آئی ایم ایف وفد کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟ نور عالم کا سوال، خواجہ آصف کا جواب
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
فوٹوز فائل
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف وفد کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟ جس کا وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دے دیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ بتایا جائے کہ آئی ایم ایف کا وفد کس حیثیت میں، کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟
عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہئیں کہ آئی ایم ایف کا وفد کیوں سپریم کورٹ آیا: چیف جسٹس پاکستانچیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہئیں کہ آئی ایم ایف کا وفد کیوں سپریم کورٹ آیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دیا کہ آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کا وقت مانگا، چیف جسٹس نے ملاقات کا وقت دے دیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ فنانشل ڈسپلن میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے، اسی لیے آئی ایم ایف وفد چیف جسٹس سے ملا، آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس کی جانب سے ملاقات کا وقت ملنے پر ہی ملاقات کی ہے، اگر چیف جسٹس نہیں چاہتے یا ملاقات کا وقت نہیں دیتے تو شاید ملاقات نہیں ہوتی۔
موجودہ حالات میں لوگ بولتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں اصل چہرہ نہ پہنچانا جائے، خواجہ آصفوزیر دفاع نے کہا کہ موجودہ حالات میں لوگ بولتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں اصل چہرہ نہ پہنچانا جائے،
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں مجبوری سے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاور کمپنیوں کی نجکاری کے معاملے سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں گزرے ہیں، ان کمپنیوں کے ملازمین کا کوئی فائدہ نہیں تو بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ سیاسی مجبوریاں ہمیں مجبور کردیتی ہیں کہ ہم فیصلے نہیں لیتے، یوٹیلٹی اسٹورز پر غیر معیاری اشیاء ملتی ہیں، یہ ادارہ بینک کرپٹ ہوچکا ہے، بوجھ عوام پر پڑتا ہے، اس لیے ملازمین کو متبادل آپشنز دے رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں سے نجات حاصل کر رہے ہیں، متبادل روزگار کےلیے ہمیں اکٹھے بیٹھنا چاہیے، نقصان والے اداروں کا متبادل تلاش کرنا ہماری سیاسی ذمہ داری ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس سے ملا ئی ایم ایف وفد ملاقات کا وقت ا ئی ایم ایف آئی ایم ایف نے کہا کہ
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی کا خط آئینی بنچ کو بھجوا دیا، چیف جسٹس: آئی ایم ایف وفد کی ملاقات
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ عمران خان کا خط وصول ہوچکا جو آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی جو ہم سے چاہتے ہیں وہ آرٹیکل 184کی شق 3 سے متعلق ہے، لہٰذا یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا ہے اور اسے آئینی بینچ نے دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی جس میں چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفد کو عدالتی نظام اور اصلاحات پر بریف کیا جبکہ اس دوران چیف جسٹس سے ججز تقرری اور آئینی ترمیم پر بھی بات چیت کی گئی۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے خصوصی وفد سے سپریم کورٹ میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آئی ایم ایف وفد کی ملاقات پر بریف کروں گا۔ بانی پی ٹی آئی کے خط پر بات کروں گا، نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی پر بھی بات کروں گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف وفد کو جواب دیا ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ میں نے وفد کو بتایا یہ ہمارا کام نہیں ہے آپ کو ساری تفصیل بتائیں۔ میں نے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وفد کو بتایا ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔ وفد نے کہا معاہدوں کی پاسداری، اور پراپرٹی حقوق کے بارے میں ہم جاننا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا اس پر اصلاحات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے وفد کو بتایا ہم تجویز دیں گے، ہائیکورٹس میں جلد سماعت کیلئے بنچز وہ بنائیں گے، میں نے وفد سے کہا جو آپ کہہ رہے ہیں وہ دو طرفہ ہونا چاہیے۔ وفد نے کہا ہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں، میں نے وفد سے کہا ہمیں عدلیہ کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس چاہیے ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مجھے خط بہت آتے ہیں، مجھے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کا خط بھی ملا ہے، آج کل میں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو پیغام بھجوایا، میرا سلام وزیراعظم صاحب کو پہنچائیں، میں نے وزیراعظم کو بذریعہ اٹارنی جنرل کہا اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے قائد حزب اختلاف سے بھی بڑی مشکل سے رابطہ کیا، ہم نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا مانگا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے۔ صحافی نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے خط کو ججز آئینی کمیٹی کو بھیجنے کیلئے کن وجوہات یا اصولوں کو مدنظر رکھا گیا؟۔ عدلیہ میں اختلافات کو ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات کریں گے؟۔ اس پر چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ خط لکھنے والی ججز کی پرانی چیزیں چل رہی ہیں، انہیں ٹھیک ہونے میں ٹائم لگے گا، پرانی چیزیں ہیں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے ججز سے کہا سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، میں نے کہا مجھے ججز لانے دیں، میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ لانے کا حامی ہوں، میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز کرتے تھے، وہ آج کل کیسز ہی نہیں سن رہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی آئی ہے، خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی بھی جوڈیشل کمیشن ممبر نام دے سکتا ہے، بہت اچھے ججز آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن ابھی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوڑ میں شامل ہیں، جسٹس میاں گل حسن کو قائم مقام جج کے طور پر لایا گیا، جسٹس میاں گل حسن ٹیکس کیسز میں ایکسپرٹ تھے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں لانا چاہتا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے آئندہ اجلاس میں ان کا نام دوبارہ زیر غور ہوگا۔ عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف وفد کیوں سپریم کورٹ آیا۔ بانی پی ٹی آئی کے خط بارے کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کل کر لیا تھا۔ خط لکھنے کے بارے میں پرانی عادتیں جلد ٹھیک ہوجائیں گی، خط لکھنے والے ججز کو انتظار کرنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں چیزوں کو مکس نہیں حل کرنا ہے، ہمیں سسٹم پر اعتبار کرنا ہوگا۔ آئندہ ہفتے سے 2 مستقل بینچز صرف کریمنل کیسز سنا کریں گے۔ سزائے موت کے کیسز تیزی سے سماعت کے لیے مقرر کررہے ہیں۔ ججز لائیں گے تب ہی کیسز سماعت کیلئے فکس ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 26اکتوبر کو حلف لینے کے بعد ہائی کورٹ کے ججز کواپنے گھر بلایا۔ جو میرے اختیار میں ہے وہ میں ضرور کروں گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 4 ججوں کا خط ابھی کھولا بھی نہیں تھا، دیکھا ٹی وی پر چل رہا ہے، نجانے انتظار کیوں نہیں کرتے، پینک کر جاتے ہیں، خط لکھنے والے ججز کو انتظار کرنا چاہیے تھا، سپریم جوڈیشل کونسل کی ہر میٹنگ میں مداخلت کی بات ایجنڈا آئٹم نمبر ایک پر ہوتی ہے، میں اپنی بات متعلقہ فورم اور وقت پر کرتا ہوں۔ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ ان ججز کا اعتراض اسلام آباد ہائیکورٹ کے معاملے پر تھا، وہ معاملہ کل ہمارے سامنے آگیا ہے۔ دوسرا اعتراض لاہورکے ججز پر تھا کہ شاید وہ ہوجائیں گے، وہ لاہور والے جج تو تعینات نہ ہوسکے، وہ ججزچاہتے تھے ہم اسے کسی مخصوص ایونٹ تک روک دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے سنیارٹی پر کل رائے دی کہ ایک مخصوص نام سنیارٹی میں نہیں بنتا، ججوں کے تبادلے کو سنیارٹی سے جوڑنا غلط تھا، اٹارنی جنرل نے کل میرے مؤقف کی تائید کی، سسٹم پر یقین رکھنا چاہیے، کل سسٹم بولا ہے، کل لاہور کے ججزکے معاملے پر 2ججزکے چلے جانے پر بھی ان کے مؤقف کی ہی پذیرائی ہوئی۔ ایک بہت اچھے جج کی تعیناتی کل ان ممبران کی عدم موجودگی کے باعث نہ ہوسکی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا۔ اعلامیے کے مطابق یہ ملاقات فنانس ڈویژن کی درخواست پر کی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ اس طرح کے مشنز کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ تاہم، چیف جسٹس پاکستان نے آئی ایم ایف وفد کا خیر مقدم کیا اور عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جاری کوششوں سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اہم آئینی پیش رفت اور اصلاحات پر روشنی ڈالی، جبکہ عدلیہ اور پارلیمانی کمیٹی کے انضمام کی خوبیوں پر بھی گفتگو کی۔ ملاقات میں عدالتی احتساب اور ججوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت ہوئی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدلیہ کی سالمیت اور آزادی برقرار رکھنے کے لیے مضبوط اور منصفانہ احتسابی عمل کی اہمیت پر زور دیا۔ ملاقات میں رجسٹرار سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹریز نے بھی شرکت کی۔