امریکی دھمکی پوری دُنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی بھونڈی سازش ہے، لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
لاہور: نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان اور سیکریٹری جنرل مِلی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ فلسطین پر ازسرِنو جنگ مسلط کرنے اور غزہ کی زمین ہڑپ کرنے کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی دھمکیاں نہ صرف مشرقِ وسطٰی بلکہ پوری دُنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی بھونڈی سازش ہے۔
لیاقت بلوچ نے کہاکہ امریکی صدر نے اپنے ابتدائی دِنوں میں ہی امریکی حواس باختگی اور انسانیت سے بدترین دشمنی اور تعصبات کی آگ بھڑکادی ہے، امریکی صدر کے پے در پے غیرقانونی، غیرجمہوری اور غیرانسانی اعلانات ساری دُنیا کو غیرمحفوظ بنارہے ہیں۔
انہوں نےمزید کہاکہ امریکا خود اپنے خلاف گریٹ ورلڈ الائنس کے مواقع تیزتر کررہا ہے۔ ٹرمپ اور اُس کے اہم انویسٹر ایلون مسک کے جارحانہ نوسامراجیت نوسامراجیت کے مقابلہ میں متوازن نقطہ نظر کو عالمی رائے عامہ کے سامنے مسلسل اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے، وگرنہ امریکی شدت پسندی کے سنگین نتائج پوری دُنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا باعث بنیں گے۔
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستا ن کاکہنا تھاکہ پاکستان اور ترکیہ کے عوام میں بے پناہ گہری محبتیں اور اعتماد کا رشتہ ہے۔ پاکستان، ترکیہ، ایران اور افغانستان کے درمیان مضبوط تعلقات خطہ میں امن کی کنجی ہے۔ عالمِ اسلام کا وسیع اور مضبوط اتحاد اُمتِ مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کا واحد پائیدار راستہ ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹرمپ کے غزہ قبضے کی دھمکی سے مشرق وسطی میں جنگ کا میدان گرم ہوگا
کراچی (رپوررٹ: قاضی جاوید) ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کی دھمکی سے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا میدان گرم ہو گا‘ بیان طویل امریکی منصوبے کا حصہ ہے،جلدبازی میں نہیں دیاگیا‘ دو ریاستی حل کا راستہ بند ہوگیا‘امریکی پول میں47فیصدعوام نے بیان کو مسترد کیا،صرف13فیصد نے حمایت کی‘ٹرمپ نے شاہ عبداللہ سوئم، مصری صدر واشنگٹن بلالیا‘ سعودیہ، پاکستان، ایران اور یواے ای کا کر دار اہم ہوگا۔ان خیالات کا اظہار سینیٹر مشاہد حسین سید، صحافی جیسمین منظور اورصحافی حامد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ٹرمپ کی غزہ پر قبضے کی دھمکی سے خطے پر کیا اثرات ہو ں گے؟‘‘سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ٹرمپ کی دھمکی آمیز بیان سے مشرقِ وسطیٰ میں نہیں بلکہ پورے ایشیا میں جنگ کا میدان گرام ہو گا‘ اس سلسلے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ امریکی میڈیا کے پول کے مطابق 47 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو برا قرار دے دیا ہے‘ پول میں13فیصد نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی ہے‘ اس پتا چلاتا ہے کہ خود امریکی بھی ٹرمپ کے بیان کو یکسر مسترد کر تے ہیں‘ اس سلسلے میں حماس نے دو ٹوک الفاظ میں بیان
جاری کرکے غزہ پر امریکی قبضے کو مسترد کردیا ہے اور عرب ممالک بھی ٹرمپ کے اس اعلان کو کسی طور تسلم کر نے کو تیار نہیں ہیں‘ پاکستان کے وزیر اعظم بھی امارات پہنچ گئے اور امید ہے کہ پاکستان، امارات سعودی عرب ،مصر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کو شش کر رہے ہیں۔ جیسمین منظور نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان سے مشرقِ وسطیٰ میں حالات خراب اور دو ریاستی حل کا راستہ مکمل طور سے بند نظر آتا ہے‘ ٹرمپ کے بیان سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیںکیا جاسکتا کہ یہ بیان انہوں نے جلد بازی میں تیا ر کیا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے‘ ان کا یہ ایک طویل منصوبے کا حصہ ہے ‘ اسرائیل نواز امریکی پالیسی تسلسل سے جاری ہے‘ شام پر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے‘ روس کو قابو کرنے اور شام کی جنگ سے دور رکھنے کے امریکا کی حکومت نے لانگ رینج میزائل کا استعمال کیا تھا‘ یہ بات درست ہے کہ بشار الاسد اسرائیل کو نہیں روک رہے تھے لیکن ایران کے میزائل کا اسرائیل تک پہنچنے کا ایک راستہ ضرور تھے جو اب ختم ہو گیا ہے‘ امریکا چاہے گا تو موجودہ جنگ بندی کا فیز2 شروع ہوگا۔ صحافی حامد میر نے کہا کہ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان نے پورے خطے میں جنگ کی آگ پر تیل ڈال دیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے عالم عرب کہاں کھڑا ہے؟ اور وہ کرے گا‘ ٹرمپ نے اردن کے بادشاہ عبداللہ سوائم اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو امریکا بلایا ہے لیکن اس پوری صورتحال میں سعودی عرب، پاکستان، ایران اور متحدہ عربامارات کا کر دار اہمیت کا حامل ہوگا‘ حماس کو471 دن میں پیچھے ڈھکیلنا مشکل ہو گیا ہے تو آئندہ بھی حماس کی موجودگی میں غزہ پر قبضہ نا ممکن ہو گا۔