عمر کے بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد ہم جس مقام پر ہیں اس کو انگریز sixty club کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ان کو بزرگ شہری کہہ دیا جاتا ہے۔ بزرگ کا مفہوم دانشمندی اور حقیقت شناسی کے قریب ہے یہ وہ صفات ہیں جن کے بارے میں مفروضہ قائم ہے کہ یہ عمر کے آخری حصے میں حاصل ہوتی ہیں اس لیے ہر سینئر سٹیزن کو دانشور اور زمانہ شناس سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ کچھ لوگ بوڑھے ہو کر بھی نادان ہی رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ نادان بھی بالآخر بوڑھے ہو جاتے ہیں ہم انہیں بھی بزرگ کہتے ہیں۔ ماہرین سماجیات اور ماہرین نفسیات اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ سینئر لوگوں کو اپنے سے چھوٹی عمر کے لوگوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانی چاہیے۔ جس کے متعدد فوائد بیان کیے جاتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ لوگ جب ایک دوسرے کی صحبت میں بیٹھتے ہیں تو وہاں ایک دوسرے کی بیماریاں ڈسکس ہوتی ہیں جس سے ان کا مورال مزید ڈاو¿ن ہوتا ہے یا پھر پنشن میں گزرا وقات نہ ہونے اور اس طرح کے دوسرے مسائل کا انبار ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اگرآپ اپنے سے کم عمر لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنارکھیں گے تو اس میں زندگی کی بھرپور لطف اندوزی کا ذکر ہوتا ہے جس سے پیرا سالی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔
ریٹائرڈ گروپ کا سب سے سنگین مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے قریبی ساتھی ایک ایک کر کے راہی عدم ہوتے ہیں اور آپ کو تعلقات ٹوٹنے کے کرب سے گزرنا پڑتا ہے اور احساس تنہائی بڑھتا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس اگر آپ کی کمپنی نو عمر لوگوں سے ہے تو آپ اس محرومی سے محفوظ رہیں گے کیونکہ آپ کا حلقہ یاراں آپ کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
اس وسیع پس منظر کے بعد ہم یوسف کا تعارف کروانا چاہتے ہیں یوسف ایک Ravian ہے جو علم طبیعات (Physics) کے حصول کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے آج کل مقابلے کی امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ ہماری طرح لاہور کو اپنا مسکن بنانا اس کی مجبوری ہے۔ یوسف کے ساتھ ہمارا رابطہ غیر ارادی اور اتفاقیہ بات تھی مگر چند رسمی ملاقاتوں کے بعد اب یہ اتفاقیہ نہیں رہی بلکہ ہر ملاقات اگلی ملاقات کی طلب پیدا کر دیتی ہے۔ لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ اس دنیا میں آیا ہی نہیں لیکن یہ بات اب آپ یوسف کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے لاہور کو اندر باہر یا اندرون اور بیرون ہر زاویے سے دیکھا ہے۔ نہ صرف دیکھا ہے بلکہ شہر لاہور کے ”بوہے باریاں“ کا شمار بھی کیا ہے۔
کسی انسان کی قابلیت کو نانپنے کے لیے اس کے امتحان پرچوں کے نمبر کافی نہیں ہوتے۔ یہ نمبر گیم محض ایک انڈیکیٹر ہے اصل تخمینہ نہیں ہے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ طالب علم کی listening cabacity اس کی ذہانت کا ایک اہم پیمانہ ہے جسے ہم ذوق سماعت کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ آپ کی بات صرف اس لیے سنتے ہیں کہ آپ کو جواب دے سکیں لیکن بہت کم لوگ ہیں جو آپ کو اس لیے سنتے ہیں کہ آپ کو سمجھ سکیں۔ یوسف کا ذوق سماعت دوسری قسم کی کٹیگری میں آتا ہے وہ بات کو سنتا ہے اور پھر یاد بھی رکھتا ہے اور اکثر اوقات اس کو حوالہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ اس کی ذہنی توجہ کی تیز رفتاری کی دلیل ہے۔ سماجی تعلقات کے معاملے میں وہ اپنے مقابل کو ناول کی طرح Read کرتا ہے مگر پھر بھی ناکام رہتا ہے۔ یہ شاید اس کا قصور نہیں ہے بلکہ اس کے انسانی ناولوں کی خصوصیت ہے۔ کتابوں اور انسانوں میں فرق ہوتا ہے کتابوں کے الفاظ ثابت رہتے ہیں لیکن انسان ہر لحظہ اپنی ذہنی لوکیشن بدلتے رہتے ہیں اس لیے آپ انہیں کتابوں کی طرح نہیں پڑھ سکتے۔ معاشرہ کوئی لائبریری نہیں ہے البتہ سائنس لیبارٹری ضرور ہے۔
یوسف تجربے کے عمل سے گزر رہا ہے اسے ادراک ہونا چاہیے کہ اخبار میں خالی آسامیوں کے اشتہاروں میں سب سے زیادہ زور تجربے Experience پر دیا جاتا ہے نوکری کے لیے تجربے کے بغیر کوئی Ad مکمل نہیں ہوتی البتہ اس کے والدین نے اس کانام یوسف رکھ کر اسے اس نام کی نسبت سے معتبر کر دیا ہے قصہ¿ یوسف ؑ کا سب سے بڑا سبق ہی یہ ہے کہ خوابوں میں بے شک سورج چاند اور ستارے آپ کو سجدے کریں لیکن عملی دنیا میں اگر کنوئیں میں بھی پھینک دیئے جاو¿ تو دامن صبرو امید کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا اگر استقامت دکھاو¿ گے تو بالآخر کامیابی اور منہ مانگی نوکری ملے گی۔
اپنے اردگرد کے انسانوں کے لیے فائدے کا باعث بننا چاہیے نقصان کا نہیں۔ یوسف کے ہمیں بہت فائدے ہیں۔ وہ اکثر ہمارے لیے اوکاڑہ کے دور دراز اپنے آبائی گاو¿ں سے خالص گھی اور تازہ دودھ لے کر آتا ہے یہ وہ سوغات ہے جس کی لاہور میں دستیابی کاتصور بھی محال ہے۔ یہ اس کی محبت ہے جس کا ہم معاوضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ یہ ہم پر واجب الادا ہے۔ اس ہفتے وہ گاو¿ں سے آیا تو اس کے پاس ہمارے لیے کافی کچھ تھا۔ اس نے امانت کی سپرد داری کے لیے انار کلی بلایا۔ یہ بلاوا ہمارے لیے کسی دعوت سے کم نہیں ہوتا۔ انار کلی اسٹیشن پر اس نے چیزیں میرے حوالے کیں۔ ہم باتیں کر رہے تھے لیکن اسے جلدی تھی اسی دوران اس کی بس آ گئی ہمارے بات بیچ میں ہی رہ گئی گھر پہنچ کر میں نے اسے میسج کیا۔
کملیا! پوری گل تے سندا
بس دا کیہ اے ہور آجاندی
میری بات کا جواب اس نے اگلی ملاقات پر دینا ہے۔ یہ ملاقات اس دفعہ کسی بس اسٹاپ پر نہیں ہو گی کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر اس کی بس آجائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہوتا ہے جاتا ہے نہیں ہو کے بعد اس لیے ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
نواز شریف کی ہدایت کے باوجود حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
مسلم لیگ ن کے نائب صدر حمزہ شہباز تقریباً 82 دن تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ وہ پنجاب کی عوام کے لیے کچھ زیادہ تو نہ کر سکے لیکن وزرات عالیہ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی امور میں زیادہ سرگرم نہیں رہے ہیں یہاں تک کہ اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی ان کی کارکردگی کچھ قابل ذکر نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز گمنامی میں چلے گئے ہیں؟
جب وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت اور وزیراعظم ان کے والد شہباز شریف تھے تو حمزہ شہباز تھوڑا بہت میڈیا سے رابطہ کرتے رہتے تھے لیکن پارٹی معاملات میں ویسے دکھائی نہیں دیے جیسے پہلے پارٹی اجلاسوں میں شرکت کے موقعے پر نظر آتا تھا۔
لیگی ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز شریف کی خاموشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حالات واضح نہیں ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش ہوگئے ہیں۔ وزرات اعلیٰ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی معاملات میں اب مداخلت بہت کم کرتے ہیں۔ پارٹی سیکریٹریٹ آتے ضرور ہیں لیکن دلچسپی نہیں لیتے۔
مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہاز شریف پارٹی کے نائب صدر ہیں اور ان کی پارٹی میں عدم دلچپسی سمجھ سے بالاتر ہے وہ پارٹی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن کوئی تجویز نہیں دیتے ہیں ملتے سب سے ہیں لیکن ان کی دلچسپی نہ لینے سے پارٹی کو نقصان ہورہا ہے۔
مزید پڑھیے: رمضان شوگر ملز ریفرنس: عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بری کردیا
سینیئر رہنما نے بتایا کہ 8 فروری کے الیکشن میں حمزہ شہباز زیادہ ایکٹو دیکھائی نہیں دیے جس کی وجہ سے الیکشن میں پارٹی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے حمزہ شہباز کی ناراضگی ہے؟مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ حمزہ شہباز شریف نے اس بات کا اظہار تو نہیں کیا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہ سامنے آنے دیا ہے کہ وہ وزیر اعلی نہ بنے کی وجہ سے ناراض ہیں لیکن ہو سکتا ہے انہوں نے اپنے والد شہباز شریف سے کچھ اظہار کیا ہو مگر پارٹی کے لوگوں کے سامنے ایسا کچھ نہیں کہا اور کبھی اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔
سینیئر رہنما نے بتایا کہ اب ان کے دل میں کیا بات ہے یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں لیکن انہوں نے پارٹی معاملات میں دلچسپی لینی بند کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے بھی حمزہ شہباز شریف کو ایک 2 مرتبہ دریافت کیا ہے کہ کہیں وہ ناراض تو نہیں ہیں جس پر حمزہ شہباز شریف نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہے۔
مزید پڑھیں: حمزہ شہباز زندگی سے ناامید کب ہوئے تھے؟ وی نیوز سے گفتگو میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے تفصیل بتادی
لیگی رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہباز اس وقت ایکٹیو تھے جب پاکستان میں شریف خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہیں تھا۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے جیل کاٹی لیکن پارٹی کے لیے کام کرتے رہے لیکن اب وہ سیکرٹریٹ تک محدود ہوگئے ہیں اور کوئی ملنے آجائے تو مل لیتے ہیں ویسے کہیں نہیں جاتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
حمزہ شریف ناراض حمزہ شہباز شریف میاں نواز شریف ن لیگ