’’بہتری وہ ہے جس کے اثرات آئیں اور عام انسان محسوس کرے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ ہمارے پرائم منسٹر ماحول تو بنا لیتے ہیں، انھیں ماحول تو بنانا آتا ہے اور تعریفیں بھی دیکھ لیں ان کی ہو رہی ہیں، بڑی سنگیں قسم کی، اب رولا یہ ہے کہ ایک دورتھا کہ ہمارے لیے سب سے مشکل جو خبر رپورٹ کرنا ہوتی تھی وہ ذرائع کے حوالے سے ہوتی تھی.
ایکسپریس نیوزکے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ مستند خبر ہوتی ہی ذرائع کی ہے کیونکہ سیدھی بات پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ہمیں، ہم اون کرنا پسند کرتے ہی نہیں چیزیں، پرائم منسٹر نے بہت اچھا کیا کہ بجلی کے ریٹس کم کرنے کیلیے بات کی آئی ایم ایف سے اور یہ یقین بھی ان سے حاصل کر لیا کہ ہم پوری طرح غور کریں گے.
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ یہ جو ہم کہتے ہیں نہ کہ بہتری آ رہی ہے ہم اخبارات پڑھتے ہیں نظر بھی آتا ہے کہ بہتری آ رہی ہے، بہتری وہ ہے جس کے اثرات آئیں اس کے اثرات عام انسان محسوس کرے، یہ صحیح ہے کہ پاکستان میں جو مہنگائی کی شرح تھی وہ مزید نہیں بڑھ رہی، ڈالر میں بھی استحکام ہے اور بہت سارے اشاریے جو ہیں وہ اوپر بھی جا رہے ہیں لیکن اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس ساری بہتری کے اثرات کیا عام آدمی پر پڑ رہے ہیں تو ہمارا جواب نفی میں ہے.
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ آپ نے کہا کہ معاشی سرگرمیاں بڑھی ہیں، معاشی سرگرمیاں نہیں بڑھیں، یہ سرگرمیاں تب بڑھتی ہیں جب اکانومی گروتھ کی طرف جاتی ہے، ابھی جو کچھ ہوا ہے ہم نے اکانومی کو اسٹیبلائز کیا ہے، اسٹیبیلیٹی ہے، اگر آپ پچھلے سال کی بہ نسبت دیکھیں تو کافی حد تک چیزیں اسٹیبلائز ہو گئی ہیں، انفلیشن کنٹرول میں آ گئی ہے،زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو گئے ہیں.
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ نوید صاحب نے بہت اچھا کمپیریزن کیا اکنامک گروتھ میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ڈپلومیسی کا، ساتھ ہی رگڑ دیا کہ اس وقت سیکیورٹی کی ہماری سب سے بری سچویشن ہے، بس یہی وہ جگہ ہے جہاں پہ فوج، حکومت، ہماری اپوزیشن ، ہم لوگ سب کو سوچنے کا مقام ہے کہ جس کا جو کام ہے اس کو وہی کرنا چاہیے اور ملکر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک ایسی جگہ پر نہیں کھڑا کہ آپ جائیں بارڈر پہ اکیلے کھڑے ہو جائیں اور آپ جائیں حکومت کے گورننس کر لیں.
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ اکانومی سٹیبل ہو رہی ہے، گروتھ ہو گی تب اس کے ثمرات سامنے آئیں گے، انھیں ٹیکس کی ریشو کو کم کرنا چاہیے، جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے نہ کہ وہ لوگ جو اس وقت ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہی بوجھ اٹھائے رہیں، اسمگلنگ رکی ہے، افغانستان کو پہلے چینی اسمگل ہوتی تھی اب ایکسپورٹ ہو رہی ہے اور اس کا ریونیو مل رہا ہے تو اسی طرح جو دوسری چیزیں ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ کے اثرات رہی ہے
پڑھیں:
پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 12 اپریل 2025ء ) وزیرمملکت برائے قومی ثقافت و ورثہ حذیفہ رحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا،یہ عوام کو بتائیں کہ جھوٹا بیانیہ مقبولیت کیلئے تھا جبکہ حکومت میں گوڈے پکڑ کر آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگربات کرنا چاہتی ہے تو بالکل بات کرلیں، ان کی منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔ انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو گلے لگا کر ہی سیاسی مسائل کا حل نکلتا ہے،پچھلے دس سالوں میں کسی اینکر نے آج تک اس پر بات نہیں کی کہ سربراہان مملکت یا سابق وزرائے اعظم پاکستان میں علاج کیوں نہیں کراتے؟پاکستان میں لاہور ایسا شہر ہے جہاں ایسے ہسپتال اور ڈاکٹر موجود ہیں جن سے رائل فیملی علاج کراتی رہی ہے، ڈاکٹر حسنات، ڈاکٹر شہریار، عامر عزیزسمیت ایسے بڑے نام موجود ہیں، میرا خود میڈیکل فیملی سے تعلق ہے، میرے والد میڈیکل فزیشن اور شعبہ جات کے ہیڈ بھی رہے، جب بھی کوئی سربراہ مملکت کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے آتا ہے تو ڈاکٹر کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپاتا ، کیونکہ ڈاکٹر جب علاج کرتا ہے تو اس پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن سربراہ مملکت کے عہدے کا ڈاکٹر پر پریشر اتنا ہوتا ہے کہ وہ علاج نہیں کرپاتا، کوشش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت کو کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے جس پر کوئی پریشر نہ ہو۔(جاری ہے)
نوازشریف کو جب باہر بھیجا گیا تو بہترین ڈاکٹرز کا بورڈ تھا جس نے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ان کو لگتا تھا کہ نوازشریف سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، نوازشریف کو دل کا ایک پیچیدہ مرض لاحق ہے اور اس کا علاج دنیا کے دو تین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میں بتا دوں کہ نوازشریف کا پلیٹ لیٹس کا کوئی ایشو نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں پی ٹی آئی سے بات کرنی چاہیئے، تو باکل ہم بات کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ کوئی حکومت اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتی ، بات چیت کیلئے جب حکومت کو بڑا دل کرنا چاہیئے تو پھر اپوزیشن کو بھی بڑا دل کرنا چاہیئے، پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ پر تنقید کرتی ہے تو پھر ہم کیسے بات کریں؟پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پر آن ایئر کہے کہ ہمارا سویلین بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کا بیانیہ جھوٹا تھا، یہ جھوٹا بیانیہ عوام میں مقبولیت کیلئے اپنایا تھا ویسے ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے گوڈے پکڑ کر حکومت میں آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر پی ٹی آئی سے بات کرنا چاہتی ہے تو یہ بالکل بات کرلیں، ایک طرف وزیراعظم کٹھ پتلی کا بیانیہ بناتے ہیں اور خود اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔وزیراعظم اور بلاول بھٹو جب مل بیٹھیں گے تو پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔