Islam Times:
2025-04-13@16:18:44 GMT

ڈمپر مافیا کی نظر میں کسی کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے، فاروق ستار

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کراچی کے شہری کہاں جائیں گے؟ ڈمپر، کنٹینر مافیا کہیں جاکر رشوت دے رہیں تو کیا ایک تحریک نہیں چلنی چاہیئے؟ کیا وزیراعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیدیں، بتائیں کیا کریں۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر مافیا کی نظر میں کسی کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دن کے اوقات میں یہ ڈمپر سفاکی کیساتھ سڑکوں پر دوڑتے پھرتے ہیں، موٹرسائیکل سوار ہوں یا راہ گیر کسی کو بھی کچل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 ڈمپر جلانے کا واقعہ انتظامیہ کی بے حسی پر پیش آیا ہے، جب لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف نہیں ہونا تو پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی بے حسی دیکھ کرشہری مشتعل ہوکر ردعمل دیتے ہیں، حکومت، حکومت کی پالیسی بنانیوالے، پولیس بے حسی پر آجائے تو واقعات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کی ہرحال میں مذمت ہونی چاہیئے، کراچی کی سڑکیں تباہ حال اور کوئی پرسان حال نہیں ہے، پانی کی قلت ہے اور ایک وقت آئیگا کہ پانی کے لیے فسادات شروع ہوجائیں گے، دسمبر میں 26 کروڑ گیلن پانی اضافی مل جائیگا، ہماری کوششیں بھی شامل ہیں۔

فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر، کنٹینر حادثات کے علاوہ بچے بھی اغوا ہورہے ہیں، جنوری سے اب تک بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی عروج پر ہیں، رہزنی میں لوگ قتل ہورہے ہیں، گولڈ میڈلسٹ مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں سے موبائل، پرس اور گاڑیاں چھینی جارہی ہیں، مجھے یہ بتائیں کراچی کے شہری کہاں جائیں گے؟ ڈمپر، کنٹینر مافیا کہیں جاکر رشوت دے رہیں تو کیا ایک تحریک نہیں چلنی چاہیئے؟ کیا وزیراعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیدیں، بتائیں کیا کریں؟ انہوں نے کہا کہ حکومت ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر لوگوں میں جائے، ڈمپر، ٹینکر مالکان سے بات اور ٹریفک پولیس کی نگرانی کی جائے، سٹی وارڈن جو ایم کیو ایم میئر شپ کے زمانے میں آئے تھے، سٹی وارڈنز کو چوراہوں پر کھڑا کردیں وہ ٹریفک کو بحال رکھیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ رمضان المبارک آرہا ہے، لوگ وقت پر افطار اپنے گھر میں کرنا چاہیں گے، انٹر اور میٹرک بورڈ میں طلبہ کیساتھ ناانصافی ہورہی ہے، آبادی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ان کی نشستوں میں نہیں ہورہا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے ایم کیو ایم

پڑھیں:

قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر

وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔

پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔

چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔

چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔

اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟

عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔

کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔

پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔

مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں ڈمپرز کیخلاف کریک ڈاؤن، 142 چالان، 27 گاڑیاں ضبط
  • جوڈیشری کوئی شاہی دربار نہیں، اگر کیسز نہیں سن سکتے تو گھر جائیں، اعظم نذیر تارڑ
  • اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا علم نہیں, اعظم سواتی نے ذاتی حیثیت میں بات کی: سلمان اکرم راجہ
  • کراچی: موٹر سائیکل ڈمپر کے نیچے ڈال کر ویڈیو بنا کر لسانی فسادات کی کوشش کی گئی، آفاق احمد
  • ہماری میٹنگز ہو رہی ہیں جلد معاملات طے پا جائیں گے، سلمان اکرم راجہ
  • اعظم سواتی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کی ذاتی کوشش کررہے ہیں، پی ٹی آئی کا اس سے تعلق نہیں: سلمان اکرم راجہ
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • ’جن کے پاس آپشن ہے ان کا پاکستان میں رہنا نہیں بنتا‘، خواجہ آصف کا پاکستان بائیکاٹ کی دھمکی پر سخت ردعمل
  • کراچی میں تسلسل کیساتھ حادثات سانحات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں، فاروق ستار
  • کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، خبریں پروپیگنڈا ہیں، پی ٹی آئی