برطانوی حکومت نے قوانین کو مزید سخت کرتے ہوئے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے یا کسی گاڑی میں چھپ کر ملک پہنچنے والے مہاجرین کو شہریت کی فراہمی تقریباً ناممکن بنادی۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا کشتی حادثہ 2023: انتہائی مطلوب انسانی اسمگلر گوجرانولہ سے گرفتار

بی بی سی کے مطابق ہوم آفس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹھوس اقدامات سے واضح ہو گیا کہ جو بھی غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوا اس کی برطانوی شہریت کی درخواست مسترد کردی جائے گی۔

نئی رہنمائی میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی خطرناک سفر کر کے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوتا ہے خواہ وہ کشتی کے ذریعے ہو یا کسی گاڑی میں چھپ کر پہنچا ہو اسے عمومی طور پر شہریت دینے سے انکار کر دیا جائے گا چاہے اس کو ملک میں کتنی ہی مدت ہوچکی ہو۔

دوسری جانب ‎اس فیصلے کو انسانی حقوق کی تنظیموں، ریفیوجی کونسل اور بعض لیبر پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: یونان کشتی حادثہ کیوں پیش آیا، وجہ سامنے آگئی

رکن پارلیمنٹ اسٹیلا کریسی نے کہا ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں پناہ گزین ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں گے۔

‎یہ تبدیلیاں پیر کے روز ویزا اور امیگریشن عملے کے لیے جاری کردہ نئی ہدایات میں کی گئی ہیں۔

‎نئی ہدایات میں واضح کیا گیا ہے کہ 10 فروری 2025 سے جو بھی شخص برطانیہ میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوا ہو اسے شہریت دینے سے عام طور پر انکار کر دیا جائے گا، چاہے اس کے داخلے کو کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر چکا ہو۔

‎ایک اور نئی شق کے مطابق جو بھی شخص بغیر درست ویزا یا سفری اجازت کے بغیر برطانیہ میں داخل ہوا ہو اور خطرناک سفر اختیار کیا ہو، جیسے کہ چھوٹی کشتی کے ذریعے یا کسی گاڑی میں چھپ کر اسے بھی شہریت دینے سے انکار کر دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: لیبیا میں 65 مسافروں سے بھری کشتی الٹ گئی، پاکستانی بھی سوار تھے، ترجمان دفتر خارجہ

‎اس سے قبل غیر قانونی طریقے سے برطانیہ آنے والے پناہ گزینوں کو کم از کم 10 سال انتظار کرنا پڑتا تھا جس کے بعد ان کی شہریت کے لیے درخواست پر غور کیا جاتا تھا لیکن اب ان کے لیے شہریت کا حصول مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

برطانوی شہریت برطانوی شہریت مسترد برطانیہ مہاجرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: برطانوی شہریت برطانوی شہریت مسترد برطانیہ مہاجرین برطانیہ میں میں چھپ کر نے والے گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے قانونی اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ نئے آنے والوں میں سے بعض دیگر ممالک جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں پناہ کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں مقیم تھے۔

سال رواں کے شروع میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کو سیکورٹی و معاشی وجوہات کی بنا پر واپس ان کے ملک بیجھنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے تحت دستاویزات کے بغیر اور موجود دستاویزات میں درج مدت سے زیادہ قیام کرنے والوں سمیت غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجھا جائے گا۔

(جاری ہے)

گرفتاری اور جبری طور پر افغانستان منتقلی کے ڈر سے ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کا دورہ پاکستان اور مہاجرین سے ملاقات

ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی

پشاور میں کاروبار کرنے والے ایک افغان باشندے عبدالماجد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اسلام آباد اور پنجاب کے کئی شہروں میں افغان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

کئی خاندان خیبر پختونخوا آ چکے ہیں۔ یہاں دستاویزات رکھنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبدالماجد کا کہنا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے پشاور میں کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے کئی شہروں میں کاروباری رابطے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا، ''اب اتنا بڑا کاروبار کس طرح چھوڑوں؟ افغانستان میں مجھے پھر نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا ہو گا اور وہاں اس وقت کاروبار آگے بڑھانے کے مواقع نہیں ہیں۔

‘‘

عبدالماجد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی ماحول میں تعلیم و تربیت کے بعد ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ان کے بچوں میں سے دو کبھی افغانستان نہیں گئے۔ ''کاروباری مجبوری اپنی جگہ ہے لیکن خاندان میں کوئی بھی واپس افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ حالات بہتر ہوں، تو پھر جائیں گے، تو عبدالماجد کا کہنا تھا کہ ان کی تو خواہش ہے کہ وہ چلے جائیں لیکن بچے تو پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔

‘‘ رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار

پاکستان میں مختلف ادوار میں دو سے آٹھ ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت 2002ء سے 31 اکتوبر 2024ء تک چار ملین افغان واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ البتہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان مختلف راستوں سے واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

ان افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد اور پشاور میں اس اُمید سے رہائش پذیر ہیں کہ انہیں کسی تیسرے ملک میں پناہ مل جائے گی۔ پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی سامنے آنے کے بعد پاکستان نے بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 200 سے زیادہ افغان باشندوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔

اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے مختلف شہر پہنچ رہی ہے۔ صوبائی صدر مقام پشاور میں سب سے زیادہ افغان رہائش پذیر ہیں، جن میں بعض کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔

ان افغانوں نے خیبر پختونخوا کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے۔ پشاور پہنچنے والے زیادہ افغان باشندےمالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیمپوں سے باہر رہنے والے افغان مہاجرین

خیبر پختونخوا میں 69 فیصد افغان باشندے مہاجر کیمپوں سے باہر رہائش پذیر ہیں، جن میں زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

پاکستانی اور غیر ملکی امدادی اداروں نے ان کی مالی معاونت بند کی ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں افغانستان جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن پاکستان میں گرفتاری کا خطرہ بھی ہے۔

غیر یقینی صورتحال کی وجہ سےافغان مہاجرین کے بچےکسی بھی تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھ سکتے۔ خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں بڑی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کسی کالج یا یونیورسٹی میں انہیں حصول علم میں مشکلات کا سامنا ہے۔ والدین سمیت بچوں کو بھی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہےجبکہ علاج معالجے کے بھاری اخراجات ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ کا غیر قانونی تارکین کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال
  • لیبیا کشتی حادثہ: 63 مسافر پاکستانی تھے، 16 لاشیں برآمد، وزارت خارجہ
  • لیبیا کشتی حادثے میں ڈوبنے والے 63 پاکستانی تھے، زیادہ تر جاں بحق ہوگئے، دفترخارجہ
  • لیبیا کشتی حادثہ؛ ڈوبنے والے 73 میں سے 63 پاکستانی تھے، بیشتر جاں بحق ہوگئے، دفتر خارجہ
  • وزیراعظم شہباز شریف کا لیبیا کے ساحل پر کشتی کے حادثے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار
  • پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات
  • سندھ حکومت کی شہریوں سے عدم دلچسپی: کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اب ناممکن
  • پرتگال: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب برطانوی پارلیمانی انڈر سیکرٹری برائے مشرق وسطیٰ پاکستان اور افغانستان سے ملاقات کر رہے ہیں