پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی تھی: جسٹس نعیم اختر
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیں تو کیا حقوق متاثر ہوں گے؟۔ ملٹری کورٹ سے سنائی گئی سزا پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمڈ فورسز کا کوئی فرد گھر بیٹھے جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا؟۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، پنجاب میں کوئی پتنگ اڑائے تو وہ ملٹری کورٹ نہیں جائے گا، اس پر شہری قانون لگے گا۔ جسٹس نعیم اختر افغان اور سلمان اکرم راجہ کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس نعیم اختر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، بْرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے، آپ کی سیاسی جماعت کے دور میں آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی تھی، آپ کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ آرٹیکل ٹو ون ڈی ون کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ کیوں دیکھے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کے بنے قوانین کو آئین میں 270 آرٹیکل میں تحفظ دیا گیا، اللہ نہ کرے آئین کے میں آرٹیکل 270 AAAA کا اضافہ ہو۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پانچ رکنی بنچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کردیا، سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر وہ سول ملازم ملازمت کی آڑ میں دشمن ملک کیلئے جاسوسی کرے تو ایسے سول ملازم جاسوس کا ٹرائل کہاں ہو گا؟۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کے تابع ہونے پر نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ سیکشن ٹو ڈی کی عدم موجودگی میں ٹرائل کہاں ہو گا؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم کا جاسوسی پر تادیبی کارروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہو گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کے حوالے کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟۔ سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ اس کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہو گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وکیل سلمان اکرم راجہ جسٹس جمال مندوخیل نے سے سوال کیا کہ ا ا رمی ایکٹ کہ ا رمی نے وکیل ایکٹ کے
پڑھیں:
آپ کی جماعت نے بڑی گرمجوشی سے آرمی سے متعلق قانون بنایا تھا، جسٹس نعیم کا سلمان اکرم سے مکالمہ
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں سزا یافتہ ملزم کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیا جائے، تو کیا بنیادی حقوق متاثر ہوں گے؟
سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، اس میں کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا؟ سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، اگر کوئی پنجاب میں گھر میں پتنگ اڑاتا ہے تو وہ ملٹری کورٹ میں نہیں جائے گا، اس پر بھی سویلین قانون لاگو ہوگا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ گھریلو مسلئہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے، تو کیا اسے آرٹیکل تھری میں ڈال کر ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ لیاقت علی کیس میں بھی یہی ہوا، وہاں بھی آرٹیکل تھری کو شامل کیا گیا، جہاں تک بات رہی بنیادی حقوق کی، اس کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سلمان اکرم راجا کو مخاطب کرکے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، بُرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آجکل سیاسی وابستگی بھی ہے، جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔
سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ٹو ون ڈی کی حیثیت پر ہر مرتبہ سپریم کورٹ جوڈیشل ریویو کیوں کرے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو عدالتی نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا ٹو ون ڈی کے لیے 1967 میں آرڈیننس لایا گیا، آرڈیننس کی ایک معیاد ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہو گیا ہو؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ میں عدالتی وقفہ کے دوران چیک کر لیتا ہوں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے، سول سروس میں سزا دینے کا اختیار موجود نہیں ہے، آرمڈ فورسز میں ایک طرف نوکری سے نکالاجاتا ہے تو دوسری طرف سزا بھی دی جاتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر کوئی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل کہاں کریں گے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بتانا پڑے گا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا کس پر ہے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا ایسا نہیں کہ ٹو ون ڈی کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا اگر کوئی سویلین مڈل مین دشمن ملک کے ورغلانے پر راز ان کے حوالے کر دے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا اس کا ٹرائل آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگا، آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، میں اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دوں گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا کہ چاہے نتائج آپ کے خلاف ہی کیوں نا ہوں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بے شک، میں آئین کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، کلبھوش کا کیس آپ کے سامنے ہے، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آئین بنیادی حقوق دے اور کوئی ایک انگلی کے اشارے سے بنیادی حقوق چھین لے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ارزم جنید چاہیے، اسے میرے حوالے کرو۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کردیا، سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر سول ملازم کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے، ایسے سول ملازم جاسوس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا آرمی میں موجود سول ملازمین کو آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا ہم آئین کے پابند ہیں یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا سپریم کورٹ فیصلے کا احترام ہے، لیکن عدالت کے لیے ضروری نہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر آئین میں تبدیلی ہو جائے تو کیا ہوگا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا پھر تو صورتحال ہی مختلف ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے، یکسانیت بھی لانی ہے، تشریح بھی کرنی ہے، پتہ نہیں اور کیا کیا کرنا ہے۔
سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا کہ بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا، 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے، 2025 میں 1860 والے کورٹ مارشل کی کارروائی کا اطلاق یونیفارم پرسنل پر بھی نہیں ہو سکتا، پتہ نہیں دو سال تک کیا ہوتا رہا، ایک کاغذ تک باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی، ضمانت کا حق بھی حاصل نہیں، برطانیہ میں جج ایڈووکیٹ جنرل کی تعیناتی ہائی کورٹ ججز تعیناتی کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے۔
دوران سماعت اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ ایف بی علی کیس میں ایاز سپرا اور میجر اشتیاق آصف کا وکیل رہا، اس وقت ٹرائل اٹک جیل میں ہوتا تھا، ٹرائل کے بعد ریکارڈ جلا دیا جاتا تھا، جب ٹرائل ختم ہوتا ہماری اٹک قلع سے نکلتے وقت مکمل تلاشی لی جاتی تھی، ایک کاغذ تک نہیں لے کر جانے دیا جاتا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس وقت مارشل لا کا دور تھا، سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا مجھے بطور وکیل روزانہ اڈیالہ جیل میں یہی سہنا پڑتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اتنی تلاشی کیوں لی جاتی ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ میری ٹائی تک کی تلاشی لی جاتی ہے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھ سے تو ایک مرتبہ ٹشو پیپر تک لے لیا گیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ اپ دلائل اس کیس تک ہی محدود رکھیں، سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے 10 سال سزا دے دیں اور کہیں آپ کو اپیل کا حق نہیں، کیس کوئی اور سنتا ہے، فیصلہ کوئی اور جاری کرتا ہے، دنیا میں کورٹ مارشل کے لیے دو ماڈلز اپنائے گئے ہیں، دنیا میں ٹرائل کے لیے قابل ججز کو بھرتی کیا جاتا ہے، یہاں کنوکشن ریٹ 95 فیصد ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اعتراف کی بنیاد پر سزا ہو جائے، اعتراف کی بنیاد پر سزا ہمارا ہی انوکھا طریقہ ہے، دنیا میں پورا نظام بدل کر رکھ دیا گیا ہے، دنیا میں اوپن ٹرائل کا تصور بھی موجود ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہمارے سامنے جو معاملہ ہے ہم نے اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، کل بھی سلمان اکرم راجا اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔