WE News:
2025-04-18@02:11:10 GMT

یوٹیلٹی اسٹورز دیوالیہ ہوچکے ہیں، خواجہ آصف

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

یوٹیلٹی اسٹورز دیوالیہ ہوچکے ہیں، خواجہ آصف

وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز دیوالیہ ہوچکے ہیں، بوجھ عوام پر پڑرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی اور انہیں یو اے ای سے واپس لائے گی، خواجہ آصف

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاور کمپنیوں کی نجکاری کے معاملے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں گزری ہیں، ان کمپنیوں کے ملازمین کا کوئی فائدہ نہیں تو بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے، سیاسی مجبوریاں ہمیں مجبور کردیتی ہیں کہ ہم فیصلہ نہیں کرتے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 1970 میں جب یوٹیلٹی اسٹور متعارف کروایا گیا تو اس کی بہت اہمیت تھی، اب ان اسٹورز پر غیر معیاری سامان ملتا ہے، یہ ادارہ دیوالیہ ہوچکا ہے، یوٹیلٹی ملازمین کی تنخواہیں عوام پر بوجھ ہیں، اس لیے ملازمین کو متبادل آپشنز دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا مستقبل کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ خسارے میں جانے والے اداروں سے نجات حاصل کررہے ہیں، متبادل روزگار کے لیے سب کو اکٹھے بیٹھنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاور کمپنیاں خواجہ آصف مسلم لیگ ن یوٹیلٹی اسٹورز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاور کمپنیاں خواجہ ا صف مسلم لیگ ن یوٹیلٹی اسٹورز یوٹیلٹی اسٹورز خواجہ ا صف نے کہا

پڑھیں:

کیا فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ

یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟
اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ریمارکس

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے ، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے ، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے افسر باقاعدہ حلف لیتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے ۔خواجہ حارث نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے ۔انہوں نے مزید استدلال کیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28تاریخ تک ملتوی کریں گے ، 28تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہونگے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل نیکہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • کیا فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ
  • وزیردفاع خواجہ آصف نے اپنی حکومت کو ہائبرڈ ماڈل قرار دیدیا
  • روٹی کی قیمت میں کمی کا بوجھ کسان برداشت نہیں کر سکتا، شاہد خاقان عباسی
  • 4  ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات پر خواجہ آصف نے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • تحریک انصاف ایک منافقوں کا ٹولہ تھی، جس سے پاکستان کی جان چھوٹ گئی ہے: خواجہ آصف
  • خواجہ آصف کی لندن میں  نواز شریف سے ملاقات
  • ’منی بجٹ‘: حکومت نے عوام پر 34 ارب روپے ماہانہ کا بوجھ ڈال دیا، مفتاح اسماعیل
  • حکومت کی عام آدمی پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری، کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے کا خدشہ
  • اب سندھ میں خواجہ سرا بھی کرکٹ کھیلیں گے
  • سندھ حکومت کا بڑا قدم ، خواجہ سراؤں کے لیے کھیلوں کے انعقاد کا فیصلہ