واشنگٹن :  امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ،جس میں امریکہ نے ملک میں تمام اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر 25فیصد  ٹیرف کا اعلان کیا۔ امریکی محکمہ تجارت کے مطابق کینیڈا، برازیل اور میکسیکو  2024 میں امریکہ کو اسٹیل کی درآمد کے تین سرفہرست ممالک ہیں. یورپی اسٹیل کی برآمدات کا تقریباً 25فیصد  امریکہ جاتا ہے.

دسمبر 2022 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے ایک پینل رپورٹ جاری کی جس میں فیصلہ دیا گیا تھا کہ 2018 میں درآمد شدہ اسٹیل اور ایلومینیم مصنوعات پر امریکی محصولات ڈبلیو ٹی او کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی  ہیں۔ اس بار امریکہ نے ڈبلیو ٹی او کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹیل اور ایلومینیم پر “عالمی تجارتی جنگ”دوبارہ  شروع کر دی ہے۔ ٹرمپ کے  وژن میں محصولات مینوفیکچرنگ کی بحالی، ملازمتوں کے تحفظ اور آمدنی میں اضافے کےلئے مرکزی طریقہ کار  ہیں۔ تاہم امریکہ کی اس خواہش کا پورا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے. ایک بہت اہم وجہ یہ ہے کہ امریکی معیشت کا ڈھانچہ “حقیقی سے ورچول کی جانب منتقل ہو گیا ہے” اور اس کا وزن بتدریج  سروس انڈسٹری اور ہائی ٹیک  انڈسٹری کی طرف شفٹ ہو گیا ہے۔ امریکہ میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ محصولات امریکی اسٹیل انڈسٹری میں کچھ ملازمتوں کو شائد تحفظ تو  فراہم کر سکتے ہیں ، لیکن امریکی اسٹیل استعمال کرنے والی کمپنیوں کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑےگی ، جس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو بھرتی  نہیں کر سکیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار امریکہ میں ڈاؤن اسٹریم اسٹیل کمپنیوں اور صارفین کو  دوبارہ بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا۔ عالمی شہرت یافتہ انویسٹمنٹ بینک گولڈ مین ساکس نے 11  فروری  کو کہا کہ امریکہ میں اسٹیل کی قیمتوں میں اضافے کی توقع ہے جو درآمدی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف کے مکمل اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ ماہرین نے نشاندہی کی ہے  کہ امریکی حکومت درآمد کنندگان پرجو  ٹیکس عائد کرتی ہے ،اسے بالآخر امریکی صارفین ہی  برداشت  کرتے ہیں۔حقائق نے بار بار ثابت کردیا ہے کہ تجارتی جنگ اور ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہےاور  تجارتی تحفظ پسندی صرف “نقصان” لاتی ہے، نہ کہ “تحفظ”

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

تجارتی لبرلائزیشن پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے. ویلتھ پاک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 فروری ۔2025 )پاکستان کو تحفظ پسند تجارتی طریقوں پر ملک کے دیرینہ انحصار کو ختم کرنے اور برآمدات پر مبنی نمو کو فروغ دینے کی طرف اپنی اقتصادی رفتار کو تبدیل کرنے کے لیے فوری پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین کوآرڈینیشن ملک سہیل حسین نے تجارتی لبرلائزیشن اور معاشی انضمام کے حوالے سے پاکستان اور عالمی سطح پر مسابقتی معیشتوں کے درمیان اہم فرق کو اجاگر کیا.

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب کہ دیگر ممالک نے تجارتی رکاوٹوں کو فعال طور پر کم کیا ہے اور خود کو عالمی ویلیو چینز میں جگہ دی ہے پاکستان نے اعلی ٹیرف اور محدود کھلے پن کے راستے کا انتخاب کیا ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان کے محصولات عالمی اوسط سے کم از کم دوگنا اور کامیاب مشرقی ایشیائی معیشتوں کی جانب سے لاگو کیے جانے والے محصولات سے تین گنا زیادہ ہیں جنہوں نے برآمدات کی قیادت میں ترقی میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ ان تحفظ پسند اقدامات نے نہ صرف مسابقت کی حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ ملک کی اپنی صنعتی بنیاد کو بڑھانے اور برآمدات کو متنوع بنانے کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیا ہے.

انہوں نے کہا کہ موجودہ نقطہ نظر پاکستان کو تیزی سے جڑی ہوئی عالمی معیشت میں الگ تھلگ کر رہا ہے جہاں انضمام اور تجارتی لبرلائزیشن زیادہ تر ممالک کی ترقی کا باعث بن رہے ہیں . ملک سہیلحسین نے متنبہ کیا کہ معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ملک کا غیر ملکی امداد پر انحصار غیر پائیدار ہے انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک نے گھریلو پالیسی کی رکاوٹوں کو پہلے حل کیے بغیر طویل مدتی اقتصادی استحکام یا برآمدات کی قیادت میں ترقی حاصل نہیں کی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ساختی اصلاحات کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے جو تمام شعبوں میں پیداواری صلاحیت، اختراعات اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں.

ایف پی سی سی آئی کے عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی آبادی کو درپیش مشکلات، خاص طور پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور رکی ہوئی آمدنی، فوری پالیسی ردعمل کا تقاضا کرتی ہے یہ محض معاشی اعداد و شمار کے ساتھ جگ ہنسائی کے بارے میں نہیں ہے یہ لاکھوں لوگوں کی روزانہ کی جدوجہد کو حل کرنے کے بارے میں ہے پائیدار ترقی کا راستہ سرمایہ کاری اور عوام دوست پالیسیاں بنانے میں مضمر ہے جو کاروبار اور شہریوں دونوں کے لیے مواقع پیدا کرتی ہیں.

انہوںنے حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کے حصے کے طور پر ریگولیٹری ڈیجیٹلائزیشن اور آپریشنل لاگت میں کمی کو ترجیح دے ان مسائل کو حل کرکے ملک اپنی اقتصادی صلاحیت کو کھول سکتا ہے مزید سرمایہ کاری کو راغب کرسکتا ہے اور عالمی سطح پر اپنی مسابقت کو مضبوط بنا سکتا ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ عملی حل تیار کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، کاروباری راہنماﺅں، چیمبرز آف کامرس اور صنعت کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت ضروری ہے انہوں نے پالیسی سازی کے لیے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر کی بھی وکالت کی جہاں کاروباری برادری کی ضروریات قومی ترقی کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مکالمے سے قابل عمل پالیسیاں جنم لے سکتی ہیں جو گھریلو صنعتوں کی حمایت کے ساتھ تجارتی لبرلائزیشن کو متوازن کرتی ہیں.


متعلقہ مضامین

  • انقلاب اسلامی ایک عالمی اسلامی انقلابی تحریک میں تبدیل ہو چکا، علامہ مقصود ڈومکی
  • اپنی کنڈیشن میں پاکستان ایک مشکل ٹیم ہے: ہینرک کلاسین
  • منشا پاشا نے اپنی پہلی شادی کو زندگی کا سب سے مشکل وقت قرار دے دیا
  • منشا پاشا نے اپنی پہلی شادی کو زندگی کا مشکل ترین وقت قرار دے دیا
  • ٹرمپ نے اسٹیل، ایلومینیم پر 25 فیصد محصولات عائد کر دیں
  • تجارتی لبرلائزیشن پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے. ویلتھ پاک
  • چین کی سرمایہ کار کمپنی خیبر پختونخوا میں اسٹیل مل لگانے کی خواہش مند، صوبائی حکومت سے رابطہ کرلیا
  • ماورا حسین کی بھارتی فلم”صنم تیری قسم” کا دوبارہ ریلیز پر شاندار کم بیک
  • چین کی سرمایہ کار کمپنی خیبرپختونخوا میں اسٹیل مل لگانے کی خواہش مند، صوبائی حکومت سے رابطہ کرلیا