Nai Baat:
2025-02-12@07:02:24 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

میرے ایک عزیز کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے ایک بھتیجے یورپین سفارتخانے میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ وہ بتاتا ہے، گورا ہر غلطی برداشت کرلیتا ہے، لیکن جھوٹ معاف نہیں کرتا۔ میں اپنے عزیز کی بات سن رہا تھا اور دل ہی دل میں ایک آہ بھر رہا تھا…. میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: یہ تو ہمیں بتایا گیا تھا….

یہ تعلیم تو ہمیں دی گئی تھی، یہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مومن ہر برائی کا مرتکب ہو سکتا ہے، مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ جس ہستی کے ہم نام لیوا ہیں، اس کا لقب ہی صادق اور امین ہے…. اور صادق اور امین کا یہ لقب ان لوگوں نے دیا تھا جو آپ پر ابھی ایمان بھی نہیں لائے تھے…. یعنی قبل از اعلانِ نبوت اہل مکہ آپ کو سچا اور دیانتدار کہتے تھے۔ جس رسول کی یہ شان کہ وہ قبل از اعلانِ نبوت بھی صادق اور امین کہلائیں، ان کے نام لیوا معاشروں میں جھوٹ بولنے کو ایک ایسا جرم ہی نہیں سمجھا جاتا جو قابلِ مواخذہ ہو…. سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارا نصاب کیا ہے اور ہمارا کردار کیا ہے۔ کبھی کبھی ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہم اسلام پر بوجھ ہیں…. اسلام سچے لوگوں کا دین ہے، اسلام ہمیں اپنی جھولی میں ڈال کر پریشان ہے…. جھوٹے لوگ ایک سچے دین کو بدنام کر رہے ہیں۔ ہم جس دین کا کلمہ پڑھتے ہیں، اس کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ غیرلوگوں کے ہاں اسلام کا تعارف ہمارے ہی ذریعہ ہوتا ہے…. اور کیا ہی اچھا تعارف ہم پیش کر رہے ہیں۔
خدانخواستہ ایسی بات نہیں کہ سب جھوٹے ہیں، سوال یہ ہے کہ سب سچے کیوں نہیں؟ اکثریت ہی تعارف ہوا کرتی ہے۔ اچھوں میں برے ار بروں میں اچھے تو ہر قوم اور ہر خاندان میں ہوتے ہیں۔ تعارفی لہجہ اکثریت کا لہجہ ہوتا ہے۔
آخر ہمیں کیا افتاد آن پڑی کہ ہم سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہمارا اختیار ہے۔ مشکل اور آسان دونوں گھاٹیوں کا راستہ ہمیں دکھا دیا گیا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم مشکل گھاٹی کا راستہ اپناتے ہیں، یا آسان گھاٹی میں لڑھکنا پسند کرتے ہیں۔ یہ وعدہ تو موجود ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ، لیکن ہر آسانی کے بعد آسانی ہی میسر آتی رہے گی، اس کی
کوئی ضمانت نہیں۔ کامیابی محنت کرنے والوں کا انتظار کرتی ہے۔ راحت …. ابدی راحت…. جاگنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔ آسان گھاٹی، شارٹ کٹ…. کامیابی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ حتمی اور دیرپا کامیابی سچ بولنے والوں کا نصیبہ ہوتی ہے۔ جب تک جسم اور روح دونوں شادمان نہ ہوجائیں، کامیابی نزدیک نہیں آتی۔ شائد ہم نے دولت ، شہرت اور منصب کو کامیابی سمجھ لیا ہے۔ جب تک انسان اندر تک اطمینان نہ پالے، اسے سکون میسر نہیں آتا…. اور اندر کے اطمینان کے لیے سچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جھوٹ کی قسمت میں سکون نہیں۔ جھوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا…. جھوٹ کے تو پاو¿ں ہی نہیں ہوتے۔
جھوٹ ایک شارٹ کٹ ہے…. اور شارٹ کٹ اپنانے والے اس پ±رلطف راستے کا منظر دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچ کے مسافروں کا منظر ہوا کرتا ہے۔ جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے والے جوڑ توڑ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں …. اور جوڑ توڑ کے ذریعے راستہ لینے والا کامیابی کی ٹرافی میں کئی حصے دار پیدا کر لیتا ہے۔ کامیابی کے پوڈیم پر ایک وقت میں ہی ایک شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔
ہمیں ایک پرسکون معاشرہ قائم کرنے کا نصاب دیا گیا تھا۔ پرسکون معاشرہ وہی ہے جہاں انصاف گھر کی دہلیز پر میسر آ جائے، جہاں طاقتور قانونی اور اخلاقی طاقت کے آگے سر جھکا دے …. جہاں کمزور اگر حق پر ہو تو وہ طاقتور نظر آئے اور طاقتور اگر ناحق پر کھڑا ہو تو وہ کمزور دکھائی دے۔ ایک دوسرے کے لیے بے ضرر ہونا معاشرے کو پرسکون کرتا ہے۔ مسلمان ہونے کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ نہیں۔ ایمان دار ہونے کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ وہ شخص ایمان دار نہیں جو امانت دار نہیں۔ دین دار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین دینے والوں نے دین دار ہونے کی شرط یہ بتائی کہ وہ شخص دین دارہی نہیں جس میں ایفائے عہد نہیں۔ گویا امانت میں خیانت کرنے والا اور وعدہ توڑنے والا اپنے دین اور ایمان کا جائزہ لے کہ وہ کس منہ سے خود دین دار اور صاحبِ ایمان کہہ رہا ہے۔ مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ دیکھے کہ مومن کی بارے میں واضح فرمایا گیا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوتا۔ اسلام، ایمان اور دین ایک فلسفہ محض نہیں، یہ کسی عمل کی تعلیم اور دعوت بھی ہے…. اسلام اور ایمان ایک حلف ہے، اور یہ حلف اٹھانے والے کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔
کتبِ احادیث میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص اسلام لانے کی غرض سے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ میں بہت برائیاں ہیں، اتنی برائیاں ہیں کہ میں سب کو دور نہیں کر سکتا۔ بس آپ کے کہنے پر صرف کوئی ایک برائی ترک سکتا ہوں۔ رسولِ کریم نے فرمایا: جھوٹ ترک کردو۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ خوش نصیب ہے وہ جو وعدہ کرنے کے بعد وعدہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ اس شخص سے ساری برائیاں ہی چھوٹ چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سی برائیاں ہیں، اتنی برائیاں کہ ہم شائد یک قلم نہ چھوڑ سکیں۔ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو ہماری زندگیوں میں ، ہماری کمایﺅں میں، ہمارے تعلقات میں اور ہمارے وقت میں برکت ہونے لگے گی۔ جب برکت آتی ہے تو انسان تعداد اور مقدار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سو قسم کے تعلق وہ قوت نہیں دیتے جو ایک سچا تعلق قوت عطا کر دیتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں زندگی میں وہ سہولت پیدا نہیں کرتے جو چند ہزار بڑی آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ زندگی میں برکت آ جائے تو انسان گوشہ نشینی میں کسی شہرت یافتہ ہیرو کی طرح لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
اے کاش! ہماری قوم سچ کی طاقت جان لے اور جھوٹ کی بے برکتی سے آگاہ ہو جائے۔ سچ کہنا ہمارا قومی فریضہ بھی اور دینی فریضہ بھی۔ ہم آج ہی خود سے یہ وعدہ کر لیں کہ سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے…. اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں کہیں گے۔ یہ جملہ صرف عدل کے ایوانوں ہی میں نہیں،بلکہ بھرے بازاروں، دفتروں، گھروں اور سیاست کے میدانوں میں بھی یہی نعرہ گونجنا ہونا چاہیے۔ سچ کی طاقت لازوال ہے ، جھوٹ کی کامیابی عارضی ہے…. اور ہم تو ہیں ہی دائمی زندگی کے طلب گار!…. ہمیں جھوٹ سے کیا کام! جھوٹ ہماری زندگی بھی برباد کر رہا ہے اور عاقبت بھی!! ہمیں جھوٹ سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ وقنی فائدے کی خاطر ہمیشہ کا نقصان مول نہ لیں….گھاٹے کی تجارت نہ کریں!

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: برائیاں ہی کا راستہ

پڑھیں:

اردن کے بادشاہ کی ٹرمپ سے ملاقات

اردن کے بادشاہ شاہ عبداللٰہ دوم نے وائٹ ہاؤس میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔

اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم غزہ کو خریدنے نہیں جا رہے، غزہ کو امریکی انتظامیہ کے ماتحت لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے مغربی کنارے کا الحاق بھی ہوگا، اردن، مصر میں زمین کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں فلسطینی حفاظت سے رہ سکتے ہیں، نناوے فیصد امید ہے مصر کے ساتھ مل کر حل نکال لیں گے۔

اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، ٹرمپ کی حمایت ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وہ کرنا ہے جو ہمارے اور سب کے مفاد میں ہو، ہمیں ابھی مصر کی طرف سے آنے والے منصوبے کا انتظار کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • اردن کے بادشاہ کی ٹرمپ سے ملاقات
  • ہمیں اپنی ٹیم پر اعتماد، ایک آدھ میچ کی ہار پر ناراض نہیں ہونا چاہیے، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی
  • ہمیں کسی پر کوئی چیز زبردستی نافذ نہیں ہونی چاہیے، وزیرقانون
  • ’ہمیں میڈیا نہیں ہمارے فینز بناتے ہیں‘،فیروز خان کی حمایت میں حمائمہ ملک سامنے آگئیں
  • جوابی خط
  • دشمن ہمیں نہ تقسیم کر سکتا ہے نہ جھکا سکتا ہے، ایرانی صدر
  • ایٹمی ہتھیاروں کی ممانعت کے فتوی سے ہمیں خطرہ ہے، ایرانی رہنما
  • ہم مشرق وسطیٰ میں تمسخر بن چکے ہیں، ایتمار بن گویر
  • اللہ کی ناراضگی