کیا ایک مضبوط نظام جمہوریت کے بغیر ممکن ہے ؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
کیا پاکستان کا گورننس سسٹم ایک مضبوط جمہوریت کے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے ؟یاآئین، قانون کے تابع انتظامی ڈھانچے کے بغیر ہم جمہوری ساکھ کو قائم کر سکتے ہیں۔تواس کا جواب نفی میں ملے گا۔کیونکہ آج کے جدید جمہوری تصورات میں جو دنیا بھر میں موجود ہیںاس میں ایک مضبوط ملک مضبوط اداروں کی بنا پر ہوتا ہے۔اگر ادارے مضبوط اور فعال نہیں تو جمہوریت کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کا ایک نتیجہ ہمیں اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کے ماحول کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔جو بداعتمادی کی فضا کو پیدا کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کے مقابلے پہ کھڑا کر دیتا ہے۔
آج جب دنیا بھر میں ریاستوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے یا ان کی کارکردگی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے تو اس میں وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق یا آزادی اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جب عالمی ادارے پسماندہ ممالک کے اداروں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو وہ سماجی،انتظامی قانونی،معاشی اور انسانی وسائل کے معاملات میں بہت پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ماضی میں بھی غیرممالک کی تنظیمیںکافی تنقید کرتی رہی ہیں اور یہ صورتحال اب بھی ہورہی ہے۔حکومت نے پیکا ایکٹ پاس کیا ہے، اس پر بھی صحافتی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں اور معاملہ عدالت میں جاچکا ہے۔ یہ کام ماضی میں بھی حکمران طبقات کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ماضی کے حکمران کرتے رہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہم اپنے ریاستی اور حکمرانی کے نظام میں اپنے سیاسی مخالفین یا متبادل آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ایک جمہوری نظام میں ہر ادارے کا کردار واضح اور شفاف ہوتا ہے۔سب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔آزاد عدلیہ کا تصور انتظامیہ کو قانون کے تابع بناتا ہے۔ریاستی اور حکمرانی کے نظام کے ٹکراؤ نے ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اس سیاسی تقسیم نے بلا وجہ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے ہی مقابلے پر بھی کھڑا کر دیا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جس بنیاد پر ہم ریاستی نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ دنیا کے لیے قابل قبول نہیں۔دنیا میں اس ریاستی عمل یا نظام پر نہ صرف تنقید ہوگی بلکہ کئی سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔یہ سوالات صرف باہر کی دنیا سے نہیں اٹھیں گے بلکہ خود داخلی محاذ پر بھی لوگ سوال کریں گے کیونکہ لوگوں کواب یہ طبقاتی نظام قبول نہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ ہم سیاسی اداروں کی مضبوطی کو پس پشت نہ ڈالیں اور سیاسی اداروں کو مضبوط کریں ۔
یہ جو ہمیں ملکی سطح پر سیاست،جمہوریت،آئین اور قانون کی حکمرانی یا گورننس یا سیکیورٹی یا دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے تو اس کی وجہ بھی ریاست کے نظام میں موجود بہت سی خامیاں اور فکری سطح پر موجود بہت سے مغالطہ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عدلیہ، سیاست، جمہوریت، آئین،سول سوسائٹی اور میڈیا ایک جمہوری و قانونی راستہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ،لیکن ان کو کئی محاذوں پر مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اس میں ان کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن پسماندہ سوچ نے راستے محدودکیے ہوئے ہیں۔
اس کا علاج اداروں کی سطح پر باہمی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے جڑا ہونا چاہیے۔ سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی اور حال میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیںاور اب ان غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ اور سیاسی اداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر ہم نے پارلیمنٹ کو محض ایک رسمی یا کاغذی کارروائی کی بنیاد پہ چلانا ہے تو پھر سیاسی نظام کسی بھی صورت میں ہم آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی یا عوامی مفادات کی جنگ کسی ایک مخصوص طبقہ نے نہیں لڑنی بلکہ یہ معاشرے میں موجود تمام انفرادی اوراجتماعی طبقہ کی جنگ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اداروں کی ہیں اور رہے ہیں
پڑھیں:
کراچی میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں لائٹس ہے نہیں، شہریوں کا معاشی قتل ہورہا ہے، منعم ظفر
نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کا سعید غنی ہی بتاسکتے ہیں اس کی کیا ضرورت ہے، 20 ماہ ہوگئے ہیں لیکن کریم آباد انڈر پاس 35 فیصد ہی مکمل ہوا ہے، 24 ماہ میں یہ پراجیکٹ مکمل ہونا تھا، لیکن اب تک تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے کہا ہے کہ شہر میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں لائٹس ہے نہیں، شہریوں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کریم آباد پر نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جس مقام پر ہم کھڑے ہیں وہ عرصہ دراز سے زیرتعمیر ہے، کریم آباد انڈر پاس کا سعید غنی ہی بتاسکتے ہیں اس کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 ماہ ہوگئے ہیں لیکن کریم آباد انڈر پاس 35 فیصد ہی مکمل ہوا ہے، 24 ماہ میں یہ پراجیکٹ مکمل ہونا تھا، لیکن اب تک تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں منصوبوں پر تو کام شروع کردیا جاتا ہے لیکن پھر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، 1.5 کلو میٹر کا انڈر پاس جو جون 2025ء میں مکمل ہونا تھا لیکن نہیں ہورہا ہے، کریم آباد انڈر پاس کے قریب تمام مارکیٹیں موجود ہیں۔ منعم ظفر نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کے قریب دکانوں میں 10 ہزار لوگ کام کرتے ہیں، ایسی صورت حال میں کاروبار کیسے چلے گا؟ دکاندار کیا کریں گے؟، ڈاکخانے کے قریب سڑک کو 6 ماہ سے کھودا ہوا ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں، سندھ حکومت شہر کراچی والوں کو دینا کچھ نہیں جانتی۔