آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات منفرد واقعہ ہے، فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات منفرد واقعہ ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کا عدل و انصاف سے براہ راست تعلق ہے، یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو ہمارے نظام انصاف پر تحفظات ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، نجومی نہیں کہ بتا سکیں حکومت کب جائے گی، اپوزیشن کا آپس میں بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا، 26ویں آئینی ترمیم پر تحفظات ہیں، ججز تقرری میں پہلے بھی پارلیمنٹ کا کردار تھا، اب دوبارہ لیا گیا۔
ٹرمپ کو اپنے دماغ پر سوار کرنے کی کیا ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمانسربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سیاسی آدمی ہوں، ہمیشہ سے مذاکرات کا حامی ہوں، اصول پر ہونے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہماری رائے میں آئینی عدالت کی تشکیل تھی، آئینی بینچ کا بننا بُرا آغاز نہیں، آئینی بینچ کو چلنے دیا جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ مدارس رجسٹریشن سے متعلق حکومت کی طرف سے پیشرفت نہیں ہو رہی، وفاق اور صوبوں کو اپنی ذمہ داری بغیر دباؤ پوری کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے مجھے اس پر تحفظات ہیں، چیف الیکشن کمشنر نے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے نہیں نبھائیں، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ مکمل طور پر ناکام ہوئے، ان سے آئندہ منصفانہ الیکشن کی امید رکھنا حماقت ہوگی، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو چلے جانا چاہیے تاکہ نئے لوگ آئیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ
پڑھیں:
این اے 241 مبینہ دھاندلی کیس، الیکشن کمیشن و دیگر سے دلائل طلب
— فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے این اے 241 کے نتائج میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کیس کی اگلی سماعت پر الیکشن کمیشن سمیت دیگر سے دلائل طلب کر لیے۔
این اے 241 میں مبینہ انتخابی دھاندلی سے متعلق پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما خرم شیر زمان کی الیکشن پٹیشن کی منتقلی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن ٹریبونل کے قیام کے طریقہ کار میں ترمیم سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہاں ہے؟
جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا ہے کہ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ٹریبونلز کو ریگولیٹ کرنا ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں، ٹریبونلز کا قیام چیف جسٹس ہائی کورٹس کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے انتظامی دائرہ اختیار میں نہیں آتا، الیکشن ٹریبونل کے قیام سے قبل عدالت مداخلت نہیں کرتی ہے۔
جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا ہے کہ الیکشن پٹیشن کی منتقلی الیکشن پراسس کا حصہ نہیں، اس لیے عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ججز کو پسند نا پسند کی بنیاد پر منتخب کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ججز پر اعتماد ہونا چاہیے ورنہ یہ سسٹم نہیں چلے گا، اب نیا طریقہ شروع ہو گیا ہے، جج کے خلاف ریفرنس فائل کر کے رجسٹرار کو کہا جاتا ہے ہمارے کیسز اس جج کے سامنے نہ لگائے جائیں۔
اس کے ساتھ ہی وکیل درخواست گزار علی لاکھانی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہو گئے۔
عدالت نے درخواست کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کر دی۔