Daily Ausaf:
2025-04-15@09:51:59 GMT

پنجاب میں نویں اور دسویں جماعت کے 2 لازمی مضمون تبدیل

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

لاہور(نیوز ڈیسک)پنجاب میں نویں اور دسویں جماعت کے 2 لازمی مضامین کو ایک دوسرے سے تبدیل کردیا گیا، نویں جماعت میں مطالعہ پاکستان کی جگہ اسلامیات اور دسویں جماعت میں اسلامیات کی جگہ مطالعہ پاکستان ہوگی۔پنجاب حکومت نے نویں اور دسویں جماعت کے دو لازمی مضامین کو تبدیل کردیا، نویں میں مطالعہ پاکستان اور دسویں میں اسلامیات نہیں پڑھائی جائیں گی۔

لاہور بورڈ نے فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، اطلاق آئندہ تعلیمی سال سے ہوگا۔نوٹیفکیشن کے مطابق نویں جماعت میں مطالعہ پاکستان کی جگہ اسلامیات کا مضمون پڑھایا جائے گا جبکہ مطالعہ پاکستان دسویں جماعت میں پڑھائی جائے گی دونوں مضامین 100 نمبرز ہوں گے۔

راولپنڈی میں 17 سالہ لڑکی کا قتل، تحقیقات میں ہوشربا انکشافات نے پولیس کو بھی چکرا کر رکھ دیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور دسویں جماعت مطالعہ پاکستان

پڑھیں:

دل پھر دل ہے، غم پھر غم ہے

اسلام ٹائمز: فلسطین کا مسئلہ تقریباً پون صدی سے عالمی ضمیر کے اوپر ایک زخم کی صورت میں موجود ہے۔ یہ طویل عرصہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ زخم دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوسکے گا۔ اس کیلئے جراحی درکار ہے ورنہ یہ زخم ہماری آئندہ نسلوں کیلئے ایسا بوجھ بن جائے گا جسے اٹھانا انسانیت کے لیے مشکل ہوگا۔ چنانچہ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہے۔ فلسطینی تو پتھروں، درخت کی ٹہنیوں اور خالی ہاتھوں سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشینری کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہم ان کے کام آ سکتے ہیں، یا ہمارے امریکی مخالفت کے دعویٰ صرف اپنے مفادات کی حد تک ہیں؟ تحریر: سید وقاص جعفری

دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے
رو لینے سے کیا ہوتا ہے
پاکستان کی تمام دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، امریکہ مخالف ہونے کی دعویدار ہیں اور اس بنیاد پر کبھی نہ کبھی ووٹ حاصل کرتی آئی ہیں۔ اس ضمن میں ہر جماعت کا اپنا ہوم ورک ہے اور اس کے پاس عملی واقعات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھیں جابجا حسب ضرورت بیان کیا جاتا ہے تاکہ عوام میں پائے جانے والے پاکستانی نیشنلزم کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً اس وقت حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے شدید امریکی دباؤ برداشت کیا۔ 11 مئی کو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے جواب دینے کا فیصلہ کیا تو فوراً صدر بل کلنٹن نے نواز شریف سے رابطہ کیا۔ 28 مئی کو پاکستان کے دھماکوں تک بل کلنٹن کی جانب سے پانچ دفعہ وزیراعظم کو فون کیا گیا جبکہ جاپانی وزیر اعظم نے بھی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا۔ پاکستان کو ہر طرح کی دفاعی ضمانتیں اور مراعات پیش کی گئیں جبکہ انکار کی صورت میں شدید ردعمل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس سب کے باوجود چونکہ یہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ تھا اس لیے بہر صورت ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے جوہری طاقت ہونے کا ثبوت دے دیا گیا۔

اس وقت دوسری حکمران اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتوں کے ذریعے امریکی ایماء پر قتل کیا گیا کیونکہ وہ بین الاقوامی سطح پر امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن رہے تھے اور ایک ’’اسلامی بلاک‘‘ کے خواہاں تھے۔ چنانچہ انہیں آمریت کے ذریعے ہٹا کر ہمیشہ کیلئے پاکستانی سیاست سے خارج کر دیا گیا۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جو مجموعی طور پر بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے، پاکستان تحریک انصاف ہے۔ اس جماعت نے عرصہ اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ کو ذمہ دار قرار دیا اور اس کے بعد امریکی مخالفت کے پاپولر بیانئے پر انتخابات میں بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کی حکم عدولی کرکے روس کا دورہ کرنے کی پاداش میں رخصت کیا گیا۔ یہ سب باتیں بجا۔ یہاں تک کہ اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ق بھی کہہ چکی ہے کہ 2008ء میں ان کا اقتدار امریکی منشاء پر ختم ہوا۔

سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والے تمام طبقات امریکی مخالفت پر کمربستہ ہیں تو غزہ میں جاری اس دور کے سب سے بڑے انسانی المیہ کے معاملے میں ہمارا ریاستی ردعمل اس قدر مردہ کیوں ہے؟ یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ اسرائیل اس بربریت میں فقط ’’فرنٹ مین‘‘ ہے۔ پالیسی فیصلے ’’انکل سام‘‘ کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو اس خطے میں اسرائیل کا مصنوعی وجود اپنی چھاؤنی کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستان کی طرف سے غزہ میں تباہی کی امریکی پالیسی کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کیا جاتا جیسا کہ ہم ایٹم بم، اسلامی بلاک یا آزاد خارجہ پالیسی کے حصول کی جدوجہد میں کرچکے ہیں لیکن اس کے برعکس ہمیں معمول کے بیانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایسا معمہ ہے جو ہماری سمجھ سے بلند ہے۔ آسٹریلیا، یورپ، یہاں تک کہ امریکہ میں فلسطینوں کی نسل کشی کے خلاف ارکان پارلیمان اور عوام ایسا بھرپور احتجاج کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر اخلاقی میدان میں اسرائیل تقریباً تنہا ہوکر رہ گیا ہے، جو حمایت اسے حاصل بھی ہے وہ مغربی حکومتوں کے مفادات کی مرہون منت ہے۔

دوسری طرف اس محاذ پر پاکستان کی جانب سے مزاحمت صرف اتنی ہی ہے جس سے پاکستانی عوام کی محض ’’اشک شوئی‘‘ کی جا سکے۔ اہلِ فلسطین اس وقت ایک قیامت کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پچاس ہزار سے زائد شہید ہیں۔ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کیا ہمارے لیے بائیس لاکھ فلسطینی بھائیوں کی زندگی اپنے ایٹم بم یا اقتدار سے ارزاں ہے؟ کیا ایک انسان کی زندگی بھی انسانی اقتدار سے زیادہ قیمتی نہیں ہے؟ اس صورتحال میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ہماری خاموشی بہرا کر دینے (deafening silence) والی ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا واحد مسلمان ملک ہے، اس بنیاد پر اسے عالمی معاملات میں کچھ خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو دوسرے ممالک کو میسر نہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی دفاعی سیاست میں اپنے اثر و رسوخ (active diplomacy) کو کماحقہ تو کجا کسی حد تک بھی استعمال کیا ہے؟

طاقت کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ اسے مظلومیت سے نہیں طاقت سے ہی خائف رکھا جا سکتا ہے۔ کیا اسلامی ممالک اور پاکستان نے اقوام متحدہ سے ’’اپیل‘‘ کرنے کی بجائے کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کا حتمی مطالبہ بھی کیا ہے؟ ہم تو اس وقت تک قومی سطح پر اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے جو شاید ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔ فلسطین کا مسئلہ تقریباً پون صدی سے عالمی ضمیر کے اوپر ایک زخم کی صورت میں موجود ہے۔ یہ طویل عرصہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ زخم دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوسکے گا۔ اس کیلئے جراحی درکار ہے ورنہ یہ زخم ہماری آئندہ نسلوں کیلئے ایسا بوجھ بن جائے گا جسے اٹھانا انسانیت کے لیے مشکل ہوگا۔ چنانچہ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہے۔ فلسطینی تو پتھروں، درخت کی ٹہنیوں اور خالی ہاتھوں سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشینری کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہم ان کے کام آ سکتے ہیں، یا ہمارے امریکی مخالفت کے دعویٰ صرف اپنے مفادات کی حد تک ہیں؟

صاف کہہ دو کہ لوگ بھی سن لیں
بات سچ ہے تو زیرلب کیوں ہے

متعلقہ مضامین

  • ارسا نے سندھ کو زیادہ پانی دینے کے پنجاب حکومت کے دعوے کو مسترد کردیا
  • کراچی: نویں کا کیمسٹری کا پرچہ جاری، دوپہر میں ریاضی کا پیپر ہو گا
  • سندھ حکومت نے پنجاب کے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا
  • سندھ حکومت نے پنجاب حکومت کے ارسا کو لکھے خط کو مسترد کردیا
  • سندھ حکومت نے پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا
  • جے یوآئی نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کردیا‘ سینیٹ میں بل کے خلاف تحریک التواءجمع
  • پنجاب میں کل کاشتکار احتجاج کریں گے: لیاقت بلوچ
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • دل پھر دل ہے، غم پھر غم ہے
  • استعمال شدہ موبائل فونز کی خریداری کیلئے نئی شرائط عائد