لاہور میں مارچ، ’’عورت کیا مانگے آزادی‘‘ کے نعرے
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
لاہور (لیڈی رپورٹر) خواتین کے قومی دن کے موقع پر عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین، مذہبی و صنفی اقلیتوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔ مارچ لاہور پریس کلب سے شروع ہوا اور شرکاء ایجرٹن روڈ سے گزرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے قریب پہنچے، جہاں خواتین کو درپیش مسائل کو خاکوں اور گیتوں کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔ عورت مارچ کی شرکاء نے مطالبہ کیا کہ مذہبی، لسانی، صنفی اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کو عام زندگی سے مٹانے کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔ شرکاء نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2012ء میں کی گئی ترمیم کو واپس لینے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء جیسے جابرانہ قوانین کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کے سلسلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاکستان کا ایسا علاقہ جو 14 اگست 1947 کے ایک سال بعد آزاد ہوا
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبر کو اپنی آزادی کا دن مناتے ہیں کیونکہ اسی دن سنہ 1947 میں انہوں نے ڈوگرا حکومت کے تسلط سے نجات حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قلعہ شگر، قدرتی ماحول میں واقع ایک منفرد تاریخی، ثقافتی ورثہ
اسی طرح گلگت بلتستان کی آزادی کے 3 ماہ بعد شگر بھی آزاد ہوا۔ 12 فروری 1948 کو شگر کے بہادر عوام نے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈوگرا حکومت کا خاتمہ کرکے اپنا علاقہ آزاد کرایا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق ایک سال بعد یعنی 14 اگست 1948 کو ہوا۔
جب گلگت بلتستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو شگر کے عوام نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اپنے علاقے میں جدوجہد کی مگر اس وقت گلگت اسکاؤٹ کا وجود نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ تحریک نہیں چلا سکے مگر گلگت بلتستان کے عوام کی طرح شگر کے لوگ بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کریں۔
گلگت اسکاؤٹس کی مدد سے 11 اور 12 فروری 1948 کی درمیانی شب کو شگر میں موجود چھاؤنی پر حملہ کیا گیا جہاں ڈوگرا حکومت کے جھنڈے کو اتار کر پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر مقامی قیادت اور عوام کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے شگر کی آزادی کا جشن منایا۔
مزید پڑھیے: گلگت بلتستان میں واقع قدیم آثار، خطے کے شاندار ماضی کے آئینہ دار
شگر سے تعلق رکھنے والے محقق حسن اماچہ کا کہنا ہے کہ شگر کے عوام شروع سے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ شگر میں آزادی کی تحریک پہلے سے جاری تھی اور وہاں مسلم لیگ کی سرگرمیاں خفیہ طور پر چل رہی تھیں اور لوگ پاکستان کے قیام کی حمایت کر رہے تھے۔
حسن اماچہ نے کہا کہ جب گلگت بلتستان آزاد ہوا تو اس وقت شگر میں ڈوگروں کا راج تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شگر کے بادشاہ نے گلگت خط لکھا کہ یہاں ہر گلگت اسکاوٹس کو بھیجا جائے تاکہ ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کی جائے جس کی بنا پر گلگت اسکاوٹس آئے لیکن پہلی کوشش ناکام رہی تاہم اس کے بعد عوام کی مدد سے 12 فروری 1948 کو آزادی حاصل کرلی گئی اور پاکستان سے الحاق ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ شگر کی آزادی گلگت بلتستان کی مجموعی جدوجہد کا ایک اہم حصہ تھی اور مقامی لوگ اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ کے کارکنان اور مقامی قیادت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شگر بھی پاکستان کے ساتھ جڑے۔
مقامی صحافی عابد شگری نے کہا کہ شگر کے لوگوں نے نہ صرف آزادی حاصل کی بلکہ ایک سال بعد پاکستان کے ساتھ الحاق بھی یقینی بنایا۔
مزید پڑھیں: گلگت میں انگریز فوجیوں اور ایجنٹس کی آخری آرام گاہ، برطانوی راج کی اہم یادگار
انہوں نے کہا کہ یہی حب الوطنی تھی کہ شگر کے عوام نے آزادی کے بعد بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں جس کے نتیجے میں 14 اگست 1948 کو بلتستان پاکستان کا حصہ بنا۔
شگر کی آزادی ایک تاریخی حقیقت ہے جو مقامی عوام کی بہادری اور حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 12 فروری 1948 کو شگر کو ڈوگرا راج سے نجات ملی اور ایک سال بعد یہ باقاعدہ پاکستان کا حصہ بنا۔ یہ دن نہ صرف شگر بلکہ پورے بلتستان کی تاریخ میں ایک یادگار دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے اور اس دن وہاں کے عوام آزادی کا دن مناتے اور اپنے اباؤاجداد کی کوششوں کو سراہنے کے لیے مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈوگرا راج شگر گلگت اسکاؤٹس گلگت بلتستان گلگت بلتستان کا یوم آزادی یکم نومبر یوم آزادی گلگت بلتستان