ماضی اور حال میں سرمایہ داروں، وڈیروں اور سیاسی حکمرانوں کے دور میں ایک بات کا بہت زیادہ شور اٹھتا رہا ہے کہ حق والوں کو حق نہیں ملتا اور ہر کام ہر بات میں زبردستی کے زور پر قوم اور اداروں کو دباﺅ میں رکھا گیا۔ ناحق راستے تو بہت ہیں مگر حق کی طرف جانے والے راستوں کو بند کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی بحالی پر پوری دنیا میں بڑے کام ہو رہے ہیں۔ چلیں ہم ان ملکوں کی بات نہیں کرتے جہاں حقوق کی بنیادوں پر بڑی کامیابیاں سمیٹی جا رہی ہیں مگر پاکستان میں رہتے ہوئے جس قدر انسانی حقوق کی پامالی اور بے قدری ہمارے ہاں دیکھی گئی شاید ہی کسی اور ملک میں ایسا ہو۔ ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے آپ سب سے ایک سوال ہے کہ کیا آپ خوش ہیں۔ جس طرح کی زندگی بسر ہو رہی ہے اس میں آپ کی وہ خوشی اور آپ کو وہ مراعات حاصل ہیں جو آپ چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسا نہیں ہے ہمارے ہاں کہیں جبر تو کہیں کالا قانون، تو کہیں ہم پر مسلط ہونے والی زبردستیاں۔ ہمیں روز اول ہی سے بنیادی حقوق سے محروم کرتی رہیں۔ ہمیں تو ہمیشہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے گو اس بارے بڑی پالیسیز سامنے آئیں، سیمیناروں میں بڑے بڑے دعوے اور ان میں بہت جذباتی تقاریر اور فوٹو شوٹ ہوئے مگر حق کے بارے اٹھنے والی آواز کو کبھی نہیں سنا گیا۔ ہمیں اس قدر الجھا دیا گیا کہ ہمیں تو یہی معلوم نہیں کہ یہ بنیادی حقوق ہوتے کیا ہیں؟
گزشتہ دنوں مجھے لاہور میں پہلی بین الاقوامی جانوروں کے حقوق اور ماحولیات کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے لئے موضوع کے اعتبار سے یہ جاننا ضروری تھا کہ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ہم انسانی حقوق کا تو دفاع کرنے میں ناکام ٹھہرے، یہ جانوروں کے حقوق کیا ہوتے ہیں۔ ان کی بھی بات سننی چاہئے کہ اگر وہاں یہ نافذ العمل قانون لاگو ہو سکتے ہیں تو پھر یہ تجربہ انسانوں کے حقوق پر بھی ہونا چاہئے شاید جو بنیادی حق گزشتہ 76سالوں سے نام نہاد جمہوریت کے نام،کبھی ہم پر مسلط کی گئی آمریت کے نام پر سلب کئے گئے اور جعلی قانون پاس کرکے اظہار آزادی سے لے کر عام زندگی تک کو متاثر کیا گیا۔ اسی صحافت پر کالے قوانین نافذ کرتے ہوئے مارشل لائی چھڑیوں کے سائے میں ایسی ایسی پابندیاں عائد کی گئیں کہ ہم آزاد معاشرے کی بجائے محکوم قوم کہلانے لگے۔ ہم آج بھی اس دور کے کالے قانون بھگت رہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ہم آئے روز روزگار کی تلاش میں غلط طریقوں سے سمندر کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو موت کی گہرائی میں اترتا دیکھ رہے ہیں۔ انہی کشتیوں میں ڈوبتے انسانوں کو روٹی کمانے کے منظر نامے یہی کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم بنیادی حقوق سے محروم نہ کئے جاتے۔ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی بات تو ہوتی ہے مگر انسانی حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی حکومت اس کی پاسداری کرنے کو تیار ہی نہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ کی سیمینار میں کی گئی باتیں پڑھتے چلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاءکے دور میں منتخب وزیراعظم بھٹو کو عہدے سے ہٹا کر ان کے قتل میں سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا۔ یہاں طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیا جاتا رہا، دور ضیاءمیں تو لاہور کے شاہی قلعے میں ٹارچر سیلز بنائے گئے اور لوگوں کو سالوں تک عقوبت خانوں میں رکھا اور مختلف سیاسی نقطہ نظر رکھنے والوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، جبری گمشدگیوں، بے گناہ قیدیوں اور بنیادی انسانی حقوق پر کئی اہم زخم دے چکا، ہمارے سکول کے دور میں حقیقت سے برعکس پڑھایا جاتا رہا، شہر کے رہن سہن پر جو کچھ ہمیں پڑھایا گیا وہ حقیقی زندگی سے بالکل مختلف تھا۔ عدالت نے جبری گمشدگیوں ، قیدیوں کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی اہم جج منٹس دیں۔ مگر حکومتوں نے عملدرآمد نہیں کیا۔ جبری گمشدگی کے بارے کہا کہ ایسے کیسز میں عدالت نے متاثرین کے درد کو سمجھتے ہوئے فیصلے بھی دیئے۔ بطور جج میں اس درد کو محسوس کر سکتا ہوں جو کسی کا عزیز جبری گمشدہ ہونے پر اہل خانہ پر گزرتا ہے۔ جانوروں کے حقوق کا تحفظ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا انسانی حقوق کا ہے، ہر زندگی بیتی ہے، چاہے وہ انسان کی ہو، جانور کی یا پودوں کی۔ ضیاءدور سب سے خوفناک تھا، پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بنی گالہ کی خوبصورتی بارے کہا کہ ایک ٹاو¿ن پلانر نے سے جانوروں کے قیام کی بہترین جگہ قرار دیا تھا، مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں قائم کر کے قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچایا۔
یہ تو جج صاحب کی تجرباتی زندگی کا موقف تھا۔ میرے نزدیک جسٹس اطہر من اللہ نے بڑے واضح انداز میں وہی نقشہ بندی کی جو ہم اپنے ہاں کئی عشروں سے دیکھ اور بھگت بھی رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں انسانی حقوق کے بارے بڑی بلند آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کہیں ان کے حقوق ڈنڈے اور طاقت کے زور پر دبا کر مجبور معاشروں کی بنیادیں رکھی گئیں تو کہیں اکا دکا حقوق دے کر بڑے دعوے سامنے آئے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق ہیں کیا اور اگر ان کو نافذ کرتے ہوئے انسانی حقوق کو برحق تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے۔ کسی بھی حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ اس بات کا پیغام کے ساتھ عملدرآمد بھی کرائے کہ سب کو برابری کی سطح پر دیکھا جائے گا بلکہ ان کی بات سنی بھی جائے گی۔ مخالفت برائے مخالفت اپنی جگہ جب تک انسانی حقوق نہیں دیں گے اور ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو پھر ہر طرف انتشار کے ساتھ،افراتفری اور گھٹن کی فضاءپیدا ہو گی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہاں ان حقوق کو روکا گیا وہ ملک تباہ ہوئے۔ آپ دنیا بھر کے آزاد معاشروں کو دیکھیں کہ وہ کس قدر خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اور جہاں جگہ جگہ پابندیاں، جگہ جگہ روک ٹوک، جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ وہاں وہی کچھ ہوگا جو آج پاکستانی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جانوروں کے حقوق بنیادی حقوق کے دور میں بنیادی حق حقوق کی رہے ہیں کی بات
پڑھیں:
لیبیا کشتی واقعے پر وزیراعظم کا اظہار افسوس، ایک بار پھر انسانی اسمگلرز کیخلاف کارروائی کا عندیہ
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے گزشتہ روز لیبیا میں کشتی ڈوبنے کے واقعے کی مزمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لیے دعا اور لواحقین سے اظہار تعزیت کی جبکہ متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔
شہباز شریف نے اپنے بیان میں وزارت خارجہ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ واقعے میں جاں بحق پاکستانیوں کی شناخت جلد مکمل کرکے رپورٹ پیش کریں۔
مزید پڑھیں: لیبیا میں 65 مسافروں سے بھری کشتی الٹ گئی، پاکستانی بھی سوار تھے، ترجمان دفتر خارجہ
وزیراعظم نے حکام کو ہدایت جاری کی کہ متاثرہ افراد کو ہر ممکن امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اپنے بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ جیسے مکروہ کام میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لیبیا کے ساحل کے قریب بحری حادثہ پیش آیا جس میں 65 مسافروں سے بھری کشتی الٹ گئی۔ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق حادثے میں پاکستانی شہری بھی متاثر ہوئے ہیں تاہم ابھی تک تعداد کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کی جاسکی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق حادثہ لیبیا کے شہر زوایہ کے شمال مغرب میں مرسا ڈیلا کے قریب پیش آیا۔
مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن: ایف آئی اے کے 13 اہلکار برطرف، اہم گرفتاریاں
یہ بات یاد رہے کہ یہ پہلا کشتی واقعہ نہیں جس میں پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ گزشتہ ڈیرھ سال میں لیبیا، مراکش اور یونان میں متعدد واقعات ہوچکے ہیں جس میں اب تک 500 سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے۔
اس دوران حکومت کی جانب سے کئی کارروائیاں بھی عمل میں آئیں جن میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور ایف آئی اے کے کئی ملازمین بھی برطرف ہوئے مگر یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں