رمضان المبارک میں تعلیمی اداروں کے تدریسی اوقات کار کیا ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)سندھ حکومت نے رمضان المبارک میں اسکولوں کے نئے اوقات کار کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
سندھ میں رمضان المبارک کے دوران اسکولوں کے اوقات کار کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے کے ڈبل شفٹ پر چلنے والے پرائمری اسکولوں میں پہلی ڈبل شفٹ صبح 7:30 سے 11:30تک ہوگی، جبکہ دوسری ڈبل شفٹ صبح 11:45 سے شام 2:45 منٹ تک ہوگی، سنگل شفٹ 8:00 سے 12:30 تک ہوگی،
جمعے کے روز پرائمری اسکولوں میں پہلی ڈبل شفٹ صبح 7:30 سے 10:30تک ہوگی، سنگل شفٹ 8:00 سے 11:30 تک ہوگی، جبکہ دوسری ڈبل شفٹ صبح 11:45 سے شام 1:15 منٹ تک ہوگی۔
رمضان المبارک میں سندھ کے ڈبل شفٹ پر چلنے والے سیکینڈری، ہائرسیکنڈری اور ایلیمینٹری اسکولوں میں پہلی ڈبل شفٹ صبح 7:30 سے 11:30تک ہوگی، جبکہ دوسری ڈبل شفٹ صبح 11:45 سے شام 2:45 منٹ تک ہوگی، سنگل شفٹ 8:00 سے 12:30 تک ہوگی۔
جمعے کے روز سیکینڈری، ہائرسیکنڈری اور ایلیمینٹری اسکولوں میں پہلی ڈبل شفٹ صبح 7:30 سے 10:30تک ہوگی، سنگل شفٹ 8:00 سے 11:30 تک ہوگی، جبکہ دوسری ڈبل شفٹ صبح 11:45 سے شام 1:15 منٹ تک ہوگی۔
مزیدپڑھیں:تحریک انصاف سے برطرفی کا معاملہ، شیر افضل مروت کیا کہتے ہیں؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سنگل شفٹ 8 00 سے رمضان المبارک منٹ تک ہوگی
پڑھیں:
2 کروڑ90 لاکھ بچوں کا اسکول سے باہر ہونا قومی المیہ ہے
فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے ضلعی امیر پروفیسرمحبوب الزماںبٹ نے کہا ہے کہ تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ دو کروڑ نوے لاکھ بچوں کا سکول تعلیم سے باہر ہونا بڑا قومی المیہ ہے۔ ملکی سطح پر ہمہ گیر ترقی کے لیے ناگزیر ہے کہ غیرطبقاتی یکساں نظامِ تعلیم اور قومی زبان اُردو کے نفاذ پر تمام قومی جماعتیں اتفاق کرلیں۔ تعلیم کو قومی ترجیحِ اول قرار دیا جائے اور اِسی ترجیح کے مطابق وسائل فراہم کیے جائیں۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسی قیامِ پاکستان کے مقاصد اور آئینِ پاکستان کے رہنما اصولوں کی پابند کی جائے۔انہوں نے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام اور مخلوط نظامِ تعلیم کے خاتمہ کے ذریعے معیارِ تعلیم کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لیے میٹرک تک لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنہیں محفوظ ماحول میں حصولِ تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی تعلیمی ترجیحات کا لازمی حصہ ہو۔شرح خواندگی میں اضافہ اور علمی، تیکنیکی میدانوں میں نئی منازل تک رسائی کے ذریعے ہم خطے کے دیگر ممالک سے آگے نکل سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور اِن شعبہ جات میں تحقیق و ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے کی غرض سے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو درکار ضروری مالی، تیکنیکی اور دیگر وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ سرکاری و نجی سطح پر تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، نیز ملک بھر میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر طلبہ و طالبات کے لیے 50 نئی یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج قائم کیے جائیں۔طلبہ و طالبات، بالخصوص غریب طبقات کے بچوں پر ناقابلِ برداشت تعلیمی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے خصوصی رعایتیں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک اور دینی اخلاقی بنیادوں پر مبنی ماحول یقینی بنایا جائے تاکہ مادرِ علمی سے فارغ التحصیل ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے آج کے یہ نوجوان اعلیٰ و ارفع اخلاق کے حامل انسان بن کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔