پیوٹن کے بعد امریکی صدر کا یوکرینی ہم منصب سے بھی ٹیلیفونک رابطہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز جنگ کو روکنے کا وقت ہے، غیر ضروری طور پر بہت تباہی ہوچکی ہے۔ بعد ازاں یوکرینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی صدر سے امن کے حصول پر بات چیت کی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات چیت کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ یوکرین نے ولادیمیر زیلنسکی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے جلد امن کی امید ظاہر کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرینی صدر بھی پیوٹن کی طرح امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز جنگ کو روکنے کا وقت ہے، غیر ضروری طور پر بہت تباہی ہوچکی ہے۔ بعد ازاں یوکرینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی صدر سے امن کے حصول پر بات چیت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر سے ایک ٹیم کی طرح مل کر کام کرنے، یوکرین کی تکنیکی صلاحیتوں سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یوکرین سے زیادہ کوئی امن نہیں چاہتا، ہم امریکا کے ساتھ مل کر روسی جارحیت کو روکنے اور دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اقدامات کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن سے بات چیت کے دوران امید ظاہر کی تھی کہ ان کی جنگ بندی کی کوشش ایک کامیاب نتیجے پر پہنچے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سے بات چیت کے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے بعد کہا کہ
پڑھیں:
روس سے معاہدے سے پہلے ٹرمپ یوکرین کا دورہ کریں، زیلنسکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) جرمنی کے ممکنہ اگلے چانسلر فریڈرش میرس نے یوکرین کے شہر سومے میں روسی میزائل حملے میں بچوں سمیت کم از کم 34 افراد کی ہلاکت کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر جنگی جرم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے۔
میرس نے اتوار کے روز جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی سے گفتگو کے دوران کہا کہ یہ ہلاکت خیز روسی میزائل حملہ "دانستہ اور سمجھ بوجھ کے ساتھ کیا گیا جنگی جرم" ہے۔
میرس نے کہا، "حملے دو بار ہوئے اور دوسری بار (حملہ) اس وقت ہوا، جب ایمرجنسی ورکرز متاثرین کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔"
انہوں نے جرمنی میں ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، جو پوٹن کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں، مزید کہا، "یہ (پوٹن کا) جواب ہے، جو ان کے ساتھ جنگ بندی کی بات کرتے ہیں پوٹن ان لوگوں کے ساتھ یہی کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)
"میرس نے کہا، "ان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہماری رضامندی کو امن کی سنجیدہ پیشکش کے طور پر نہیں بلکہ کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔"
یوکرینی شہر سومے پر روسی میزائل حملہ، تیس سے زائد ہلاکتیں
یوکرین کو ٹورس میزائل فراہم کرنے کا اشارہمیرس نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹورس میزائلوں کی فراہمی کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
تاہم انہوں نے اس کے لیے یہ شرط بھی رکھی اس سمت میں بھی کوئی اقدام یورپی اتحادیوں کے ساتھ مربوط طریقے کیا جانا چاہیے۔انہوں نے نوٹ کیا کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ جیسے بعض ممالک، پہلے ہی یوکرین کو میزائل فراہم کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ عنقریب اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے جرمن چانسلر اولاف شولس نے تنازعہ بڑھنے کے خطرات کے پیش نظر یوکرین کو ٹورس میزائل فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یوکرین پر روسی فضائی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، زیلنسکی
سنٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رکن شولس نے اس سے قبل سومے پر حملے کو "ظالمانہ" قرار دیا تھا اور کہا تھا: "اس طرح کے حملے اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ روس کے امن سے متعلق دعووں کی حقیقت کیا ہے۔"
ٹرمپ کو یوکرین کے دورے کی دعوتیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو کییف کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔
زیلنسکی نے سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "براہ کرم، کسی بھی قسم کے فیصلے، کسی بھی قسم کے مذاکرات سے پہلے، تباہ شدہ یا مردہ لوگوں، عام شہریوں، جنگجوؤں، ہسپتالوں، گرجا گھروں، بچوں کو دیکھنے کے لیے تشریف لائیں۔"
یہ انٹرویو یوکرین کے شہر سومے پر اتوار کے روز تباہ کن روسی میزائل حملے سے پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا، جس میں دو بچوں سمیت 34 افراد ہلاک اور 117 زخمی ہوگئے۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے اس حملے کو "نہایت برا" قرار دیا۔ حملے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ یہ "نہایت برا" تھا اور انہیں "بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک غلطی کی ہے۔" تاہم انہوں نے اس غلطی کی وضاحت نہیں کی۔
روسی حکومت یوکرین امن معاہدے کو سبوتاژ کر رہی ہے، نیٹو
اس سے قبل یوکرین کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کیتھ کیلوگ نے کہا تھا کہ یہ حملہ مناسب رویے شرافت کی کسی بھی حد کو عبور کر گیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے روس پر "انسانی جانوں، بین الاقوامی قانون اور صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کی صریح بے عزتی کرنے" کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ روس پر جنگ بندی نافذ کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ "فرانس اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے انتھک محنت کر رہا ہے۔"
زیلنسکی کا روس کے بیلگوروڈ میں یوکرینی فوج کی موجودگی کا اعتراف
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کہا: "روس بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، جارح تھا اور رہے گا۔
جنگ بندی کو نافذ کرنے کے لیے فوری طور پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورپ اپنے شراکت داروں سے صلاح و مشورہ جاری رکھنے کے ساتھ ہی روس پر اس وقت تک سخت دباؤ برقرار رکھے گا، جب تک کہ خونریزی ختم نہیں ہو جاتی۔"ص ز/ ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)