حوثی رہنما عبد المالک نے کہا کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے تو ہم بھی اسرائیل پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نظریں ہیں اور جوابی ردعمل کے لیے بالکل تیار ہیں۔

حوثی باغی رہنما عبدالمالک نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں حملے دوبارہ شروع کرتا ہے تو ہم بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

حوثی رہنما نے کہا کہ اس صورت میں ہم بھی اسرائیل پر حملے کریں گے جس کے لیے ہم ہر وقت تیار اور مستعد ہیں۔

یاد رہے کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ہفتے کے روز ہونے والی رہائی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو مؤخر کردیا تھا۔

جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہفتے کے روز یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا تو جنگ بندی ختم اور تباہی ہوگی۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا

پڑھیں:

عارضی جنگ بندی کا مستقبل!

گزشتہ ماہ قطر، امریکا اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ طے پایا تھا، جس کے نتیجے میں 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت تھم گئی تھی، حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ عارضی جنگ بندی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے، امریکا خود اس معاہدہ کو سبوتاژ کرنے پر تل گیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کے عوام ایک بار پھر نئی آزمائش سے دوچار ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی بار غزہ پر قبضے کا بیان دیا تو اس پراقوامِ متحدہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ سمیت پوری دنیا نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں اس غیر متوقع صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو وضاحت دینا پڑی کہ ٹرمپ نے محض غزہ میں تعمیر نو کی ذمے داری لینے کی پیشکش کی تھی، مگر کچھ ہی دنوں بعد ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کے بیانات دینا شروع کردیے، انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ امریکی ملکیت میں غزہ ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ ہوگی، حماس کو واپس نہیں آنے دیں گے، ریاست ہائے متحدہ امریکا غزہ کا مالک بننے جا رہا ہے، اگر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو ہفتے کے دن 12 بجے تک رہا نہ کیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی، اس جنگ بندی معاہدے کو منسوخ کرنے کا کہہ دوں گا اور پھر سب کچھ ختم ہوجائے گا، خود ٹرمپ کے بیان کی وضاحت کرنے والے مارکو روبیو بھی اب کہہ رہے ہیں کہ حماس کو غزہ پر حکمرانی اور اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب حماس نے اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر یرغمالیوں کی رہائی روک دی ہے، جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار ہے۔ حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 ہفتے کے دوران مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی متعدد خلاف ورزیوں کو نوٹ کیا جن میں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر کرنا اور ان پر بمباری کرنا بھی شامل تھا‘ متعدد علاقوں میں طے شدہ طریقے کے مطابق امداد بھی نہیں پہنچائی گئی جبکہ مزاحمتی گروہوں نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی۔ ان وجوہات کے باعث ہفتے کے روز یعنی 15 فروری کو اسرائیلی یرغمالیوں کی ہونے والی رہائی کو اگلے احکامات تک روک دیا گیا ہے۔ یہ رہائی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک اسرائیل معاہدے میں طے شدہ نکات پر عمل نہیں کرتا اور اس حوالے سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کرتا‘ جب تک اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل کرتا رہے گا تب تک وہ بھی معاہدے پر عمل درآمد کریں گے۔ اس صورتحال پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں، اس منصوبے پر بات چیت ناقابل قبول ہے، تباہ حال غزہ کے بارے میں امریکی صدر نے جو کچھ کہا ہے اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں ان کی زمین سے بیدخل کرسکے۔ بین الاقوامی امور پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تجویز ٹرمپ کی جنونی سوچ کی عکاس ہے، جس کا مقصد داخلی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، ان کی فطرت چھوٹے معاملات کے لیے بڑے اقدامات کرنے کی ہے اور وہ اپنے حامیوں کے لیے ڈرامائی اقدامات کرتے ہیں تاکہ میڈیا اور مخالفین کی توجہ ان کے حقیقی اقدامات سے ہٹ جائے۔ ان آراء کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کی دفاع اور سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، مغربی طاقتیں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اس کے وجود کو لاحق خطرات کو دور کرنے کے اقدامات بھی کرتی رہی ہیں اور مختلف ادوار میں اس کے لیے دنیا بھر میں جارحانہ سفارت کاری کو بھی بروئے کار لایا جاتا رہا ہے، کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسلم دنیا سے بھی اسے تسلیم کروایا جائے، اسی سلسلے میں انتہائی ہوشیاری اور چابک دستی سے 2020 میں ابراہام معاہدہ بھی کیا گیا، مگر 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے ذریعے حماس نے مغرب اور اسرائیل کے سارے منصوبے اور عزائم کو خاک میں ملا دیا، اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا نہیں ہے بلکہ کھلی مسلم دشمنی کا اظہار بھی ہے جو ان کے خمیر میں شامل ہے، خطے میں امریکی بالادستی کے لیے ناگزیر ہے کہ کسی بھی صورت اسرائیل کو لاحق خطرات کا قلع قمع کیا جائے، عرب ریاستیں پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کیے بیٹھی ہیں ایسے میں واحد حماس رہ جاتی ہے جو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سمیت ہر نوع کے عزائم کی راہ میں مزاحم ہے، اس لیے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح حماس کو بے دست و پا کرکے اپنے راہ کی ہر رکاوٹ کو دورکردیا جائے۔ ٹرمپ کبھی کہتے ہیں قیامت ڈھا دوں گا، کبھی کہتے ہیں معاہدہ منسوخ ہوا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا، یاللعجب! پندرہ ماہ تک غزہ میں امریکی اَشیرباد سے جو کچھ ہوا، کیا وہ قیامت سے کم تھا، اب غزہ میں بچا ہی کیا ہے جسے ختم کیا جائے؟ مہذب دنیا کو ٹرمپ سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ہوتے کون ہیں جو غزہ کے باشندوں کا فیصلہ کریں؟ غزہ کو مشرقی بحیرہ روم کی ایک نئی ریزورٹ میں تبدیل کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں، غزہ محض ایک قطعہ زمین نہیں، یہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے، یہ فلسطینیوں کی شناخت، امیدوں اور آروزوں کا مرکز ہے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں صدیوں سے وہ رہ رہے ہیں، فلسطینیوں کے غزہ سے نکلنے کا مطلب ان کی جدوجہد کا خاتمہ ہے، غزہ ان کا مادرِ وطن ہے، وہ یہاں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں مرنے کا عزم رکھتے ہیں، غزہ کو دس بار بھی تباہ کردیا جائے تو بھی یہاں کے باشندے اسے چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوچ نہیں سکتے، گزشتہ 75 سال کے تجربات اور اپنے اوپر باربار گرنے والی بجلی سیوہ کارِ آشیاں بندی کے فن سے آشنا ہو چکے ہیں، اور اس رزق پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے جس سے ان کی پرواز میں کوتاہی پیدا ہوتی ہو۔ فلسطینی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ غزہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں ہمارے لاشوں پر سے گزرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ تشبیہاً نہیں عملاً ہاتھی اور چیونٹی کی لڑائی تھی، دنیا بھر کی جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اسرائیل حماس کو شکست نہیں دے سکا اور بالآخر اسے مذاکرات کی میز پر آنا پڑا مگر تاریخ کے اس سبق کو یکسر فراموش کر کے وہ بلند و بانگ دعوے کیے جارہے ہیں جو ان کے لیے ایک پھر خفت اور شرمندگی کا باعث ہوں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کسی نشے میں ہیں، اور جنوں میں جو کچھ بک رہے ہیں اس کا انہیں اداراک تک نہیں، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جذبہ ایمان و حریت اور شوقِ شہادت سے سرشار کسی بھی قوم کو طاقت کے بل بوتے پر نہ آنکھیں دکھائی جا سکتی ہیں اور نہ انہیں زیر کیا جاسکتا ہے، ابھی حال ہی میں نہتے افغانیوں نے اپنی سرزمین پر امریکا اور اس کے چالیس اتحادیوں کے غرور کو خاک میں ملایا ہے، مسلم حکمرانوں کے یہاں اگر غیرت و حمیت کی ادنیٰ درجے بھی کوئی معنویت رہ گئی ہے تو اس صورتحال پر انہیں ہَرچِہ باد آباد کہتے ہوئے میدانِ عمل میں اترنا ہوگا، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور اپنی بقا و سلامتی کے لیے ناگزیر بھی۔

متعلقہ مضامین

  • تجارت کرنا حکومت کا کام نہیں، نجی شعبے کی مکمل معاونت کیلیے تیار ہیں، وزیر خزانہ
  • نو مئی جی ایچ کیو حملہ کیس: پی ٹی آئی رہنما سیمابیہ طاہر کو حراست میں لے لیا گیا
  • عارضی جنگ بندی کا مستقبل!
  • حماس نے ہفتے کو یرغمالی رہا نہ کیے تو غزہ پر شدید حملے شروع ہوجائیں گے، اسرائیل
  • خارکیف یوکرین پر روس کا فضائی حملہ،11 افراد زخمی
  • ’وہ سب بہت ہولناک تھا‘، سیف علی خان نے حملے کی تفصیلات بتا دیں
  • معاہدے کی خلاف ورزی،حماس نے یرغمالیوں کی رہائی روک دی،ہر قسم کی صورتحال کیلیے تیار ہیں‘ اسرائیل
  • چاقو حملے کے بعد بھی سیف علی خان نے باڈی گارڈ رکھنے سے انکار کر دیا، وجہ کیا ہے؟
  • سنگاپور: کرائسٹ چرچ حملہ، مسلمانوں پر حملے کا ارادہ کرنے والا ملزم گرفتار