گلوبل وارمنگ، الارمنگ صورتحال
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اس بات کی علامت ہوسکتا ہے کہ دنیا گلوبل وارمنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہی ہے، جس میں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جاسکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زمین پر حدت میں اضافہ کرنے والے اخراج سے گرمی، بدترین سیلاب، ہیٹ ویو اور طوفانوں کے ساتھ سمندرکی سطح میں اضافے سے جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کے معدوم ہونے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے زمینی حالات میں تبدیلی کا سامنا ہر جانب ہو رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے مراد انسانی تجربات کے باعث قدرتی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں،گرین ہاؤس افیکٹ میں اضافہ ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق جوہری بم سے بھی کئی گنا خطرناک گلوبل وارمنگ کا بم ہے جس کے اثرات سے کرہ ارض خطرات میں گھرا ہوا ہے۔
محققین نے کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ سال موسم گرما کے دوران یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، جو اس سے پہلے 62 ہزار تھیں، دریں اثناء طوفان، سیلاب اور آگ دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق گلوبل وارمنگ کے صحت پر تباہ کن اثرات کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی لاکھوں اموات کو روکنے کے لیے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو 1.
جب کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا اس صدی میں 2.9 سینٹی گریڈ تک گرم ہونے کے راستے پر ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بچوں، خواتین، بوڑھوں، تارکین وطن اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو ہوگا، جنھوں نے سب سے کم گرین ہاؤس گیسز خارج کی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سال گرم ترین ہوگا اور جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے۔
اس سے بھی زیادہ اور تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں آنے کی توقع ہے۔ 2024میں بھی عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا۔ دنیا شاید پہلے سے ہی عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کی حد کو پار کر چکی ہے۔ یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور اگر ایک مرتبہ یہ حد پار ہو گئی تو پھر واپسی شاید ناممکن ہو۔
سمندری درجہ حرارت میں اضافے سے نا صرف بحر اوقیانوس میں طاقتور طوفانوں کی تعداد بڑھی ہے بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کچھ طوفان تو چند ہی گھنٹوں میں کیٹیگری 1 سے کیٹیگری 3 میں پہنچ جاتے ہیں۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کے پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک اہم نظام کو ختم کرسکتا ہے۔گلوبل وارمنگ آبی گزرگاہوں کو خشک کر رہی ہے اور اس طرح جنگلات میں نمی بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے امریکا کے مغرب اور کینیڈا سے لے کر جنوبی یورپ اور روس تک میں جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔
دنیا کی بیس فیصد آکسیجن کا ذریعہ یہی جنگلات ہیں۔ سائنسدانوں نے دنیا کے کئی ایسے علاقوں میں گرمی کی شدت میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا، جو خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کو شدید گرمی کی لہروں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ سائنسدانوں نے گرمی کی خطرناک اور ناقابل برداشت دونوں سطحوں پر غور کیا ہے، جہاں جسم کا بنیادی درجہ حرارت چھ گھنٹے کے اندر اندر 42 سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔ محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی بڑھا تو گرمی انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ جائے گی۔ کئی پاکستانی علاقے بھی متاثر ہوں گے اور نوجوانوں کے لیے بھی گرمی کو برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں جیسے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، مون سون کی تبدیلی، شمال میں گلیشیئرزکا پگھلنا اور موسمی نظام میں تبدیلیاں یہ وہ اثرات ہیں جنھوں نے پاکستان کو حالیہ برسوں میں بدلتے ہوئے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبورکیا ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں بحری سطح میں اضافے کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافہ بندرگاہوں اور ساحلی علاقوں کی سمندری سرگرمیوں پر اثر انگیز ہو رہا ہے۔
سمندرکی سطح میں اضافہ اور بارشوں کی تبدیلیوں کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے، جو انسانی زندگیوں کو بڑے خطرے میں ڈال رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کی جائے تو 2022 میں پاکستان میں ہونے والے سیلاب نے اس موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خطرہ ظاہرکیا ہے۔
موسلادھار بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے اثرات سے متاثر ہوا جس سے انسانی جانوں، املاک، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ لگ بھگ 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور 20.6 ملین افراد کو زندگی بچانے والی امداد کی ضرورت ہے، جن میں سے نصف بچے تھے۔ مجموعی طور پر، 7.9 ملین لوگ بے گھر ہوئے، کم از کم 664,000 افراد ریلیف کیمپوں اور غیر رسمی مقامات پر منتقل ہوئے۔ مزید یہ کہ 30,000 سے زیادہ اسکولوں اور 2,000 صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے اور انھیں مرمت یا مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں آنے والی حالیہ موسمیاتی تبدیلی ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہارکیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی بڑی آبادی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہتی ہے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ان ممالک میں مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی بیماریاں جنم لیں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے مسائل کا انبار ہے۔
تحقیقات کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے بے شمار زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کے کل رقبے کے 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا بے حد ضروری ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کل رقبے کے صرف 4 فیصد پر ہی جنگلات ہیں،جو انتہائی کم اور قابل تشویش ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک وزراعت کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً 43000 ہیکٹرز پرکھڑے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے۔
جنگلات کی کٹائی و لکڑی چوری میں محکمہ جنگلات کے افسران کی سرپرستی بھی ہوتی ہے۔ ٹمبر مافیازکو ختم کرنے کے لیے سخت قوانین و سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔ اسی طر ح مختلف ترقیاتی منصوبوں میں توسیع کے لیے درختوں کی کٹائی کو بھی روکنا ہوگا۔ جہاں اس وقت ہمیں شجرکاری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، وہی ماحول کو صاف بنانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پولی تھین بیگز کا استعمال کم سے کم اور ری سائیکلنگ اشیا کا استعمال کیا جائے تاکہ کچرا بننے کے امکانات کم سے کم ہو۔ ملک میں پانی کے ذخیرے میں کمی آ رہی ہے، زیرِ زمین پانی کی سطح بھی گر رہی ہے، پاکستان کا واٹر ٹینک کہلانے والے گلیشیئرز عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث نہ صرف سیلاب تباہی مچا رہے ہیں بلکہ مستقبل میں ہمیں پانی کی شدید قلت کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے پانی کو بچانے اور اسے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا ہمیں بہتر اور نتیجہ خیز پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے؟
پاکستان نے بھی پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچنے کے لیے کئی تحریری وعدے کیے ہیں، جن میں 2030 تک مضر گیسوں کے اخراج میں 50 فیصد تک کمی کرنا بھی شامل ہے اور اس 50 فیصد میں سے 15 فیصد کمی پاکستان نے اپنے وسائل سے اور 35 فیصد کمی بیرونی امداد سے مشروط کر رکھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بہتر پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام جو موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں، وہ ہر سال ایک محتاط اندازے کے مطابق 36 سے 40 لاکھ بچوں کی جان بچا سکتے ہیں۔ ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی نظام پانی کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے میٹھے پانی کی سپلائی کی طلب کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر جو کسی بھی ملک و قوم کے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے اور اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
عالمی تپش کو 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے اور خود کو کاربن نیوٹرل اور 2030تک)یعنی اپنے وعدے کے مطابق (تقریباً صفر کاربن اخراج کرنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرنا ہوگی۔اعلانات اور اقدامات کو قابلِ اعتماد اور قابلِ عمل بنانا ہو گا۔ اپنے اقدامات کو سامنے لاتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کی جانے والی منصوبہ بندی پر عمل کے عزم کا اظہار کرنا ہوگا۔ جدید توانائی کے ذریعے مسابقت بڑھاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گلوبل وارمنگ کے بارے میں آگاہی دینی ہوگی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی سینٹی گریڈ تک پاکستان میں علاقوں میں میں اضافہ میں اضافے کی وجہ سے کی ضرورت سے زیادہ کے مطابق رہے ہیں نے والی پانی کی گرمی کی کیا ہے کے لیے ہے اور رہا ہے رہی ہے
پڑھیں: