باعث صنعتکاروں کو لاکھوں روپے کا پانی ٹینکرز کے ذریعے خریدنا پڑتا ہے، اور ان کا منافع کم ہو جاتا ہے۔اس صورت حال کی بنا پر صنعتکار بادل نخواستہ اپنی صنعتوں کو بند کر کے اسٹاک ایکسچینج میں جا کر بیٹھ گئے ہیں اور شیئرز کے کاروبار میں شریک ہو کر بغیر محنت کے منافع کما رہے ہیں۔ اس طرح ملک جو پہلے ہی ایک درآمدی ملک بن چکا ہے، اس کا انحصار مزید درآمدات پر بڑھتا جارہاہے۔
حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجودپاکستان کی بڑھتی ہوئی درآمدات کو کسی بھی طور پر لگام نہیں ڈالی جا سکی ہے۔ جب بھی درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بے ڈھنگے پن سے کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا الٹا نتیجہ نکلتاہے،درآمدات پر کنٹرول کرنے یا درآمدات کم کرنے کیلئے غیر ضروری اشیائے تعیش کی درآمد روکنے کے بجائے، برآمدی سامان کی تیاری کے لیے ضروری خام مال ا پر ضرب لگائی جاتی ہے اور اہم ترین درآمدات پر ضرب لگنے سے کارخانوں میں برآمدی اشیا کی تیاری کی رفتار سست پڑ جاتی ہے ،یا اشیائے ضروریہ اور خوراک کی درآمدات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے ملک میں خوراک کی قلت اور مہنگائی پیدا ہونے کا خدشہ پیداہوجاتاہے۔ ہمارے ارباب اختیار یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ درآمدات میں کمی لانے کا عمل ایک خاص تکنیکی مہارت اور دیگر ضروری باتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں درآمدات کی صورت حال کا اندازہ اس طرحل لگایاجاسکتاہے کہ کہ جولائی 2023 تا جنوری 2024 تک کی کل درآمدات 30 ارب 89 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز تھیں اور اس میں تقریباً 7 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ حکومت نے جولائی 2022 میں بعض درآمدات پر پابندی عائد کی تھی، جو کچھ مرحلوں میں غلط ثابت ہوئیں۔
پاکستان کی ہر حکومت کو ہر سال، ہر ماہ یہی مسئلہ درپیش رہا ہے کہ اس کی درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے اپنی معاشی پالیسی کو آزادانہ طور پر تشکیل دینے اور صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے تقریباً 78 برسوں کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہم ا ربوں ڈالرز مالیت کی غذائی اشیا ا درآمد کرتے ہیں۔ زرمبادلے کی کمی کے باوجود ہماری برآمدات میں کچھ ایسی مصنوعات بھی شامل ہیں جو ایک مقروض معیشت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہیں، پھر بھی ہم انہیں درآمد کرتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم چیز لگژری اور قیمتی گاڑیاں ہیں، جن کی تعداد پورے ملک میں مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
اگر ہم سڑکوں، شاہراہوں اور موٹرویز پر سفر کرتے ہوئے غور سے دیکھیں تو یہ واضح ہو گا کہ اب چھوٹی اور سستی گاڑیوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران ٹرانسپورٹ کی مد میں درآمدات کی مالیت تقریباً 98 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں۔ اس میں قیمتی اور لگژری گاڑیوں کی درآمد بھی شامل ہے، کہا جاتا ہے کہ اب کئی گاڑیوں کی قیمتیں 24 سے 25 کروڑ روپے سے بڑھ کر 40 کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہیں۔یہ درآمدات خاص طور پر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب صنعتکار یا امیر تاجر کے پاس کروڑ یا دو کروڑ روپے جمع ہو جاتے تو وہ نئی فیکٹری لگانے کی بات سوچتا تھا، لیکن اب صورتحال مختلف ہو چکی ہے۔اب سیٹھ صاحب کے پاس جب بھی 20 سے 30 کروڑ روپے آتے ہیں تو فوراً نئی لگژری اور قیمتی گاڑی خریدنے یا امپورٹ کرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ پیٹرل کی درآمدات کی مالیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو رہا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ (جولائی تا دسمبر 2024) میں 8 ارب 8 کروڑ 59 لاکھ ڈالرکی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کی گئیں۔ماہرین کے مطابق چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے اور قیمتی گاڑیوں کے استعمال سے پیٹرول کے اخراجات میں بہت زیادہ فرق آتا ہے، لیکن اس بات کا جواب ہمیں خود پر غور کرنے سے ملے گا۔پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران پاکستان کی کل درآمدات 27 ارب 84 کروڑ 22 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں، جو گزشتہ سال کے اسی دورانیے (جولائی تا دسمبر 2023) میں 26 ارب 13 کروڑ 73 لاکھ 68 ہزار ڈالرز کے مقابلے میں 6.52 فیصد زیادہ تھیں۔
آئی ایم ایف کی بات کریں تو اس نے حال ہی میں بعض معاملات میں ناراضگی ظاہر کی تھی ارباب اختیار ناراضگی کے اظہار سے قبل ہی اس پر توجہ دے سکتے تھے اور درآمدات کے حجم کو 15 سے 20 فیصد کم کر کے مالی دباؤ کو کم کر سکتے تھے لیکن ایسا کرنے سے شاید اشرافیہ کے ناراض ہونے کاخطرہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2024 میں فوڈ گروپ کی درآمدات 3 ارب 78 کروڑ 2 لاکھ ڈالرز رہی جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں یہ 3 ارب 95 کروڑ 71 لاکھ 75 ہزار ڈالرز تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوڈ گروپ کی درآمدات میں 4.47 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اگرچہ فوڈ کی مصنوعات کی درآمدات میں کمی خوش آئند ہے، ، مگر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود دودھ، کریم اور بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا کی درآمد منصوبہ سازوں کی دانائی اور مہارت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 15 ہزار میٹرک ٹن دودھ اور دودھ کی مصنوعات کی درآمد پر 6 کروڑ 3 لاکھ 7 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے۔ گزشتہ مالی سال (جولائی تا دسمبر 2023) میں یہ مقدار 19 ہزار میٹرک ٹن تھی، اور اس پر 6 کروڑ 2 لاکھ 98 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے، یعنی صرف ایک فیصد کا اضافہ۔ یہ کمی حوصلہ افزا ہے، لیکن اسی طرح کی کمی لانے کیلئیملک میں اس کا متبادل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔دکانداروں کا کہنا ہے کہ درآمدی اشیاء کی قیمت میں اضافہ اور لوگوں کی آمدن میں کمی نے ان اشیا کی طلب کو کم کر دیا ہے، جس کے باعث درآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب لوگ اپنے بچوں کے لیے ان مہنگی اشیاخریدنے سے قاصر ہیں۔اس تمام صورت حال کا حل یہ ہے کہ پاکستان میں ان اشیاکا متبادل تیار کیا جائے تاکہ درآمدات میں کمی ہو اور معیشت پر دباؤ کم ہو۔ اگر ہم ان اشیا کا مقامی سطح پر متبادل پیدا کر سکیں، تو اس سے ملک کی معیشت کو فائدہ ہوگا۔
ددوسری جانب حکومت کی بھرپور کوششوں کے باوجود، گزشتہ مالی سال 2023-24 کی کل برآمدات 30 ارب 67 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی تھیں اور رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کی برآمدی مالیت 19 ارب 55 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہی۔ مالی سال 2023-24 کی کل برآمدات اور اس کے پہلے 7 ماہ کی برآمدات کے درمیان تقریباً 14 ارب ڈالرز کا فرق ہے، یعنی اگلے 5 ماہ میں صرف 13 ارب ڈالر کی برآمدات کا اضافہ ممکن ہو سکا۔اس مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی اور درآمدی خام مال یا میٹریلز کی قیمتوں میں اضافے کے عوامل برآمدات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، جس کے نتیجے میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ مشکل ہو رہا ہے۔یہ حقیقت کہ حکومت برآمدات کے ذریعے معاشی نمو حاصل کرنا چاہتی ہے،لیکن برآمدات کی راہ میں حائل مشکلات کے پیش نظر فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ برآمدات میں آنے والے 5 ماہ میں اضافے کے تخمینے کے باوجود، مبالغہ آرائی کے ساتھ بھی یہ 35 یا 36 ارب ڈالرز سے زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف، درآمدات میں اضافے کی راہ ہموار ہے جو ہمیشہ کی طرح برآمدات سے کہیں زیادہ ہی رہتی ہے۔ ان حالات میں بہتر شرح نمو کا حصول بھی مشکل لگتا ہے۔ 2022-23 میں برآمدات میں کمی واقع ہوئی تھی، جس کی ایک بڑی وجہ درآمدات کے کنٹینرز روک لیے جانے کے باعث کئی کارخانوں کا بند ہونا یا کام کی کم شفٹوں میں تبدیل ہونا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کارخانوں کو وہ درآمدی میٹریل میسر نہیں آ سکا تھا جس سے وہ اپنا برآمدی مال تیار کر سکتے۔ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایسی درآمدات جو لگژری آئٹمز کی ہیں، یا جن کا متبادل ملک میں تیار ہو سکتا ہے یا جن کی ملک میں بہترین نعم البدل موجود ہیں، ان کی درآمد پر پابندی لگانی چاہیے۔ خاص طور پر وہ اشیا جو ملک کے تقریباً تمام طبقے کی استعمال کے لائق ہیں، لیکن امیر افراد، اشرافیہ اور نئی نسل اپنے بنگلوں کی تعمیر، شان و شوکت کے اظہار یا غیر ملکی ذائقے کے حصول کے لیے ان اشیا کو خریدتے ہیں، انہیں بھی کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ اگر حکومت غیر ضروری اور قیمتی لگژری آئٹمز کی درآمد کو کنٹرول کرے، تو درآمدی بل میں کمی آ سکتی ہے۔
ملکی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں اور ماحول کو کاروبار دوست اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار بنایا جائے۔ اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورتحال پیش کر رہی ہے، پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے کہ ان سے لاکھوں گھرانوں میں معاشی استحکام آئے۔ اس کے لیے انہیں اپنی توجہ اقتصادی ترقی کے سادہ تصورات سے ہٹا کر، ملک میں مجموعی انسانی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سخت پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہیے۔پبلک سیکٹر میں اس موقع کو حاصل کرنے کا شدید فقدان ہے، اور ریاست کے وسائل کو جمع کرنے اور خرچ کرنے کے طریقے میں پالیسی کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے قابل عمل منصوبے درکار ہیں، اور یہ منصوبہ بندی حکومت میں بیٹھے ہمارے پالیسی ساز ہی کر سکتے ہیں جو وہ اب تک نہیں کرسکے ہیں یا ان کے اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔غیر مستحکم معاشی حالات میں جو سرکاری افسران یا حکومتی عہدیداران سبسڈی یا مراعات حاصل کرتے ہیں، اُن کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کا بہتر، خوشگوار اور پُرامن ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔یہ ترتیب معاشی ترقی، پالیسی سازوں کی ذمہ داریوں، اور معاشی اصلاحات کے لیے اہم نکات کو زیادہ واضح اور منطقی انداز میں پیش کرتی ہے۔ دنیا میں جتنے ملکوں نے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرکے خود کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے، ان میں ایک بات مشترک ہے، پالیسیوں کا تسلسل۔ وہ ممالک جو پالیسیوں کا تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتے، جہاں حکومتیں دیر تک قائم نہیں رہتیں، آج وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور پاکستان بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے۔جس سے نکلنے کا فی الوقت کوئی امکان نظر نہیں آرہاہے۔