بھارت کو باسمتی چاول کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان سے شکست
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاول کی ملکیت کے حوالے سے طویل عرصے سے جاری سے جنگ میں پاکستان نے بھارت چاروں شانے چت کردیا ہے اور پاکستان کی پیداوار کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مارکیٹ میں باسمتی چاول کو پاکستان کی پیداوار کے طور شناخت مل گئی ہے، جس کے لیے پاکستان طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا تاکہ اپنے دعوے کو ثابت کیا جاسکے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ یورپی مارکیٹ سے بھی اسی طرح کے فیصلے کا امکان ہے، جس سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی۔
بھارت کے دعوؤں کو اس وقت دھچکا لگا جب تاجر اور مورخین نے شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ باسمتی چاول پاکستان کے ضلع حافظ آباد کی پیداوار ہے اور اسی بنیاد پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کے دعوے کو یکسر مسترد کردیا۔
پاکستان کے باسمتی چاول کی دنیا بھر میں دھوم ہے، جس کا غیرمعمولی معیار اور مناسب قیمت اس سے عالمی مارکیٹ میں مزید برتری دلاتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی باسمتی چاول کی برآمد 4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور چاول کی 27 ارب ڈالر کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان بڑا حصہ دار بن جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے باسمتی چاول کی تجارت میں پاکستان کو مات دینے کے لیے عالمی مارکیٹ میں قبضے کی بڑی کوششیں کیں تاہم ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور پاکستان کے دعووں کو دنیا میں پذیرائی ملی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی مارکیٹ میں میں پاکستان پاکستان کی
پڑھیں:
پاکستانیوں کا قتل؛ ثابت ہوا کہ بلوچ دہشتگرد تنظیموں کی ایران میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں
اسلام آباد:ایران کے سرحدی صوبے سیستان کے ضلع مہرستان میں 8 پاکستانی شہریوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، جو ایران میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے۔
جاں بحق 8 افراد میں سے پانچ کی شناخت دلشاد، ان کے بیٹے نعیم اور دیگر تین نوجوانوں جعفر، دانش اور ناصر کے نام سے ہوئی ہے۔ دلشاد ایک مرمت کی دکان کے مالک تھے، جہاں تمام مقتولین کام اور قیام دونوں کرتے تھے۔
اطلاعات کے مطابق ’’حملہ آور رات کے وقت دکان میں داخل ہوئے، مقتولین کے ہاتھ پاؤں باندھے اور انہیں بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔‘‘
ایران میں 8 معصوم پاکستانیوں کے بے دردی سے قتل نے ایرانی سیکیورٹی پر بڑے سوالات اٹھا دیے۔
یہ قتل عام کسی عمومی واردات کا حصہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا دہشت گردانہ حملہ تھا اور اس طرح کے بہیمانہ قتل میں بلوچ دہشت گرد تنظیمیں مُلوِّث ہیں۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ دہشتگرد تنظیموں کی ایران میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں بھی صوبہ سیستان میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے متعدد پاکستانی مزدوروں کو جاں بحق کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے آپریشن مرگ بر سرمچار میں ایران میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنا کر جہنم واصل کیا تھا، یہ دردناک واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ایران دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستانی شہریوں کی اس انداز سے قتل کی دردناک واردات نے ثابت کر دیا کہ بلوچ دہشتگرد تنظیمیں ایران میں مکمل طور پر متحرک ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں نے ایران میں اس قتل کے واقعے کو ایران کی ناکام اور مخدوش سیکیورٹی صورتحال قرار دیا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ایران میں ہونے والے اس قتل کے واقعے پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار خاموش ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’کیا انسانی حقوق کے ان علمبرداروں کو ایران میں ہونے والے واقعے کی مذمت نہیں کرنی چاہیے؟
دفاعی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر خدانخوانستہ یہی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو یہ لوگ اور قوم پرست تنظیمیں ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے میں دیر نہ کرتے، کیا پاکستانی شہریوں کا خون اتنا سستا ہے کہ ایران کو غیر ملکی مقیم باشندوں کی سکیورٹی کی فکر نہیں۔