کشی نگر مسجد پر بلڈوزر کارروائی پر مایاوتی نے یوگی حکومت سے مذہبی تفریق پر روک لگانے کا مطالبہ کیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
مایاوتی نے کہا کہ کشی نگر کے ہاٹا علاقے میں واقع مدنی مسجد کے مبینہ غیر قانونی تعمیر کو منہدم کرنے کی خبر عوام میں غم و غصے کا باعث بنی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے کشی نگر میں مدنی مسجد پر بلڈوزر کارروائی کے معاملے پر بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ضلع انتظامیہ کی مذہبی تفریق پر مبنی کارروائیوں پر فوری روک لگائے۔ مایاوتی نے بدھ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ کشی نگر کے ہاٹا علاقے میں واقع مدنی مسجد کے مبینہ غیر قانونی تعمیر کو منہدم کرنے کی خبر عوام میں غم و غصے کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کو فوراً اس معاملے کا نوٹس لے کر مذہبی تفریق پر مبنی اقدامات کو روکنا چاہیئے۔
یہ واقعہ 9 فروری کو پیش آیا جب کشی نگر کی مدنی مسجد کے ایک حصے کو غیر قانونی تجاوزات قرار دے کر مسمار کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد سیاسی ہلچل مچ گئی اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو نشانہ بنایا۔ سماجوادی پارٹی نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی اور پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کی ہدایت پر ایک 18 رکنی وفد کو مسجد کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا۔ وفد نے مسجد کے منتظمین سے ملاقات کی اور بلڈوزر کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ سماجوادی پارٹی نے کہا کہ وہ اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ پارٹی کے قومی صدر کو پیش کرے گی۔
دوسری جانب سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مسجد کے کچھ حصے سرکاری زمین پر بغیر اجازت تعمیر کئے گئے تھے، جس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مسجد کے خلاف دسمبر 2023ء میں شکایت درج کی گئی تھی، جس کے بعد انتظامیہ نے تحقیقات شروع کیں۔ خیال رہے کہ مسجد انتظامیہ نے 8 فروری تک ہائی کورٹ سے اسٹے حاصل کر لیا تھا لیکن اسٹے ختم ہونے کے بعد 11 فروری کو پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں بلڈوزر کارروائی عمل میں لائی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندو وادی لیڈر رام بچن سنگھ نے ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے اس معاملے کی شکایت کی تھی، جس کے بعد کارروائی کا حکم دیا گیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مسجد کی تعمیر بغیر منظوری کے کی گئی تھی اور اسے تھانے اور میونسپلٹی کی زمین پر بنایا گیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اس معاملے مسجد کے کے بعد
پڑھیں:
یوم سیاہ بمقابلہ یوم تعمیر و ترقی
پاکستان میں عام انتخابات کو ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی جانب سے یوم تعمیرو ترقی منایا گیا جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے یوم سیاہ منایا گیا۔ اب اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہا یا یوم تعمیر و ترقی زیادہ کامیاب رہا۔
سب سے پہلے یوم سیاہ کو دیکھتے ہیں۔ یوم سیاہ کے سلسلے میں تحریک انصاف نے پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عملی طور پر صوابی جلسہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ ویسے تو تحریک انصا ف نے لاہور مینار پاکستان میں بھی جلسہ کا اعلان کیا تھا۔
لیکن شاید تحریک انصاف کو خود بھی معلوم تھا کہ مینار پاکستان میں جلسہ کی اجازت نہیں ملنی۔ اس لیے انھوں نے اس کے لیے کوئی خاص ضد بھی نہیں کی۔ اس دن لاہور میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ تھا۔ ویسے بھی عالمی ٹیمیں لاہور پہنچ گئی تھیں۔
اس لیے لاہور میں جلسہ کی اجازت کیسے مل سکتی تھی۔ تاہم تحریک انصاف اگر جلسہ کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو کسی اور شہر کا انتخاب کر سکتی تھی۔ انھوں نے بھی لاہور کی اجازت ہی مانگی، نہیں ملی تو پھر نہ ملنے پر چپ بیٹھ گئے۔آپ کسی اور شہر میں بھی جلسہ کر سکتے تھے جہاں میچ نہ ہوتا، جہاں کوئی ٹیم نہ ہوتی۔ لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف بھی پنجاب میں احتجاج سے بس راہ فرار ہی چاہتی تھی۔ اس لیے تحریک انصاف نے بھی اجازت نہ ملنے پر عافیت ہی جانی۔
جہاں تک صوابی جلسہ کی بات ہے تو کے پی میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ وہاں وہ انتخابات جیتے ہوئے ہیں، وہاں جلسہ کرنے کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں تھی۔ اگر آپ کا بیانیہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو آپ وہاں احتجاج کرتے جہاں دھاندلی ہوئی ہو۔
جہاں آپ جیتے ہیں، جہاں کے انتخابی نتائج آپ کو قبول ہیں وہاں احتجاجی جلسہ کرنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔ اس لیے صوابی جلسہ کی میرے نزدیک نہ تو کوئی سیاسی اہمیت تھی اور نہ ہی اس کاکوئی جواز تھا۔ صوابی جلسہ کے لیے پورے کے پی سے قافلوں کو بلایا گیا۔
ہر ایک کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ سب نے بندے لے کر آنے ہیں۔ اب جلسہ کے بعد یہ لڑائی موجود ہے کہ کون کم بندے لے کر آیا ہے۔ پنجاب کے شمالی دس اضلاع کو بھی صوابی پہنچنے کی ہی ہدایت کی گئی تھی ۔
اب اگر کے پی کا حکومتی آشیر باد اور کے پی میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھیں تو صوابی کا جلسہ چھوٹا ہی نظر آئے گا۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے دس سے پندرہ ہزار لوگوں کا تخمینہ دیا ہے جو بہت کم ہے۔ اس لیے تحریک انصاف میں صوابی جلسہ کی ناکامی کو لے کر ایک بحث جاری ہے۔ احتساب کی بات کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر گروہ بندی کو اس کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ویسے پورے ملک میں صوابی کے علاوہ کہیں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ کسی شہر میں بھی پانچ سو لوگ نہیں نکلے۔ کیسا یوم سیاہ تھا کہ لوگ ہی نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کے لیڈر چند موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ایک ریلی کی وڈیواپ لوڈ کرتے رہے۔
کسی ریلی میں چند موٹر سائیکل سوار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات خود تحریک انصاف کی قیادت بھی مان رہی ہے کہ لوگ نہیں نکلے۔ شاید لوگ احتجاج سے تنگ آگئے ہیں اور اب مزید احتجاج نہیں چاہتے۔ تحریک انصاف کی قیادت کہتی ہے کہ اجازت نہیں ملی اس لیے لوگ نہیں نکلے۔
پھر یہ سوال اہم ہوگا کہ یہ کیسا احتجاج ہے جو حکومتی اجازت کا محتاج ہے۔ باتیں آپ ملک کو ڈھاکا اور سری لنکا بنانے کی کریں اور لوگ نہ نکلنے پر کہیں کہ اجازت نہیں ملی۔ کیا ڈھاکا اور سری لنکا میں لوگ حکومت کی اجازت سے نکلے تھے۔
لوگ خود نکلتے ہیں اور وہ حکومتی اجازت کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ کسی کال کے بھی محتاج نہیں ہوتے۔ اس لیے تحریک انصاف کی یہ منطق سیاسی طور پر قبول نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی تحریک انصاف کی پنجاب کی بڑی قیادت بھی صوابی میں نظر آئی۔ انھوں نے بھی پنجاب میں اپنے علاقوں میں احتجاج کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اب جہاں تک یوم تعمیر و ترقی کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر حکومت نے انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی۔اگر میں یہ کہوں کہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی مرکزی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ہے۔
کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومت نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے نہیں رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں حکومت کو ہر سال ہر موقع پر اپنی کارکردگی عوا م کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور جوابدہی کی بہترین شکل کارکردگی ہے۔
مرکزی حکومت نے عوام کو بتایا کہ ایک سال میں انھوں نے مہنگائی کم کی ہے۔ شرح سود کم کی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ ترقی کی ہے، ڈالر کی قدر کنٹرول رہی ہے، اسمگلنگ کو روکا گیا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ملک کو ڈیفالٹ کے خطرہ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ معاشی میدان میں کافی بہتری لائی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم تعمیر و ترقی پر اپنے خطاب میں کہا کہ ملکی معیشت کو کافی حد تک مستحکم کر دیا ہے۔ اب ترقی کا سفر شروع ہوگا۔
عوا م کو ریلیف بھی دیا جائے گا۔ کاروبار کو ترقی بھی دی جائے گی۔ پہلے سال ملکی معیشت کو بھنور سے نکالنے کے لیے کافی سخت فیصلے بھی کیے گئے۔ عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔اس ایک سال میں حکومت نے بجلی قیمت کو کم کرنے کے لیے آئی پی پی کے معاہدے منسوخ کیے ہیں۔
جو ایک بہت مشکل کام تھا۔ لیکن اس میں بھی بہت کامیابی ہوئی ہے۔ اشیاء ضرورت کی چیزوں کی قیمت کو کافی حد تک کنٹرول رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے افغانستان چینی اسمگل ہوتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے اسمگلنگ پر قابو پایا تو افغانستان کی حکومت نے باقاعدہ پاکستان سے کئی ملین ڈالر کی چینی امپورٹ کی ہے۔
جس سے پاکستان کو زر مبادلہ بھی حاصل ہوا ہے اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے۔اسی طرح پنجاب حکومت نے بھی ایک سال میں ریکارڈ منصوبے شروع کیے ہیں جن کی عوام میں پذیرائی نظر آرہی ہے۔
اب اگر یہ جائزہ لینا ہے کہ یوم سیاہ کامیاب رہا کہ یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ میں سمجھتا ہوں یوم تعمیر و ترقی کامیاب رہا۔ لوگوں کو کارکردگی میں زیادہ دلچسپی نظر آئی، لوگ حکومت کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن بھی نظر آئے ۔
مجھے کارکردگی کے گرد بحث زیادہ نظر آئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہی تب ہوگی جب ہم بیانیوں کے چکر سے نکل کر کارکردگی پر بات کریں گے۔ جب یہ بات ختم ہو جائے گی کہ بیانیہ بکتا ہے۔ بیانیہ بیچنا کارکردگی کے نہ ہونے کا اعلان ہے۔
جب آپ کی کوئی کارکردگی نہ ہو تو آپ بیانیہ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ کے پاس کارکردگی ہو تو آپ بیانیہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ کارکردگی خود بہت بڑا بیانیہ بن جاتا ہے۔ ہمیں تحریک انصاف سے بھی کے پی کی کارکردگی پوچھنی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صوابی جلسہ میں گالم گلوچ کے بجائے عوام کو کارکردگی بتائی جاتی اور کارکردگی مقابلہ ہوتا۔ تو آج میں بھی دونوں کی کارکردگی کا موازنہ کر رہا ہوتا۔ لیکن جب بیانیہ اور کارکردگی کا مقابلہ ہوگا تو میرا ووٹ کارکردگی کی طرف ہوگا۔