Daily Ausaf:
2025-02-12@12:57:36 GMT

توہینِ مذہب کے مقدمات کا ایک حساس پہلو

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ان دنوں توہینِ مذہب میں درج مقدمات کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ توہینِ قرآن کریم اور توہینِ رسالت کے بعض مقدمات پر اس پہلو سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ جس طرح کسی بھی گستاخ کو بہرحال اس کے کیفر کردار تک پہنچانا ہماری دینی و قانونی ذمہ داری ہے، اسی طرح کسی بے گناہ کو سزا سے بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے ان مقدمات کا دونوں حوالوں سے قومی سطح پر جائزہ لینے اور ممتاز دینی و قانونی ماہرین کا اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تاکہ گستاخوں کو ان کے سنگین و قبیح جرم کی جلد از جلد سزا دینے کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کی گلوخلاصی کا بھی اہتمام ہو سکے۔ اس سلسلہ میں ربع صدی قبل کے دو مقدمات کے بارے اپنا ایک کالم دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس سے مسئلہ کے اس پہلو کی حساسیت کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے-
یورپ کے بعض اخبارات کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر عالم اسلام میں اضطراب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی کم و بیش تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے ۳ مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے جس کی تیاریاں ملک بھر میں ہر سطح پر جاری ہیں۔ قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے اخبار کے ملک ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور مغربی میڈیا کی اسلام دشمن مہم اور سرگرمیوں کا اسلامی سربراہ کانفرنس کی سطح پر نوٹس لیا جائے۔ وزیراعظم جناب شوکت عزیز نے گزشتہ روز ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مسئلے کا او آئی سی کے فورم پر جائزہ لیا جائے گا۔
لاہور میں گزشتہ دنوں ہڑتال کے موقع پر جو افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی وہ بھی زیر بحث ہے اور اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ہمارے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور ہماری دینی و سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں عوامی جذبات کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے اس لیے احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے والے لوگ قیادت کے بغیر ہی اپنے اپنے انداز میں جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس میں یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورتحال سے کچھ تشدد پسند عناصر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہوں لیکن اگر سیاسی و دینی قیادت بیدار ہو اور عوامی جذبات کے اظہار کی تحریک کی عملاً‌ قیادت کر رہی ہو تو ایسی صورتحال پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ عوام اس بات پر غصہ میں ہیں کہ بعض یورپی اخبارات نے توہین رسالتؐ کے جس نئے مذموم سلسلہ کا آغاز کیا ہے اس پر مسلم حکومتوں کا (ایک دو کے سوا) رد عمل روایتی اور رسمی سا ہے اور اس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ اور اس کے ساتھ اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف مسلم ممالک کے عوام کا وہ غصہ بھی شامل ہوگیا ہے جو ان حکومتوں کی مغرب نواز پالیسیوں کے باعث ایک عرصہ سے مسلم عوام کے دلوں میں پرورش پا رہا ہے۔ اور اس حوالہ سے بی بی سی کا یہ تبصرہ بالکل درست اور حقیقت پسندانہ ہے کہ مظاہروں کی شدت میں مسلمان عوام کا اپنی حکومتوں کے خلاف غصہ بھی پوری طرح کارفرما ہے۔
ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ مغرب اس معاملے میں مسلمانوں کے جذبات کی شدت اور حساسیت کا پوری طرح اندازہ نہیں کر رہا اور وہ اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہا کہ مسلمان قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور تقدس کے مسئلے پر اس قدر جذباتی اور حساس ہیں کہ وہ اس کے تحفظ کے جذبے کے تحت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جناب رسول اکرمؐ کے ناموس اور حرمت کے سوال پر دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا جس انداز سے اظہار کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے جبکہ قرآن کریم کے حوالے سے مسلمانوں کی حساسیت کا اندازہ ایک حالیہ واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔
قدرت اللہ اینڈ کمپنی لاہور میں قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا ایک بڑا ادارہ ہے جس نے گزشتہ دنوں قرآن کریم کا ایک نسخہ سعودی عرب کی طرز پر شائع کیا ہے جو مسئلہ بن گیا ہے۔ سعودی عرب کا رسم الخط اور انداز تحریر جنوبی ایشیا سے مختلف ہے۔ قرآن کریم کے متن میں تو کسی جگہ کوئی فرق نہیں اور نہ ہو سکتا ہے، لیکن بعض سورتوں کے ناموں اور بعض الفاظ کے طرز تحریر میں فرق ہے جس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو سعودی عرب کی طرز پر طبع شدہ قرآن کریم کی تلاوت میں دقت پیش آتی ہے۔ چنانچہ حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبویؐ میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے عام لوگوں کو تلاوت کے لیے دونوں طرز کے نسخے الگ الگ فراہم کیے جاتے ہیں۔
مثلاً قرآن کریم کی بعض سورتوں کے ناموں میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں جس سورۃ کو بنی اسرائیل کے نام سے پڑھا جاتا ہے، سعودی نسخوں میں اس سورۃ کو ’’الاسراء‘‘ کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ المؤمن کا نام سورۃ الغافر، سورۃ حم السجدہ کا نام سورۃ فصلت، سورۃ الدھر کا نام سورۃ الانسان، اور سورۃ اللہب کا نام سورۃ المسد لکھا گیا ہے۔ ان سورتوں کے یہ سب نام درست ہیں اور احادیث و آثار میں ان کا تذکرہ موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں جو رسم الخط اور مصحف صدیوں سے رائج چلا آرہا ہے اس کے مطابق یہ نام معروف نہیں ہیں۔
اس لیے قدرت اللہ اینڈ کمپنی کی طرف سے اس نسخے کی اشاعت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اس پر معروف قانون دان جناب ایم ڈی طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی اور پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے محترمہ فرزانہ پراچہ نے تحریک التواء کا نوٹس دے دیا۔ محکمہ اوقاف اور وزارت مذہبی امور نے بھی اس کا نوٹس لیا اور قدرت اللہ اینڈ کمپنی نے صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے قائم کردہ قرآن بورڈ سے رجوع کر لیا اور ذمہ دار مفتیان کرام سے بھی رابطہ قائم کیا۔ اس پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا مفتی حمید اللہ خان نے لکھا:
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی کیا جا سکتا کا نام سورۃ سورتوں کے سکتا ہے کے ساتھ کے نام بات کا اور اس

پڑھیں:

گستاخوں کے سہولت کاروں کی سازشیں

سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے اسلام اور پاکستان دشمن عناصر پوری طرح متحرک ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے انہوں نے بعض اداروں میں موجود اپنے سہولت کاروں کو استعمال کیا۔ اس حوالے سے اسپیشل برانچ لاہور پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹس کی مثالیں موجود ہیں۔اس کے بعد انہوں نے میڈیا میں موجود اپنے بعض ایجنٹوں کو استعمال کرکے اسپیشل برانچ لاہور پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی بے بنیاد،من گھڑت اور غیر قانونی رپورٹس کی بنیاد پر جھوٹا بیانیہ بنا کر اصل صورتحال سے لاعلم عوامی طبقے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اس کے بعد اب عدالتی کاندھے کو استعمال کرتے ہوئے مقدس ہستیوں کے بدترین گستاخوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو بھی متنازع بناکر انہیں غیر موثر کرنے کے لئے گھنائونے عمل کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی جارہی ہے۔
اس کی تفصیلات کچھ یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر جون 2021 ء سے لے کر اب تک گرفتار کئے جانے والے تقریباً پانچ سو گستاخوں میں سے 101 زیر حراست گستاخوں کے رشتہ داروں نے اسلام و پاکستان دشمن بیرونی عناصر کے ایما پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک مشترکہ رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔جس میں اسپیشل برانچ لاہور اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی مذکورہ بے بنیاد رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کررہے ہیں۔قانون کے مطابق پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کسی بھی عوامی اہمیت سے تعلق رکھنے والے معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا صوابدیدی اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔مذکورہ معاملے میں بھی ابتدائی طور پر وفاقی حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو اس بنیاد پر انکوائری کمیشن کے قیام سے انکار کرتی رہی کہ جن رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن قائم کرنے کا تقاضہ کیا جارہا ہے،ان رپورٹس کی بنیاد پر کمیشن قائم کرنے کا کوئی جواز اس لئے نہیں ہے کہ مذکورہ رپورٹس کی تائید میں کوئی ایک ثبوت بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔تاہم وفاقی حکومت کے اس موقف میں اچانک تبدیلی اس وقت آگئی کہ جب مورخہ 15 جنوری کو مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن،وفاقی سیکریٹری داخلہ،وفاقی سیکریٹری انسانی حقوق ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکام کو حکم دیا کہ وہ 17 جنوری کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔اس حکم نامہ کے جاری ہونے کے بعد نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ 16 جنوری کو عدالت عالیہ کی جانب سے مذکورہ وفاقی سیکریٹریز اور دیگر اعلیٰ حکام کو پیغام بھیج دیا گیا کہ انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔مورخہ 17 جنوری کو سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ فاضل جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اس بات پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے قیام پر قائل کریں۔اس موقع پر ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ مذکورہ تاریخ سماعت پر اسپیشل برانچ کی جانب سے پیش ہونے والے نمائندے سے فاضل جج نے استفسار کیا کہ جو رپورٹ اسپیشل برانچ نے مرتب کی ہے،اس رپورٹ کے حوالے سے کیا کوئی ثبوت بھی موجود ہے؟جس کے جواب میں اسپیشل برانچ کے نمائندے نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہماری رپورٹ سورس انفارمیشن کی بنیاد پر ہے۔رپورٹ میں جو الزامات عائد کئے گئے،اس سے متعلق کوئی دستاویزی شواہد موجود نہیں ہیں۔سورس انفارمیشن پر چھ ہزار ایسی رپورٹس مختلف اداروں کے حوالے سے صرف ڈسٹرکٹ راولپنڈی کی حدتک مرتب ہوتی ہیں‘‘۔کیا اسپیشل برانچ کے نمائندے کی جانب سے اس جواب کے بعد بھی ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر انکوائری کمیشن کے قیام کا کوئی جواز باقی رہتا ہے؟چاہئیے تو یہ تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اس کے بعد انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے دائر مذکورہ پٹیشن خارج کر دیتی۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔بلکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کر دی گئی کہ وہ 31 جنوری کو انکوائری کمیشن کے قیام کے حوالے سے وفاقی حکومت کے حتمی موقف سے عدالت کو آگاہ کرے۔چنانچہ 31 جنوری کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت انکوائری کمیشن بنانے کے لئے تیار ہے۔عدالت رہنمائی کرے کہ کمیشن کن افراد پر مشتمل ہو اور کمیشن کے ٹی او آرز کیا ہوں۔اس پر عدالت عالیہ نے تجویذ پیش کی کہ کمیشن چار رکنی ہو۔سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج،ایف آئی اے کا ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر،ایک روشن خیال عالم دین اور ایک آئی ٹی کا ماہر۔کمیشن کے ٹی او آرز کے حوالے سے عدالت نے یہ تجویز پیش کی کہ کمیشن اس بات کی تحقیقات کرے کہ جھوٹے مقدمات کے ذریعے توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کا کیا غلط استعمال ہو رہا ہے؟اگر ایسا ہو رہا ہے تو کون لوگ کس انداز میں ان قوانین کا غلط استعمال کر رہے ہیں؟اس کے علاوہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف مقدمات کے بعض مدعیان کی جانب سے عدالت میں موجود وکلا کی استدعا پر عدالت نے کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے پیچھے بیرونی عناصر کی کوئی منظم منصوبہ بندی اور مالی معاونت کا عنصر بھی ہے یا نہیں۔
عدالت عالیہ کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے سمری فوری طور پر تیار کرکے وفاقی کابینہ کو بھیجے۔سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو فوری طور پر وفاقی کابینہ کے ایجنڈے پر لائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلے سے آئندہ تاریخ سماعت سے قبل عدالت عالیہ کو آگاہ کریں۔مزید سماعت 28 فوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔۔اس تمام صورتحال سے واضح ہے کہ بغیر کسی آئینی و قانونی جواز کے اگر انکوائری کمیشن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے تو اس کے پیچھے بلاشبہ گھنائونے مقاصد ہیں۔خدشہ ہے کہ ایسے کمیشن کے ذریعے نہ صرف یہ کہ مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے رپورٹ مرتب کروائی جائے گی بلکہ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو غیر مثر کرنے کی جو سازشیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں،ان سازشوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔لہٰذا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں/تنظیموں کو چاہئیے کہ وہ بیدار رہیں اور ماضی کی طرح اب بھی ایسی ہر سازش کو ناکام بنا دیں،جو مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے اور توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو غیر موثر کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مودی ٹرمپ ملاقات میں تجارت کا پہلو نمایاں ہو گا‘امریکی صدر مزیدتیل خریدنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں.تجزیہ نگار
  • خیبر پختون خوا میں آج تعلیمی نظام انتہائی کمزور ہے: فیصل کریم کنڈی
  • خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کیخلاف جنگ کے پیسے کھاچکی ہے، فیصل کریم کنڈی
  • ڈیڑھ سال سے عدالتوں کا چکر کاٹ رہا ہوں، پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات نہیں: شیر افضل مروت
  • قوم 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کو بددعائیں دے گی، شیر افضل مروت
  • پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات نہیں: شیر افضل مروت
  • شبلی فراز و فیصل جاوید کی حفاظتی ضمانت میں توسیع، مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • خیبر پختونخوا میں بدھ مذہب کےمقدس آثار والی پہاڑی پر آگ لگ گئی
  • گستاخوں کے سہولت کاروں کی سازشیں