اسرائیل کا جنگ بندی پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔ تحریر: علی احمدی
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں 2 لاکھ خیمے اور 60 ہزار تعمیر شدہ گھروں کا داخلہ روک دیا اور اس کے بعد مظلوم فلسطینی شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کی راہ میں شدید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ غاصب صیہونی فوج پندرہ ماہ تک غزہ کی پٹی پر لاحاصل فوجی جارحیت کے بعد جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے پیر 10 فروری کے دن اعلان کیا ہے کہ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث جنگ بندی کے تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کو نامعلوم مدت تک روک دیا گیا ہے۔ یاد رہے جنگ بندی کے تیسرے مرحلے کے تحت ہفتہ 15 فروری کے دن حماس اور صیہونی رژیم کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ انجام پانا تھا۔
غزہ کی پٹی میں بحران شدید ہو جانے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس پر غاصبانہ قبضے کے منحوس عزائم کا اظہار کیا ہے اور یوں جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا خطے کے عرب ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن حماس اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدہ شدید تزلزل کا شکار ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے سن حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے طوفان الاقصی نامی عظیم فوجی آپریشن انجام دیا جس کے نتیجے میں "مسئلہ فلسطین" ایک بار پھر اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بن گیا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے 2019ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول ریاض اور تل ابیب کے تعلقات معمول پر آنے میں صرف 6 ماہ کا وقت درکار تھا لیکن ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس کے بعد حماس کے طوفان الاقصی آپریشن نے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ مغربی ایشیا کے کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر ناجائز قبضے کا ارادہ ظاہر کر کے خلیج عرب ریاستوں کے حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے فوری اقدامات انجام دیں۔ دوسری طرف عرب حکمران غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے ناطے تل ابیب سے غیر مشروط طور پر تعلقات بحال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
اخبار اکونومسٹ اپنی رپورٹ میں ابراہیم معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں اپنی حکومت کے مستقبل سے پریشان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات کا انجام عرب حکمرانوں کے لیے وحشت کا باعث بن چکا ہے۔ لہذا اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فوجی جارحیت انجام دے رہا ہے تاکہ عرب ممالک کو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بجائے فلسطین اتھارٹی کی بقا پر راضی کیا جا سکے جو فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والی کم ترین مراعات ہو گی۔ تل ابیب حکام مغربی ایشیا میں اپنی متزلزل پوزیشن مضبوط بنانے کے درپے ہیں اور عرب ممالک کی حمایت سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی فوج کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برخلاف سعودی حکمران عوامی رائے عامہ کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں۔
اندرونی سطح پر صیہونی حکام شدید بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ صیہونی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کے تیسرے اور چوتھے مرحلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ استعفی دے دیں گے جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ جائے گی۔ اگر موجودہ حکومت ٹوت جاتی ہے تو یہ بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔ شدت پسند صیہونی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ العربی الجدید کے مطابق صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیر بیزلل اسموتریچ نے اسرائیلی حریدیوں کی پالیسیوں اور اسٹریٹجی کے ادارے کی دسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس کے خلاف دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی، پانی اور انسانی امداد روک کر غزہ والوں پر جہنم کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی یرغمالیوں بنجمن نیتن یاہو نے تعلقات معمول پر صیہونی رژیم اور اسرائیل جنگ بندی کے میں اسلامی غزہ کی پٹی کی جانب سے عرب ممالک کیا ہے کہ تل ابیب ہو جائے حماس کی فوج کو کے بعد کے لیے اور اس کہا کہ
پڑھیں:
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا.سعودی وزیر خارجہ
جدہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا عرب نشریاتی ادارے کے مطابق شہزادہ فیصل نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہیے کہ وہ غزہ کو امداد کی فراہمی کی اجازت دے.(جاری ہے)
انطالیہ میں غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں عرب اسلامی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے، سعودی عرب جنگ بندی مذاکرات میں مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے اجلاس میں انکلیو میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فوری اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اجلاس میں فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا.
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں اس کا اطلاق ہر طرح کی نقل مکانی پر ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کی بعض اقسام کی روانگی کو رضاکارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آپ رضاکارانہ انخلا کی بات نہیں کر سکتے جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے. انہوں نے کہا کہ اگر امداد نہیں مل رہی ہے، اگر لوگوں کو کھانا، پانی یا بجلی نہیں مل رہی ہے اور اگر انہیں مسلسل فوجی بمباری کا خطرہ ہے تو یہاں تک کہ اگر کسی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ رضاکارانہ انخلا نہیں ہے یہ جبر کا تسلسل ہے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی تجویز جس میں فلسطینیوں کی روانگی کو فریم کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا جسے ان حالات میں رضاکارانہ انخلا کا موقع کہا جاتا ہے محض حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے. انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی وضاحت جاری رکھنی چاہیے لگاتار کام کرنا چاہیے اور امید ہے کہ یہ پیغام سب کے لیے واضح ہو گا خاص طور پر اس ایکشن پلان کے فریم ورک کے اندر جس پر ہم نے آج کمیٹی میں اتفاق کیا ہے سعودی وزیر خارجہ نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی جن میں یہودی بستیوں کی توسیع، گھروں کو مسمار کرنا اور زمین پر قبضہ شامل ہے.