اروِند کجریوال بمقابلہ عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
دہلی کی اسمبلی میں اروِند کجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کی شکست کی خبرواقعی ایک بریکنگ نیوز تھی جسے ہم نے روزنامہ’ نئی بات‘ میں لیڈ اور سپرلیڈ کے درمیان چارکالم نمایاں کر کے شائع کیا۔ ہم سب نے اُن کی ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں وہ دہلی میں تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر شعبوں کے وہ کارنامے بیان کر رہے تھے جو ہمارے لئے حیران کر دینے والے تھے جیسے مفت پانی، مفت بجلی اور مفت سفر کی سہولتیں۔ مجھے ان کا وہ آئیڈیا بھی بہت پسند آیا تھا جس میں وہ دہلی میں چوبیس گھنٹے تک جاگنے والے کاروباری مراکز بنانے کی بات کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ان کا دہلی کبھی نہیں سوئے گا، ہمیشہ جاگتا رہے گا۔ مجھے یاد ہے چند برس پہلے میں نے ان کی ایک ویڈیو کو تعریفی کلمات کے ساتھ شئیر کیا تھا۔ اروند کی مقبولیت دہلی سے نکل کے پنجاب تک پہنچی تھی اور ا ن کی پارٹی نے وہاں بھی حکومت بنائی تھی۔ بنیادی طور پر انا ہزارے کا کرپشن کے خلاف نعرہ کام کر گیا تھا جس طرح پاکستان میں عمران خان نے پرانی پارٹیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے مقبولیت حاصل کی تھی مگر کجری وال اور عمران خان میں دو بنیادی فرق رہے، پہلا یہ کہ کجریوال نے اپنی پہلی حکومت میں وہ بہت کچھ کر کے دکھا دیا تھا جس کے وہ دعوے کرتے تھے، نعرے لگاتے تھے مگر عمران خان مکمل طور پر ناکام رہے، دوسرا فرق ا ن کے ردعمل کا ہے جس پر آگے چل کر بات کریں گے۔
اروِند کجریوال کی شکست پر میں نے اپنے بہت سارے سینئر اور معتبر صحافیوں کو بھی حیران دیکھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ یہ شکست بیانئے کے مقابلے میں کارکردگی کی شکست ہے۔ میرا پہلا تاثر بھی یہی تھا جب تک میں نے دلی کے سیاسی تجزیہ کاروں سے نہیں جانا کہ معاملہ کیا ہے۔ کجری وال نے دہلی تک دس برس تک حکمرانی کی اور ان کا پہلا دور ویسا ہی تھا جیسا ہم سب کے ذہنوں میں ’ پرسیپشن‘ ہے مگر وہ اپنے دوسرے دور میں اپنے ہی کام اور معیار کو برقرار نہیں رکھ پائے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق نہ وہ کوئی میگا پراجیکٹ دے پائے اور نہ ہی دہلی کی صفائی ستھرائی برقرار رکھ پائے۔ سڑکیں ٹوٹنے لگیں اور گلیوں میں دھول اڑنے لگی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اروند کجری وال پر شراب کے ٹھیکوں میں رشوت کے الزامات لگ گئے اور اس پر ان کی گرفتاری بھی ہو گئی۔ کجری وال دوسرے دور میں اپنے نظرئیے اور کمٹ منٹ ہی نہیں بلکہ پارٹی پر بھی گرفت کھوتے ہوئے نظر آئے۔ یہ بات نہیں کہ انہوں نے بیانئے کی جنگ نہیں لڑی کیونکہ میں درُوو راٹھی جیسے کامیاب سوشل میڈیا انفلوئنسر کی اس پوری ویڈیو کو دیکھ رہا تھا جو عام آدمی پارٹی کی طرف سے بنوائی گئی تھی۔ پونے تین کروڑ سبسکرائبرز والے درُوو راٹھی، جنہیں عمران ریاض خان کی طرح بڑا انفلوئنسر سمجھا جا سکتا ہے اور جن کی ویڈیوز ہفتوں نہیں بلکہ دنوں میں ملین ویوز لے جاتی ہیں، کی سامنے لائی گئی ویڈیو کوئی تحقیقاتی سٹوری نہیں تھی بلکہ ایک پارٹی کی میڈیا کمپین تھی مگر دوسری طرف ریاستی انتخابات سے پہلے ہی رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات کہہ دی گئی تھی عام آدمی پارٹی ہار جائے گی۔ پانچ فروری کو انتخابات ہوئے اور آٹھ فروری کو نتائج آئے تو بی جے پی دہلی اسمبلی کی ستر نشستوں میں سے دو تہائی لے گئی، عام آدمی پارٹی ، بی جے پی سے آدھی نشستیں بھی نہ لے سکی مگر بڑا سانحہ یہ ہوا کہ کانگریس ان دونوں جماعتو ں کی دھول تک بھی نہ پہنچ سکی اور کلین سویپ ہو گئی مگر یہاں اروند کجری وال نے ایک مرتبہ پھر خو د کو پاکستان کے عمران خان سے مختلف ثابت کیا کہ انہوں نے ویڈیو پیغام میں اپنی پارٹی کی شکست کو نہ صرف کھلے دل سے تسلیم کر لیا بلکہ بی جے پی کو دعوت دی کہ وہ دہلی کی تعمیر و ترقی کے اپنے پروگرام پر عمل کرے،وہ اس کا ساتھ دیں گے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں ریاستی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخابات کا نظام پیچیدہ ہے مگر پاکستان ہی کے مقا بلے میں وہاں انتخابات کے انعقاد کے کئی کئی روز بعد آنے والے نتائج بھی تسلیم کئے جاتے ہیں اور ہمارے چوبیس گھنٹوں بعد آنے والے نتائج پر بھی ٹنٹنہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے ووٹرز کے ٹرینڈز بھی تقریبا ایک جیسے ہی ہیں۔ دونوں ممالک کے ووٹرز بیانئے سے متاثر بھی ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ کارکردگی بھی چاہتے ہیں سو یہ تقسیم چلتی رہتی ہے۔ ہمارے کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اسے دھاندلی قرار دیا کیونکہ ان کے پاس شکست کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے دھاندلی۔ہمارے بہت سارے لوگ سازشی تھیوریوں کے ساتھ بہت زیادہ جاتے ہیں جیسے ایک دو ر میں کہا جاتا تھا کہ جو بھی کروا رہا ہے امریکہ ہے اور اب عمران خان اوران کے ساتھیوں کی آہ و بکا ہے جو کچھ بھی ہو رہا ہے فوج کروا رہی ہے، بہرحال، کجریوال نے انتخابی نتائج تسلیم کر کے دھاندلی والے بیانئے کو خود ہی مسترد کر دیا ہے۔ اگر ہم صورتحال کا منطقی اور عملی جائزہ لیں تو اٹل بہاری واجپائی کی مرکزی حکومت کے قیام کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ مرکزی حکومت دہلی کی تعمیر وترقی کے لئے فنڈز کے اجرا سے لے کر انتظامی نوعیت کے مسائل پیدا کرنے جیسی رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔ اب ووٹروں نے سوچا کہ اس تنازعے کو ہی ختم کرتے ہیں۔ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں تاکہ وہ دہلی میں میگا پراجیکٹس لا سکے۔ ہمارے ہاں یہ سوچ بلدیاتی انتخابات میں پائی جاتی ہے جب یونین کونسلوں میں صوبائی حکومتوں کے امیدوار برملا کہتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو اگر تم نے تھانے کچہری میں کام کروانے ہیں، گلیاں پکی کروانی ہیں یا ٹیوب ویل لگوانے ہیں۔
جو میڈیا اروند کجری وال کو ہیرو بنا رہا تھا وہی اس کو زیرو بھی کر رہا تھا جیسے یہ خبریں کہ انہوں نے اپنے دفتر میں تین برس میں ایک کروڑ روپے چائے پانی پر ہی خرچ کر دئیے۔ یہ اگرچہ پرانی خبر ہے مگر چھ ماہ کی قید نئی خبر تھی۔ خود اروند کجریوال نے یہ چیلنج دیا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عوام کے پاس جائیں گے اور جب وہ انہیں ایماندار مانیں گے تب ہی وہ واپس کرسی پر آئیں گے مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ وہ مظلومیت کارڈ کھیلنے اور بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام ہوگئے حالانکہ ایک وقت یہ بھی آیا تھا کہ انہیں وزیراعظم نریندر مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔ اس آخری ایک برس نے کجری وال کو بہت کچھ نیا سیکھا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ دوبارہ ابھریں گے یا پاکستان کے عمران خان کی طرح نہ صرف اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے بلکہ مزید سنگین غلطیاں کریں گے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عام آدمی پارٹی انہوں نے پارٹی کی کجری وال بی جے پی رہا تھا کی شکست رہے تھے کے ساتھ دہلی کی میں وہ ہے اور وال نے ہے مگر تھا کہ
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ،گرینڈ اپوزیشن الائنس کامعاملہ پھرلٹک گیا
اسلام آباد(طارق محمود سمیر)پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کی اطلاعات اور دعوئوں
کے بعد گرینڈ اپوزیشن الائنس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کی شمولیت کا معاملہ ایک مرتبہ پھر لٹک گیا ہے اور جے یو آئی نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت سے وضاحت مانگ لی ہے ، اب عمران خان نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں یا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنا کرمولانا فضل الرحمان کی سٹریٹ پاور کے ذریعے ، یہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ حالیہ چند ماہ میں محمود خان اچکزئی کے علاوہ اسد قیصر ، بیرسٹر گوہر ، سلمان اکرم راجہ اور دیگر پارٹی رہنما متعدد مرتبہ مولانا فضل الرحمان کے پاس گئے اور انہیں گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شمولیت اور اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی دعوت دی ، مولانا فضل الرحمان نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنے سے انکار کرتے ہوئے پہلے تو سینیٹر کامران مرتضیٰ کا نام لیا لیکن بعد ازاں جے یو آئی نے اس وقت تک عمران خان سے ملاقات کرنے سے گریز کرنے کی حکمت عملی اپنائی جب تک اسد قیصر ان کے تحفظات اور سوالات کا جواب نہیں دے دیتے ، اسد قیصر ان دنوں سیاسی منظر نامے سے وقتی طور پر غائب ہیں ، وہ لندن گئے ہیں اور اپنے اہلخانہ کے ساتھ وہاں موجود ہیں ، کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطوں کے حالیہ دعوے تحریک انصاف کے مختلف رہنمائوں نے کئے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند سے رابطہ ہوا تھا جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی تردید تو کی ہے لیکن ہمیں اس تردید پر یقین نہیں آرہا جب تک اسد قیصر خود وضاحت نہیں دیتے معاملہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے ، پی ٹی آئی کے اندر بھی لڑائیاں ہیں اور وہ کنفیوژن کا شکار ہیں کہ انہوں نے مولانا سے ہاتھ ملانا ہے یا اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرنی ہے ، جب تک وہ ایک معاملے سے ہمیں آگاہ نہیں کرتے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتے ، دیکھا جائے تو کامران مرتضیٰ کی اس بات پر وزن ہے کہ پی ٹی آئی کنفیوعن کا شکار ہے ،ا عظم سواتی اپنے ویڈیو بیان میں دعویٰ کرچکے ہیں کہ انہیں عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی ذمہ داری دی اور وہ دوبارہ رابطے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ان سے ملاقات میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے موقف سے پیچھے ہٹی ہے یا عمران خان اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اس حوالے سے صورتحال واضح نہیں ہوئی ، بعض تجریہ نگار تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اعظم سواتی اپنے قد سے آگے بڑھ کر باتیں کررہے ہیں ، آرمی چیف سے عمران خان کی صلح کرانا اعظم سواتی کے بس کی بات نہیں اور یہ ان سے اوپر کا معاملہ ہے ، فی الحال عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ، 19اپریل کو مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس ہورہا ہے جس میں تحریک انصاف کی قیادت کے رابطوں اور تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی طرف سے گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شمولیت کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد مولانا فضل الرحمان اہم اعلان کریں گے ۔