میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کراچی کے شہری کہاں جائیں گے؟ ڈمپر، کنٹینر مافیا کہیں جاکر رشوت دے رہیں تو کیا ایک تحریک نہیں چلنی چاہیئے؟ کیا وزیراعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیدیں، بتائیں کیا کریں۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر مافیا کی نظر میں کسی کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دن کے اوقات میں یہ ڈمپر سفاکی کیساتھ سڑکوں پر دوڑتے پھرتے ہیں، موٹرسائیکل سوار ہوں یا راہ گیر کسی کو بھی کچل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 ڈمپر جلانے کا واقعہ انتظامیہ کی بے حسی پر پیش آیا ہے، جب لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف نہیں ہونا تو پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی بے حسی دیکھ کرشہری مشتعل ہوکر ردعمل دیتے ہیں، حکومت، حکومت کی پالیسی بنانیوالے، پولیس بے حسی پر آجائے تو واقعات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کی ہرحال میں مذمت ہونی چاہیئے، کراچی کی سڑکیں تباہ حال اور کوئی پرسان حال نہیں ہے، پانی کی قلت ہے اور ایک وقت آئیگا کہ پانی کے لیے فسادات شروع ہوجائیں گے، دسمبر میں 26 کروڑ گیلن پانی اضافی مل جائیگا، ہماری کوششیں بھی شامل ہیں۔

فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر، کنٹینر حادثات کے علاوہ بچے بھی اغوا ہورہے ہیں، جنوری سے اب تک بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی عروج پر ہیں، رہزنی میں لوگ قتل ہورہے ہیں، گولڈ میڈلسٹ مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں سے موبائل، پرس اور گاڑیاں چھینی جارہی ہیں، مجھے یہ بتائیں کراچی کے شہری کہاں جائیں گے؟ ڈمپر، کنٹینر مافیا کہیں جاکر رشوت دے رہیں تو کیا ایک تحریک نہیں چلنی چاہیئے؟ کیا وزیراعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیدیں، بتائیں کیا کریں؟ انہوں نے کہا کہ حکومت ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر لوگوں میں جائے، ڈمپر، ٹینکر مالکان سے بات اور ٹریفک پولیس کی نگرانی کی جائے، سٹی وارڈن جو ایم کیو ایم میئر شپ کے زمانے میں آئے تھے، سٹی وارڈنز کو چوراہوں پر کھڑا کردیں وہ ٹریفک کو بحال رکھیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ رمضان المبارک آرہا ہے، لوگ وقت پر افطار اپنے گھر میں کرنا چاہیں گے، انٹر اور میٹرک بورڈ میں طلبہ کیساتھ ناانصافی ہورہی ہے، آبادی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ان کی نشستوں میں نہیں ہورہا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے ایم کیو ایم

پڑھیں:

جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم

کشمیر سے فلسطین تک، ہنود و یہود مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں،مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں ، سکولوں، کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں، اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے،56 اسلامی ملکوں کے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو کشمیریوں یا فلسطینیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کو روکنے کی جرات کر سکے۔مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بزدلی نے امت مسلمہ کو یہ دن بھی دکھایا کہ یہ سارے مل کر کافروں سے مطالبے کر رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر صیہونی فوج سے فلسطینیوں اور ہندو فوج کے مظالم سے کشمیریوں کو بچائیں۔میر بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ایسے خطرناک حالات میں اگر پاکستان کے اکابر علماء نے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر جہاد کی فرضیت کے حوالے سے فتوی جاری کیا ہے،تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے اکابر علماء جاگ رہے ہیں،اسرائیلی دسترخوان کے جن راتب خوروں کو مولانا محمد مسعود ازہر اور دیگر مجاہدین کے جہاد پر اعتراض تھا،اب علما ء کی طرف سے حکومت پر جہاد کی فرضیت کے فتوے پر اعتراض کیوں ہے؟یہ کہنے والے کہ فتوی دینے والے علما ء کو خود جہاد میں شرکت کے لئے غزہ جانا چاہئے ،کوئی ان غامدیوں، قادیانیوں، فوادیوں اور موم بتی مافیا کے زنانوں کو بتائے کہ مولانا محمد مسعود ازہر تو خود جہاد کشمیر میں شریک ہوئے ،مقبوضہ کشمیر اور انڈیا کی جیلوں میں چھہ سال سے زائد عرصہ تک گرفتار رہے،تمہیں تو ان کا جہاد بھی ہضم نہیں ہواتھا،اگر مفتی تقی عثمانی،مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمن سمیت دیگر علماء نے مسلح جہاد کی قیادت سنبھال لی تو پھر یہودیوں کو غرقدکے درخت اور تمہیں کسی یہودی ،صلیبی سوراخ میں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، کشمیر اور فلسطین کی۔
آزادی، جہاد مقدس کی عبادت کوتسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی دوری پر ہے،جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے جسے قرآن و حدیث میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’کوشش کرنا‘‘یا ’’جدوجہد کرنا‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں جہاد ایک جامع تصور ہے، جو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ روحانی، سماجی اور انفرادی سطح پر حق کے لئے جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جہاں اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے نفس کے خلاف جہاد (جہاد بالنفس)، معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد (جہاد بالعمل) اور باطل کے خلاف قتال (جہاد بالقتال)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: -1جہاد ایمان کی علامت ہے: ’’اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔(سورہ العنکبوت: 69) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو اللہ کی مدد اور رہنمائی نصیب ہوتی ہے۔-2حق و باطل کی جنگ:اور تم اللہ کے راستے میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو۔(سورہ البقرہ: 190 ) اس آیت میں جنگ کی اجازت صرف دفاع کے لئے دی گئی ہے اور ظلم و زیادتی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔-3جہاد کی فضیلت:اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اجر کے اعتبار سے فضیلت دی ہے۔ (سورہ النسا: 95) یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے ایمان والوں کو عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی جہاد کی فضیلت اور اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ جہاد نہ صرف دین کی سربلندی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ -1جہاد کو ایمان کی بلند ترین شاخ قرار دیا گیا، حضرت ابو ہریرہؓؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں، اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے راستے میں جہادہے۔‘‘ (صحیح مسلم)-2 نفس کے خلاف جہاد:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)اس حدیث میں روحانی جہاد کو اہمیت دی گئی ہے، جو انسان کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہے۔-3شہادت کی فضیلت: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔جہاد کی اقسام: ا سلام میں جہاد کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ اس کے جامع مفہوم کو سمجھا جا سکے۔
جہاد بالنفس:اپنے نفس کی برائیوں، خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف جدوجہد کرنا۔ یہ سب سے اہم اور مشکل جہاد ہے۔جہاد بالمال،اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا، جیسے فلاحی کاموں میں حصہ لینا یا ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔جہاد باللسان:حق بات کو زبان سے بیان کرنا، برائی کے خلاف آواز بلند کرنا اور دین کی تبلیغ کرنا۔جہاد بالقتال، باطل کے خلاف جنگ کرنا، لیکن صرف ان حالات میں جب ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ جائے اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہ رہے۔جہاد کے اصول: قرآن و حدیث میں جہاد کے لئے کچھ اصول اور شرائط بیان کئے گئے ہیں۔-1جہاد صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے۔ -2جنگ میں عام شہریوں، بچوں، عورتوں، اور غیر جنگجو افراد کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔-3معاہدے اور وعدے کی پابندی لازمی ہے۔-4جنگ کے دوران بھی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ روحانی اور سماجی جہاد کی اہمیت، جہاد صرف جنگی میدان تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک بڑا پہلو روحانی اور سماجی اصلاح سے جڑا ہوا ہے۔روحانی جہاد: اپنے نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی کے لیے جدوجہد۔سماجی جہاد: ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا اور معاشرتی بھلائی کے لیے کام کرنا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں، اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے مذاکرات پر تیار نہیں. رانا ثنا اللہ
  •  آرمی چیف کی تقریر:وضاحت ہوگئی  نومئی پر کوئی رعایت نہیں،عطاء تارڑ
  • "را" کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے، ڈاکٹر فاروق عبداللہ
  • مذہبی رہنماء میرواعظ عمر فاروق پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے، عشرت بھٹ کا خصوصی انٹرویو
  • دفعہ 370 کی منسوخی میں مدد کیلئے فاروق عبداللہ تیار تھے، ایس اے دلت
  • وفاق یا کسی بھی ملک کو خیبرپختونخوا کے وسائل پر قابض ہونے نہیں دیں گے، مولانا فضل الرحمان
  • کراچی: 193 ڈمپر اور ٹینکرز فٹنس اور اوور اسپیڈ پر ضبط
  • بیرسٹر گوہر کو عمران خان سے ملاقات سے روک دیا گیا
  • پنجاب میں بھی ڈمپر موت بانٹنے لگے ،ڈمپر کی موٹر سائیکل رکشے کو ٹکر سے3 افراد جاں بحق
  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم