خواتین کے قومی دن پرلاہور میں عورت مارچ کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
لاہور:
خواتین کے قومی دن کے موقع پرلاہور میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں خواتین، مذہبی و صنفی اقلیتوں، اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔
مارچ لاہور پریس کلب سے شروع ہوا اور شرکاء ایجرٹن روڈ سے گزرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے قریب پہنچے، جہاں خواتین کو درپیش مسائل کو خاکوں اور گیتوں کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔
عورت مارچ کی شرکاء نے مطالبہ کیا کہ مذہبی، لسانی، صنفی اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کو عام زندگی سے مٹانے کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے پنجاب پروٹیکشن آف ویمن قانون کو مؤثر انداز میں نافذ کرنے، کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف قائم کمیٹیوں کو مضبوط بنانے، جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا خاتمہ کرنے، اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق قوانین پر عوامی مشاورت کے ساتھ نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔
شرکا نے خواجہ سرا اور صنفی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد کے خاتمے، اور افراد کو اپنی جنس کے تعین کا حق برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے آزادی اظہار پر سینسر شپ کے لیے فائر وال جیسی ٹیکنالوجی کے خاتمے، اسموگ کے مؤثر حل کے لیے پالیسی بنانے، اور زرعی اراضی کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے منصوبوں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
گزشتہ برس کی نسبت اس سال عورت مارچ کے شرکا کی تعداد خاصی کم نظر آئی جبکہ ماضی کی طرح کے انتظامات بھی نہیں کیے گئے تھے تاہم پولیس کی طرف سے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات تھے۔ خواتین پولیس اہل کاروں کی بڑی تعداد سیکیورٹی پر تعینات تھی۔
شرکا کی طرف سے ’ میرا جسم میری مرضی ‘ اور ’عورت کیا مانگے آزادی ‘ کے نعرے بھی لگائے جاتے رہے۔ خواتین آرٹسٹوں نے مختلف گیتوں اور خاکوں کے ذریعے مسائل کو اجاگر کیا۔
عورت مارچ سے قبل ویمنز ایکشن فورم اور عورت مارچ لاہور کی منتظمین نے لاہور پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ویمنز ایکشن فورم کی کنوینر نائلہ ناز، بانی رکن خاور ممتاز، اور عورت مارچ کی نمائندہ نادیہ اور فاطمہ سمیت دیگر خواتین رہنماؤں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔
خواتین رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ عورتوں، مذہبی، لسانی و صنفی اقلیتوں، اور سیاسی مخالفین و مزاحمتی تحریکوں کو عام زندگی سے مٹانے کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کی جدوجہد کی اصل کہانیوں کو مکمل سچائی کے ساتھ تعلیمی نصاب، عجائب گھروں، اور تاریخی دستاویزات کا حصہ بنایا جائے جنہوں نے پدرشاہی اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی۔
انہوں نے پنجاب پروٹیکشن آف ویمن ایگینسٹ وائیلنس ایکٹ 2012 کو مؤثر انداز میں نافذ کرنے، کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے ازالے کے لیے بنائی جانے والی انکوائری کمیٹیوں کو بلا خوف و خطر اپنا کام سرانجام دینے کی اجازت دینے، اور جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
خواتین رہنماؤں نے ٹرانسجینڈر اور خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کا خاتمہ کرنے، ٹرانس جینڈر پر سنٹز پروٹیکشن ایکٹ 2018 کو مضبوط بنانے، اور تمام لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اظہار اور اختلاف رائے کی آزادی کو یقینی بنانے، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرنے، اور تمام جبری طور پر لاپتہ افراد کو واپس لانے کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے آزادی اظہار پر سینسر شپ کے لیے فائر والز اور حکمرانی کی ٹیکنالوجیز کے استعمال کو روکنے، پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2012 میں کی گئی ترمیم کو واپس لینے، اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 جیسے جابرانہ قوانین کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کے سلسلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
خواتین رہنماؤں نے کہا کہ سب کے لیے صاف اور محفوظ ہوا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ سموگ سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے محفوظ عوامی نقل و حمل میں سرمایہ کاری کرے۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی نقل مکانی کو عوامی ایمرجنسی تسلیم کرنے، اور زرعی اراضی کو ذاتی مفاد میں استعمال کر کے غذائی قلت پیدا کرنے والے منصوبوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے آئی ایم ایف کے کہنے پر کیے جانے والے کفایت شعارانہ اقدامات کو ختم کرنے، تمام ورکرز کو گزارے لائق اجرت دینے، اور ایسے مالکان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا جو ورکرز کو گزارے لائق اجرت دینے سے انکاری ہوں۔
عورت مارچ کے شرکاء نے اپنے مطالبات کو پرزور انداز میں پیش کیا اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرنے کا مطالبہ کیا خواتین رہنماؤں نے کا خاتمہ کرنے انہوں نے کے ساتھ کے لیے کو ختم
پڑھیں:
خواتین کے لئے بنائے گئے قوانین پر مکمل عمل نہیں ہورہا ہے، ڈاکٹر نفیسہ شاہ
پیپلزپارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ ملک میں صرف 5 فیصد خواتین سول سروس میں ہیں، خواتین کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر مکمل عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ جنرل ضیا کی آمریت میں خواتین کی جدوجہد اور 12فروری کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے یہ دن منایا جاتا ہے، جدوجہد ابھی باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون کو دو بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، قانون پر مکمل عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، مقامی سطح پر قوانین تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے اپنی بہن فاطمہ جناحؒ کو تحریک پاکستان میں شامل کیا تھا، قانون ہم نے بہت بنائے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر بننے والے قوانین پر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے، اور خواتین کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عمل داری کرائی جانی چاہیے۔
سابق چیئرپرسن قومی ادارہ برائے وقار نسواں خاور ممتاز نے کہا ہے کہ اب بھی بہت ساری جگہوں پر کہا جاتا ہے کہ اگر دو عورتوں کی گواہی ہوتو بہتر ہے، ملک میں جو بھی قانون بنتا ہے اس کا مکمل طور پر اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف دو بار قانون آچکا ہے، پہلے پوچھا جاتا ہے سمجھوتہ ہوا ہے، ایسے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، قانون سازی میں جلدی کی جاتی ہے، جس کے باعث قوانین میں خامیاں رہ جاتی ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر شرکت گاہ فریدہ شہید نے کہا کہ خواتین کے حقوق کا دن ہمارا قومی دن بن چکا ہے، آمریت کے دور میں بہت ساری پابندیاں تھیں، ہم نے جب جلوس نکالا تو پولیس نے گھیرائو کیا ہوا تھا، حبیب جالب نے اپنی نظمیں سنانے لگے تھے۔