Daily Ausaf:
2025-02-12@13:16:25 GMT

مہذب قومیں تاریخ سے سیکھتی ہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ماضی آئینہ کی طرح ہوتا ہے ۔ جس میں جھانک کر قومی حلیہ سلجھایا جاتا ہے ۔ تاریخی نشانات ، حیرت انگیز فن تعمیر ، تہذیبوں کے آثار اچھے یا برے ماضی کے عکاس ہوتے ہیں ۔ مہذب قومیں اپنی تاریخ اور ورثہ محفوظ اور زندہ رکھتی ہیں ۔ اپنے ماضی کے عروج و زوال کی علامات اور معلومات کو مٹنے نہیں دیتیں ۔ ارتقائی سفر ، کاوشوں ، قربانیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کی اپنی روداد اگلی نسلوں تک پہنچاتی ہیں ۔ اس طرح اپنے ماضی سے نہ صرف جڑت رکھتے ہیں بلکہ بہتر مستقبل کے لئے مشعل راہ بھی بناتے ہیں ۔ اچھی روایات اور حکمت عملی کو اپناتے ہیں ۔ ناکامی اور رسوائی کا سبب بننے والی حماقتوں سے گریز کرتے ہیں۔ تب ہی تو تاریخ کو سب سے بڑا استاد مانا جاتا ہے ۔ اس سے سبق سیکھا جاتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کے دامن میں چھپے حقائق و واقعات کو سنجیدگی سے سمجھا جائے ۔ اس کی روشنی میں اپنی منزل کی راہیں متعین کی جائیں ۔ ہر گام پہ راہنمائی لے کر درست رخ منزل برقرار رکھی جائے ۔ اس لئے ماضی کی تاریخ اور اس کے نشانات کو محفوظ اور پبلک کے لئے قابل رسائی رکھنا بڑا اہم ہے ۔
یوں تاریخی تفصیلات اپنے قومی درسی نصاب میں زندہ رکھ سکتے ہیں۔ نسل در نسل ، سینہ بہ سینہ اپنے ماضی کی عظمتوں اور ہزیمتوں سے قوم کو آگاہ رکھ سکتے ہیں ۔ جس سے ان کے علمی خزانے اور حد نظر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ان کی بصیرت میں پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ انسان کی علم و آگاہی اور سکھلائی میں حواس خمسہ کا کلیدی رول ہے ۔ ہر ایک کی اپنی مخصوص و محدود افادیت اور فعالیت ہے ۔ تاہم حس مشاہدہ سب سے اہم ہے جس کے ذریعے انسان سب سے زیادہ سیکھتا ہے ۔ ایک چیز جس کو کتابی لیکچر کے ذریعے طلبا یا قاری کو سمجھانے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں اگرعملی طور پر اس کو دیکھا جائے تو شائد چند منٹوں میں سمجھ آ جائے ۔ مثال کے طور قلعہ روہتاس کے مقام ، محل وقوع، طرز تعمیر اور تاریخ کو کتابوں کے ذریعے سمجھنے اور ازبر کرنے میں کافی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے ۔ پڑھتے ہوئے قاری اس کے خدو خال کوصرف چشم تصور سے دیکھ کر فرض کر رہا ہوتا ہے ۔ استاد بے شک اس کے ایک ایک حصے کو باریک بینی سے بیان کرے ، اس کا نقشہ کھینچے ، لیکن کچھ روز ذہن کے پردے پہ محفوظ رہنے کے بعد وہ خود بخود محو ہو جاتا ہے ۔ اس کو یاد کر نے کے لئے ذہن پہ زور دینا پڑتا ہے یا پھر واپس کتاب کے دریچوں میں جھانکنا پڑتا ہے ۔ دوسری طرف اگر عملی طور پر قلعہ روہتاس کا دورہ کیا جائے ، جائزہ لیا جائے اور نظارہ کیا جائے تو اسکا ذرہ ذرہ برسوں یاد رہتا ہے ۔اسی لئے تو کہتے ہیں مشاہدے سے سیکھنا سب سے آسان اور موثر ہوتا ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر سمجھدار قومیں اپنے قومی ورثے ، پرانی تاریخی عمارتوں اور آثار کو محفوظ رکھتی ہیں ۔ عجائب گھر اور لائبریریوں کو قائم کرتی ہیں ۔ جن سے نئی نسلیں مستفید ہو کر اپنی علمی استعداد اور صلاحیتیں بڑھاتی ہیں ۔ باقی ملکوں کی مانند ہمارے ملک میں بھی محکمہ آثار قدیمہ موجود ہے ۔ جس کی بدولت بہت ساری بڑی بڑی تاریخی عمارات ، باغات، کھنڈرات اور قلعے اصلی حالت میں محفوظ ہیں۔ لیکن یہ بڑے گنے چنے سے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مذہب ، مسلک اور تعصب سے بالا تر ہو کر تاریخی ورثے یا آثار قدیمہ کے زمرے میں آنے والے تمام آبجیکٹس کو محفوظ کیا جاتا ۔ مگر ایسے نہیں ہوا ۔ میرا آبائی قصبہ بڑا تاریخی ہے ۔ تقسیم سے پہلے ہندوں کی کثیر تعداد یہاں آباد تھی ۔ مالی طور پر وہ مسلمانوں سے زیادہ آسودہ اور خوشحال تھے ۔ ان کے بڑے چوبارے تھے۔جن کا بڑا دلکش فن تعمیر تھا ۔جس کی مغلیہ طرز تعمیر سے کافی مماثلت تھی ۔ چند بڑے بڑے مندر اور گردوارے بھی تھے ۔ ایک بازار تھا جس کے دونوں اطراف سرخ اینٹوں سے بنی بلند عمارتیں تھیں ، جن کے نیچے دکانیں تھیں ۔ میرا گھر گائوں ایک کنارے جبکہ پرائمری سکول دوسرے کنارے واقع تھا ۔ سکول آتے جاتے ہمیں اس بازار سے گزرتے ، پرانی رہائشی ، تجارتی ، مذہبی اور درسی عمارت کو دیکھتے جاتے ۔ اپنے بڑوں سے ان بارے پوچھتے تو وہ اس کی تفصیلات بتاتے تو بہت اچھا لگتا ۔ وقت گزرنے اور نئی نسل کی آمد کے بعد حالات اور مزاج بدل گئے ۔
جدت پسندی اور مادہ پرستی کی خو نے قومی ورثے کی حامل ان عمارات اور آثار کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ماضی کی ہماری شاندار تاریخی کی علامتیں گمنامی کی قبر میں چلی گئیں ۔ اب ہمیں اپنے بچوں کو بتانا پڑتا ہے کہ یہاں ایک چار منزلہ مغلیہ انداز کا چوبارہ ہوتا تھا ۔ جس کا فن تعمیر انسان کو حیرت زدہ کر دیتا تھا ۔ کیونکہ تب انسان نے اتنی سائنسی اور تکنیکی ترقی نہیں کی ہوئی تھی ۔ آج کے تیز بچے پوچھتے ہیں کہ اس کو محفوظ کیوں نہیں کیا ، جس کا جواب تو نہیں ہوتا بس شرمندگی اورافسوس ہی ہوتا ہے ۔ ہم منیر نیازی کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں ۔ بلا سوچے سمجھے جذبات کی رو یا لا علمی میں قیمتی اثاثے اور نشانات مٹا دیتے ہیں ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے ہمیں ان کی تاریخی اہمیت کا علم ہے نہ مستقبل میں اس کی ممکنہ افادیت کا کوئی تصور ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں اور کامیاب معاشرے ماضی سے سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں کا ازالہ اور صلاحیتوں کو مزید بہتر بناتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ بچوں کو ابتدائی دور طالب علمی ہی سے قومی ورثے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے ۔ تاکہ بڑے ہو کر ایک با شعور شہری بن کر ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کا جزو بنیں ۔ اگرچہ دور دراز کے دیہاتوں اور گاوں میں زمانہ قدیم کی زیادہ تر عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں ۔ بڑے شہروں اور قصبوں میں اب بھی وہ کافی تعداد میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔ گرے بیروں کا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، ان کی تعمیر نو کر کے ہم اپنی شاندار ماضی کی تاریخ کو نئی روح اور رنگ بخش سکتے ہیں ۔ جس سے نہ صرف ہماری نئی نسل علمی استفادہ کرے گی بلکہ سیاحت کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہو گی ۔ آئیں مل کر اس کاوش کو متحرک اور کامیاب کر کے قومی فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کو محفوظ ماضی کی جاتا ہے ہوتا ہے

پڑھیں:

غزہ پر حملہ کیا تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا؛ یمنی حوثی

حوثی رہنما عبد المالک نے کہا کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے تو ہم بھی اسرائیل پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نظریں ہیں اور جوابی ردعمل کے لیے بالکل تیار ہیں۔

حوثی باغی رہنما عبدالمالک نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں حملے دوبارہ شروع کرتا ہے تو ہم بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

حوثی رہنما نے کہا کہ اس صورت میں ہم بھی اسرائیل پر حملے کریں گے جس کے لیے ہم ہر وقت تیار اور مستعد ہیں۔

یاد رہے کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ہفتے کے روز ہونے والی رہائی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو مؤخر کردیا تھا۔

جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہفتے کے روز یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا تو جنگ بندی ختم اور تباہی ہوگی۔

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر حملہ کیا تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا؛ یمنی حوثی
  • فلسطین فلسطنیوں کا ہے، تاریخی اور عالمی حقیقت
  • پارلیمنٹ کا ستون ماضی کی نسبت آج بہت مضبوط ہے: سینیٹر عرفان صدیقی
  • پارلیمنٹ کا ستون ماضی کی نسبت آج بہت مضبوط ہے، عرفان صدیقی
  • حکم امتناع ختم‘ اترپردیش میں ایک اور تاریخی مسجد شہید
  • سندھ، 12 سالہ کمسن بچی نے اپنی جبری شادی کی کوشش ناکام بنادی
  • امریکا سے تعلق رکھنے والے سکھ کمیونٹی کے وفد کا تاریخی جمرود فورٹ کا دورہ
  • ہارس اینڈ کیٹل شو
  • سوجائو ورنہ ’’گبر‘‘ آجائے گا