مشینوں کے غلام لوگ زندگی کا راستہ بھٹکنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2025ء) کبھی وہ بھی دن تھے جب گاڑی کی کھڑکیاں کھول کر تازہ ہوا کو گلے لگاتے، راستوں کے حسین مناظر دیکھتے، اور سفر کو زندگی کا ایک خوبصورت حصہ سمجھتے تھے۔ گاڑی میں گیت گانے اور قہقہے لگانے کا ایک الگ ہی مزا تھا۔ اگر راستہ بھول بھی جاتے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، بس رفتار کم کرتے اور سامنے نظر آنے والے کسی راہگیر سے راستہ پوچھ لیتے۔
یہ سیدھا سادہ عمل صرف منزل تک پہنچانے کا ذریعہ نہ ہوتا بلکہ دلوں کو بھی قریب کر دیتا۔راستہ بھول جانا بھی ایک ایڈونچر ہوتا تھا، جس میں اگلے راہگیر سے بات کرنے کا بہانہ ملتا تھا۔ وہ راہگیر نہ صرف دائیں یا بائیں مڑنے کا مشورہ دیتا بلکہ قریب کے درخت، مسجد یا چائے کے ہوٹل کا حوالہ بھی دے دیتا تاکہ آپ دوبارہ نہ بھٹکیں۔
(جاری ہے)
اگر آپ کسی گاؤں میں کسی کا گھر ڈھونڈ رہے ہوتے، تو نکڑ پر کھڑا کوئی نوجوان لڑکا خوشی خوشی آپ کو وہاں تک چھوڑنے کے لیے آپ کی گاڑی میں سوار ہو جاتا۔
اور اگر خوشی کا کوئی موقع ہوتا، تو وہ چائے اور ناشتے کے بغیر رخصت بھی نہ ہوتا۔ایسے ہی راستے پوچھنے کے واقعات نے کئی بار انوکھے رشتے بھی بنائے۔ کہنے کو تو ایک اجنبی نے راستہ بتایا، لیکن یہ سلسلہ آگے بڑھا اور وہ اجنبی زندگی کا ساتھی بن گیا۔ گاؤں دیہاتوں میں یہ کہانیاں عام تھیں جہاں کسی کی مدد کرنے والا ہی بعد میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتا تھا۔
شاید یہی انسانی رابطے کی خوبصورتی تھی کہ راستہ پوچھنے کی بہانے دل بھی مل جایا کرتے تھے۔مگر اب وہ دن قصۂ پارینہ بن چکے ہیں
آج، ان لمحوں کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں، مفت انٹرنیٹ ڈیٹا، اور گوگل میپ کے ساتھ، اب کسی سے بات کرنا یا اپنی عقل کا استعمال کرنا پرانے زمانے کی بات لگتی ہے۔ ہمیں اب ایک ایسی مشین پر بھروسہ ہے جو ہمیں ایسے راستوں پر بھی لے جا سکتی ہے جہاں سڑک کا وجود ہی نہ ہو۔
انسانوں سے بات کرنا توہین سمجھا جاتا ہے، اور اب ہم ایک ایسی مشینی آواز پر اعتماد کرتے ہیں جو ہمیں ایسے راستوں پر لے جا سکتی ہے جہاں سڑک کا نام و نشان بھی نہ ہو۔
ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں آسام پولیس کے ساتھ پیش آیا۔ وہ ایک مجرم کو پکڑنے کے لیے گوگل میپ کے سہارے روانہ ہوئی۔ لیکن یہ "ذہین" نقشہ انہیں پڑوسی ریاست ناگالینڈ کے چائے کے باغات میں لے گیا۔
وہاں پولیس والوں نے مزدوروں سے تفتیش شروع کی۔ ان 8-9 پولیس اہلکاروں میں صرف دو وردی میں تھے، باقی سب سادہ کپڑوں میں تھے۔ مزدوروں نے انہیں ٹھگ سمجھ کر گھیرا اور یرغمال بنا لیا۔رات بھر ان پولیس اہلکاروں کی "خاطر تواضع" کی گئی، اور انہیں صرف چاول اور دال کھانے کو ملی۔ اگلی صبح ناگالینڈ پولیس نے انہیں بازیاب کیا۔ اگر وہ مقامی لوگوں سے راستہ پوچھ لیتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
یہ واقعہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی ایک مثال ہے۔ ہم انسانوں سے زیادہ مشینوں پر بھروسہ کر بیٹھے ہیں، چاہے اس کا انجام کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو۔
ٹیکنالوجی کی یہ دیوانگی صرف پولیس تک محدود نہیں۔ اتر پردیش کے بدایوں ضلع میں جی پی ایس پر اعتماد کرتے ہوئے ایک کار نامکمل پل پر جا پہنچی۔ پل تو دریا کے رخ بدلنے کی وجہ سے سالوں پہلے بند ہو چکا تھا، مگر گوگل میپ کو یہ خبر نہ تھی۔
نتیجہ؟ گاڑی پل سے 50 فٹ نیچے دریا میں جا گری اور تین قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔یہ ٹیکنالوجی کے غلام بننے کی وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں روز سنائی دیتی ہیں۔ انسان اب اپنی عقل اور جذبات سے زیادہ مشینوں پر بھروسہ کرتا ہے۔ شاید اسی لیے آج کے سماج میں حقیقی دوستوں کی جگہ فیس بک کے ہزاروں "فرینڈز" نے لے لی ہے، لیکن وہ دل سوزی اور ہمدردی کہیں کھو گئی ہے۔
علامہ اقبال نے کئی دہائیاں پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
سوچئے، کیا واقعی یہ ترقی ہے؟ ہم نے ٹیکنالوجی کو اپنی مددگار بنایا تھا، لیکن اب یہ ہماری زندگیوں پر حکومت کر رہی ہے۔ راستے کھونے کے خوف سے ہم نے وہ خوشبو، وہ راستوں کے قصے، اور وہ زندگی کی معصوم خوشیاں کھو دی ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مشینوں پر اندھا بھروسہ کرنا چھوڑ دیں۔ اگلی بار جب آپ سفر پر نکلیں، تو ایک لمحے کے لیے رکیں، کسی راہگیر سے راستہ پوچھیں۔ شاید وہ نہ صرف آپ کو منزل تک پہنچائے بلکہ ایک نیا دوست بھی بن جائے۔ یا شاید، آپ کی زندگی کا ساتھی۔
یاد رکھیں، گوگل میپ آپ کو منزل کا راستہ دکھا سکتا ہے، لیکن زندگی کا اصل راستہ صرف انسانوں سے رابطے اور شعور کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زندگی کا گوگل میپ کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آ ئی کو عدالتی طوفان کا سامنا، ڈائیلاگ یا نااہلی کا راستہ رہ گیا،انصار عباسی نے اپنے کالم میں بتادیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )معروف تجزیہ کار انصار عباسی نے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ
سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی سے جڑے مقدمات کو 4 ماہ میں نمٹانے کے تازہ ترین حکم نامے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ میں ممکنہ طور پر اپنی نا اہلی کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔
اس معاملے پر پارٹی ارکان کے درمیان متواتر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور وہ عدلیہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس ڈر میں مبتلا ہیں کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کورٹس انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکیں گی۔
انہیں ڈر ہے کہ سزاو¿ں کی وجہ سے تحریک انصاف کے کئی ارکان پارلیمنٹ نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں کیونکہ کسی بھی سزا کی صورت میں رکن پارلیمنٹ از خود سینیٹ، قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر پارٹی قائدین ایسے حالات پیش آنے سے پہلے ہی اسے روکنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں چونکہ دوسری ہر طرح کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے لہٰذا مذاکرات کے آپشن کو بحال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پو±ر کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کریں۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے اس نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کو اس وقت معمول پر لائے جانے کی اشد ضرورت ہے، اگرچہ یہ مرحلہ وار عمل ہے لیکن ہمیں پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے اس طریقہ کار پر عمل کرنا پڑے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما اس بات سے بڑے مایوس ہیں کہ ترسیلاتِ زر کا بائیکاٹ اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے جیسی سابقہ سیاسی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی۔ اپوزیشن کے بڑے اتحاد کی تشکیل کا
امکان بھی معدوم ہو چکا ہے جبکہ عدلیہ اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بیرونی عوامل سے وابستہ امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔
ایسے حالات میں پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نا اہل ہوئے تو ان کی پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔ ایک ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب بات چیت ہی واحد قابل عمل آپشن رہ گیا ہے۔
حال ہی میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹس کو ہدایت کی ہے کہ وہ 9 مئی سے جڑے کیسز چار ماہ میں نمٹائیں، جس کا مقصد سیاسی طور پر حساس مقدمات کی سماعت میں تاخیر کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے بیچ سماعت کا عمل تیز کرنا ہے۔
مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی سمیت تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ کئی رہنماﺅں پر متعدد پرچے بھی کٹے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ماہرین قانون کی ٹیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملزمان کیخلاف سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ صرف پنجاب میں 9 مئی سے جڑے کیسز کے حوالے سے کل 319 پرچے کاٹے گئے تھے۔
ان ایف آئی آرز میں 35 ہزار 962 ملزمان کو نامزد کیا گیا جن میں سے 11 ہزار 367 کو گرفتار کیا گیا جبکہ 24 ہزار 595 تاحال مفرور ہیں۔ 307 کیسز میں حتمی چالان جمع کرائے گئے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ اگرچہ 9 مئی کے مقدمات کے گواہ سامنے آچکے ہیں وہ اور پارٹی کے دیگر رہنما اب بھی متعدد ایف آئی آرز کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی قتل کے 10 مقدمات میں نامزد ہیں۔
حکومت کی توجہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب بھارت پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، ہماری حکومت اپوزیشن کو کچلنے میں مصروف ہے۔ عمر ایوب نے مزید کہا کہ سزا اور نااہلی کی صورت میں پی ٹی آئی رہنما صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
نارووال ، موٹر سائیکل کی لائٹ ٹوٹنے پر بھتیجے نے چچا کو قتل کر ڈالا
مزید :