وی اے سی کے تحت رجسٹرڈ 50,000 سے زیادہ کسانوں کے ساتھ، یہ اسکیم اہل کسانوں کو ان کی زرعی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرے گی اور خطے میں غربت میں کمی ، زرعی پیداوار میں اضافہ اور مالی بااختیار بنانے میں کردار ادا کرے گی۔ اسلام ٹائمز۔ اکنامک ٹرانسفارمیشن انیشی ایٹو گلگت بلتستان، (ایفاد) ایچ بی ایل مائیکرو فنانس بینک اور گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام نے جی بی میں دیہی کاشتکاروں کو آسان شرائط پر قرضہ جات کی فراہمی اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے شراکت داری معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈیولپمنٹ (ایفاد)، حکومت گلگت بلتستان اور اطالوی ایجنسی برائے ترقیاتی تعاون (اے آئی سی ایس) کے مشترکہ مالی اعانت سے چلنے والے پروگرام اکنامک ٹرانسفارمیشن انیشی ایٹو گلگت بلتستان (ای ٹی آئی جی بی) نے ایچ بی ایل مائیکرو فنانس بینک کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ خطے میں دیہی کاشتکاروں کے لیے فنانس تک رسائی کو بڑھایا جا سکے۔    اس ضمن میں گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام (جی بی آر ایس پی) کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جو عملدرآمد پارٹنر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ گلگت بلتستان میں مالی شمولیت اور معاشی ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس اقدام کے تحت ایچ بی ایل مائیکرو فنانس بینک ویلج ایگریکلچر کوآپریٹو سوسائٹیز (وی اے سیز) کے اہل قرض دہندگان کو مناسب مالی خدمات فراہم کرے گا، جو ای ٹی آئی جی بی کے تحت قائم کی گئی تھی۔ جی بی آر ایس پی اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو متحرک کرنے اور آگاہی سیشن منعقد کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہ سکیم ای ٹی آئی جی بی ویلیو چین فنڈ کے تحت پائلٹ کے طور پر متعارف کرائی گئی سکیم دسمبر 2031ء تک جاری رہے گی۔   اس اقدام کا مقصد دیہی کسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زرعی قرضوں اور آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ فنانسنگ مصنوعات کے ذریعے باضابطہ مالیاتی نظام میں ضم کرنا ہے، جس سے آسان قرض پروسیسنگ اور کاشتکاروں کو ان کی گھر کی دہلیز پر مالی خدمات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ وی اے سی کے تحت رجسٹرڈ 50,000 سے زیادہ کسانوں کے ساتھ، یہ اسکیم اہل کسانوں کو ان کی زرعی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرے گی اور خطے میں غربت میں کمی ، زرعی پیداوار میں اضافہ اور مالی بااختیار بنانے میں کردار ادا کرے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کسانوں کو کے ساتھ کے تحت کرے گی

پڑھیں:

ڈی پورٹیشن کے بعد قرضوں، افلاس، ذلت اور تحقیقات کا سامنا

دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ اِن کے بہت سے نوجوان ملک میں کچھ کرنے کے بجائے باہر جاکر بہت کچھ کرنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور جب تک یہ کہیں جاکر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے تب تک ملک میں ڈھنگ سے کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک کے بہت سے نوجوان اپنے ملک میں کچھ کرنے کے بجائے مغربی دنیا میں قدم رکھ کر وہاں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اِن خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے بہت سے نوجوان بیرونِ ملک قیام اور کام کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہر طرح کے طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انسانی اسمگلرز اِس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور لاکھوں روپے بٹور کر لوگوں کو کہیں جنگل میں چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد نے امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے مشکلات بڑھادی ہیں۔ ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو چُن چُن کر تحویل میں لینے کے بعد ملک بدر کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں کے مطابق ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ہر جلسے میں کھل کر کہا کہ وہ ملک میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے اور اگر انہیں نکال باہر کرنے کے لیے فوج سے بھی مدد لینا پڑی تو لیں گے۔ اور وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔

گزشتہ بدھ کو امریکی ایئر فورس کا ایک طیارہ 104 غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کو لے کر امرتسر پہنچا۔ اس طیارے میں پنجاب، ہریانہ اور گجرات سے تعلق رکھنے والے باشندے سوار تھے۔ انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکا میں آباد ہونے کا خواب چکناچور ہوگیا اور یہ لوگ اب اپنے اپنے علاقوں میں ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے جس میں اُن کے لیے کچھ نہ ہوگا نہ اُن کے متعلقین کے لیے۔ اںہیں ذلت، تحقیر، قرضوں اور بے روزگاری کا سامنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ غیر قانونی طور پر امریکا جانے کی پاداش میں اِنہیں تحقیقات کا بھی سامنا رہے گا۔

جو لوگ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں اُنہیں جب وہاں سے ڈٰ پورٹ کیا جاتا ہے تو اُن پر ترس آتا ہے کہ انہوں نے اچھی خاصی رقم بھی گنوائی، مشکلات بھی برداشت کیں اور ملک بدری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ کچھ اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ وہ لوگ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے تھے۔ ملک کو قانونی دستاویزات کے بغیر چھوڑنے کی پاداش میں اُنہیں تحقیقات کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔

غیر قانونی طور پر مغربی دنیا کا رخ کرنے والے اِدھر اُدھر سے قرضے لے کر جاتے ہیں۔ اگر واپسی آنا پڑے تو یہ قرضے اُن کے حلق کی ہڈی بن جاتے ہیں۔ امریکا سے جن 104 بھارتی باشندوں کو واپس آنا پڑا ہے انہیں اب قرضوں کے ساتھ ساتھ ذلت اور تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اِن کی زندگی مزید اذیت میں گزرے گی۔ لوگ طنز کے تیر برساکر جینا حرام کردیں گے۔ اور پھر ایک اضافی مصیبت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میں رہنے سے اُن کی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ وہ اب اپنے ماحول میں مشکل ہی سے ایڈجسٹ کر پائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کی کوششوں سے زرعی منظر نامے میں نمایاں تبدیلی
  • آج بروز بدھ12فروری2025مختلف شہروں میں موسم کی صورتحال جانیں
  • گورنر گلگت بلتستان کی جانب سے رحیم آغا خان کی تخت نشینی پر اسماعیلی برادری کو مبارکباد
  • جی بی بورڈ آف انویسٹمنٹ کے وفد کا خیبر پختونخوا بورڈ کا دورہ
  • لزبن، اسماعیلی برادری کے 50ویں امام پرنس رحیم آغا خان پنجم تخت نشین ہوگئے
  • ایس آئی ایف سی کے گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کے ذریعے ملکی زراعت ترقی کی جانب گامزن
  • "گلگت بلتستان ترقی یافتہ استعمار کی زد میں" کالم پر ایک مختصر تبصرہ
  • حکومت کا گلگت بلتستان جانے والے سیاحوں پر ٹیکس لگانے کا منصوبہ
  • ڈی پورٹیشن کے بعد قرضوں، افلاس، ذلت اور تحقیقات کا سامنا