UrduPoint:
2025-04-13@15:30:14 GMT

وائٹ ہاؤس نے 'خلیج امریکہ' نہ لکھنے پر صحافی کا داخلہ روک دیا

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

وائٹ ہاؤس نے 'خلیج امریکہ' نہ لکھنے پر صحافی کا داخلہ روک دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2025ء) ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے رپورٹر کو وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز اوول آفس میں ہونے والے ایک پروگرام میں داخلہ دینے سے اس لیے منع کردیا کیونکہ خبر رساں ایجنسی نے"خلیج میکسیکو" کا نام تبدیل کر کے "خلیج امریکہ" رکھنے کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کی تعمیل نہیں کی۔

وائٹ ہاؤس نے رپورٹر، جس کی شناخت اے پی نے ظاہر نہیں کی ہے، کا داخلہ اس وقت تک روک دیا ہے، جب تک کہ نیوز ایجنسی خلیج میکسیکو کا حوالہ دینے کا اپنا انداز تبدیل نہ کردے۔

گوگل میپس پر خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ کر دیا جائے گا

اے پی کی ایگزیکٹو ایڈیٹر جولی پیس نے کہا، "یہ تشویشناک ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اے پی کو اس کی آزاد صحافت کی سزا دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

" انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کی رسائی کو محدود کرنے سے آزادی صحافت کی ضمانت دینے والی امریکی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

جنوری میں، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس میں سیکرٹری داخلہ کو خلیج میکسیکو کا نام بدل کر "خلیج امریکہ" رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ٹرمپ کی فتح ریلی: صدارت کے پہلے ہی دن ایگزیکٹو آرڈرز کے بہت سے وعدے

اے پی کا کہنا ہے کہ اس خلیج کا نام 400 سال سے زیادہ عرصے سے "خلیج میکسیکو" ہے۔ اور ایک عالمی خبر رساں ایجنسی کے طور پر، اپنی اسٹائل بک میں وہ ٹرمپ کے منتخب کردہ نئے نام کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے اصل نام کا ذکر کرے گی۔

گوگل اور ایپل میپس نے اس ہفتے سے "خلیج امریکہ" کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

گوگل نے کہا کہ اس کے پاس ایسے معاملات پر امریکی حکومت کے احکامات کی پیروی کرنے کی "دیرینہ روایت" رہی ہے۔ وائٹ ہاوس کے رویے پر صحافیوں کا احتجاج

وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن نے منگل کو ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے پر احتجاج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی سے امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایسوسی ایشن کے صدر یوجین ڈینیئلز نے کہا، "انتظامیہ کی جانب سے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر کو خبروں کی کوریج کے لیے ایک عام سرکاری پروگرام سے روکنے کا اقدام ناقابل قبول ہے۔"

’صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے‘

ڈینیئلز نے منگل کو ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا، "وائٹ ہاؤس یہ حکم نہیں دے سکتا کہ خبر رساں ادارے کس طرح خبروں کی رپورٹنگ کریں، اور نہ ہی اسے ورکنگ صحافیوں کو اس لیے سزا دینا چاہیے کیونکہ وہ اپنے ایڈیٹرز کے فیصلوں سے ناخوش ہیں۔

"

اے پی کے رپورٹر کے داخلے پر پابندی کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کوئی نیا تبصرہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر صحافیوں کو وائٹ ہاؤس سے روکے جانے کی کوئی اطلاع ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی بنیاد 1846 میں رکھی گئی تھی اور یہ دنیا بھر کی اشاعتوں کو مختلف شکلوں میں خبریں فراہم کرتی ہے۔

ج ا ⁄ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خلیج میکسیکو خلیج امریکہ وائٹ ہاؤس کا نام

پڑھیں:

سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) روایتی حریف ممالک امریکہ اور ایران کے مابین مذاکراتی عمل بحال ہو رہا ہے۔اس کا مقصد ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود بنانا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد تہران حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔ عمان میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک ممکنہ جوہری معاہدے تک پہنچنا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو اچانک اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گی۔

ان مذاکرات کی تاریخ طے کرنے سے قبل دونوں ممالک کے مابین بیان بازی کی جنگ جاری رہی، جس میں ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی توفوجی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔

اس بیان پر امریکہ نے خبردار کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام ''کشیدگی میں اضافے‘‘ کا باعث ہی ہو گا۔ امریکہ کو ایرانی ردعمل کی قدر کرنا چاہیے، ایرانی سفارت کار

جمعے کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ ایران ''نیک نیتی اور مکمل احتیاط کے ساتھ سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے‘‘۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ایک بیان میں کہا، ''امریکہ کو اس فیصلے کی قدر کرنا چاہیے، جو ان کی جارحانہ بیان بازی کے باوجود کیا گیا۔‘‘

یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہوں نے مذاکرات پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اگر تہران نے انکار کیا تو فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں ہے۔

تہران نے چند ہفتے بعد اس خط کا جواب دیا کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس وقت تک براہ راست بات چیت ممکن نہیں جب تک امریکہ اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی برقرار رکھتا ہے۔

مذاکرات سے قبل مزید پابندیاں

صدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات ''براہ راست‘‘ ہوں گے لیکن ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دیا کہ بات چیت ''بالواسطہ‘‘ ہو گی۔

عراقچی اور امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ان مذاکرات کی قیادت کریں گے۔

اس ملاقات سے قبل واشنگٹن نے ایران پر اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی اور تازہ پابندیوں میں ایران کے تیل کے نیٹ ورک اور جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا۔

کیا فوجی کارروائی ممکن ہے؟

بدھ کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام رہے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی ''بالکل ممکن‘‘ ہے۔

اس کے ردعمل میں خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر علی شمخانی نے خبردار کیا کہ یہ دھمکیاں ایران کو ایسے اقدامات پر مجبور کر سکتی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے جوہری نگرانوں کو ملک سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔

واشنگٹن نے اس بیان کے جواب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھمکی ایران کے ''پرامن جوہری پروگرام‘‘ کے دعوؤں کے منافی ہے اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو نکالنا ''کشیدگی میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔

ایران امریکہ سے مذکرات سے کتراتا کیوں ہے؟

ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماضی کے ''تلخ تجربات اور اعتماد کے فقدان‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تہران حکومت نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے ہمیشہ احتیاط برتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی تھی اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔

واشنگٹن کی اس ڈیل سے علیحدگی کے بعد تہران نے ایک سال تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن بعد میں اس نے بھی مرحلہ وار اپنی جوہری سرگرمیوں کو وسعت دینا شروع کر دی۔

بقائی نے کہا کہ ایران ہفتے کو ہونے والے مذاکرات سے قبل ''نہ تو کوئی پیشگی رائے قائم کرے گا اور نہ ہی کوئی پیشن گوئی‘‘ کرے گا۔ یاد رہے کہ ایرانی جوہری مذاکرات کے لیے عمان ایک طویل عرصے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

بقائی نے کہا، ''ہم ہفتے کے روز دوسری طرف کے ارادوں اور سنجیدگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنےاگلے اقدامات کا تعین کریں گے۔‘‘

ادارت: عدنان اسحاق

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • وائٹ ہاؤس نے ایران، امریکا مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیدیا
  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • صحافی کے بھائی تاحال لاپتہ، ماں کی اپیل بھی نہ سنی گئی
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • چین سے درآمدات پر امریکی ٹیرف 145 فیصد تک پہنچ گیا، وائٹ ہاؤس کی تصدیق
  • آئی ایم ایف کا وفد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟