Islam Times:
2025-02-12@22:03:15 GMT

رواں سال ضلعی عدالتوں نے ریکارڈ کیسز نمٹائے، عامر فاروق

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

رواں سال ضلعی عدالتوں نے ریکارڈ کیسز نمٹائے، عامر فاروق

ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی جانب سے دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ضلعی عدلیہ سے بھی اس مرتبہ ایک جج کو ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کہا ہے کہ رواں سال ضلعی عدالتوں نے ریکارڈ کیسز نمٹائے۔ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی جانب سے دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ضلعی عدلیہ سے بھی اس مرتبہ ایک جج کو ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو ہائی کورٹ کے جج کے لیے نامزد ہوئے لیکن بن نہ سکے ان کے لیے بھی مایوسی کی بات نہیں، آپ بہترین کام کر رہے ہیں، آپ کا وقت بھی آئے گا۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اس سال اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے ریکارڈ کیسز نمٹائے، مجھے آپ کے کام پر فخر ہے، جن ججز کی ترقی ہوئی ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہم ججز سائلین کو قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس سفر میں سپریم کورٹ جا رہا ہوں مگر آپ لوگ میرے دل میں ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ضلعی عدلیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میرے دروازے بھی ہمیشہ آپ کے لیے کھلے رہیں گے۔ تقریب کے آخر میں  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے چیف جسٹس عامر فاروق کو شیلڈ پیش کی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھی شیلڈ پیش کی گئی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ضلعی عدلیہ عامر فاروق چیف جسٹس کے لیے

پڑھیں:

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس نعیم کا سلمان راجہ سے دلچسپ مکالمہ

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیں تو کیا حقوق متاثر ہوں گے؟

ملٹری کورٹ سے سنائی گئی سزا پر اپیل کنندہ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہوجائیں گے، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔

کل کے ریمارکس میں 2 ججز نہیں 2 لوگ کہا تھا: جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمڈ فورسز کا کوئی فرد گھر بیٹھے جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، پنجاب میں کوئی پتنگ اڑائے تو وہ ملٹری کورٹ نہیں جائے گا، اس پر شہری قانون لگے گا، کیس میں 2 مسائل ہیں، ایک آرٹیکل 175 کا بھی مسئلہ ہے، جہاں تک بات بنیادی حقوق کی ہے تو دروازے بند نہیں ہوں گے۔

جسٹس نعیم اختر کا سلمان راجہ سے سماعت کے دوران دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جسٹس نعیم اختر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، بُرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے، آپ کی سیاسی جماعت کے دور میں آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی تھی، آپ کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ نے بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔

جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھا، میں ہمیشہ اپوزیشن میں رہا ہوں، 1975ء میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے، تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ آرٹیکل ٹو ون ڈی کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ کیوں دیکھے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہو جائے تو جوڈیشل ریویو کیا جاسکتا ہے، آرٹیکل آٹھ 3 کا استثنیٰ ٹو ون ڈی کے لیے دستیاب نہیں۔

9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی گئی، جلاؤ گھیراؤ فیشن بن گیا: جسٹس حسن

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس کی جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس نعیم اختر نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ٹو ون ڈی کے لیے 1967ء میں آرڈیننس لایا گیا جس کی ایک معیاد ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہوگیا ہو؟ 1967ء میں آرڈیننس کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی ٹو آیا، 1973ء کے آئین میں تو آرڈیننس کی معیاد 120 دن ہے، جسے 120 دن مزید توسیع ملتی ہے، چیک کریں اس وقت کے آئین میں آرڈیننس کی معیاد کیا تھی، اس وقت کے حالات بھی مدنظر رکھیں، اس وقت ایک جنگ ہوئی جس کے بعد سیاستدانوں نے تحریک شروع کی، کہیں ایسا تو نہیں اس وقت اپنی رجیم برقرار رکھنے کے لیے آرڈیننس لایا گیا ہو، اگر میں غلط ہوں تو اس کی تصحیح کریں، آپ اس نکتے کی طرف کیوں نہیں آ رہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس وقت ون مین شو تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سے کہا کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، وقفے کے بعد جواب دے دیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں عدالتی وقفہ کے دوران چیک کر لیتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے سابق جج شیخ عظمت سعید انتقال کر گئے
  • اسلام آبادہائیکورٹ؛ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے اعزاز میں عشائیہ، 5 ججوں کی عدم شرکت
  • پشاور ہائیکورٹ: چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم کے دور میں 23 ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے گئے
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس نعیم کا سلمان راجہ سے دلچسپ مکالمہ
  • چیف جسٹس عامر فاروق کا ایک اور فیصلہ، ججز کی سینیارٹی تبدیل کرنے کے خلاف 5 ججوں کی ریپریزنٹیشن مسترد
  • جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا ججز مقرر کرنے کی منظوری
  • جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے 6 ججز کے ناموں کی منظوری دے دی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان سے اہم ذمہ داریاں واپس لے لیں
  • پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں ڈبل شفٹ شروع کرنے پر غور