Nai Baat:
2025-04-15@09:36:39 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

میرے ایک عزیز کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے ایک بھتیجے یورپین سفارتخانے میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ وہ بتاتا ہے، گورا ہر غلطی برداشت کرلیتا ہے، لیکن جھوٹ معاف نہیں کرتا۔ میں اپنے عزیز کی بات سن رہا تھا اور دل ہی دل میں ایک آہ بھر رہا تھا…. میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: یہ تو ہمیں بتایا گیا تھا….

یہ تعلیم تو ہمیں دی گئی تھی، یہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مومن ہر برائی کا مرتکب ہو سکتا ہے، مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ جس ہستی کے ہم نام لیوا ہیں، اس کا لقب ہی صادق اور امین ہے…. اور صادق اور امین کا یہ لقب ان لوگوں نے دیا تھا جو آپ پر ابھی ایمان بھی نہیں لائے تھے…. یعنی قبل از اعلانِ نبوت اہل مکہ آپ کو سچا اور دیانتدار کہتے تھے۔ جس رسول کی یہ شان کہ وہ قبل از اعلانِ نبوت بھی صادق اور امین کہلائیں، ان کے نام لیوا معاشروں میں جھوٹ بولنے کو ایک ایسا جرم ہی نہیں سمجھا جاتا جو قابلِ مواخذہ ہو…. سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارا نصاب کیا ہے اور ہمارا کردار کیا ہے۔ کبھی کبھی ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہم اسلام پر بوجھ ہیں…. اسلام سچے لوگوں کا دین ہے، اسلام ہمیں اپنی جھولی میں ڈال کر پریشان ہے…. جھوٹے لوگ ایک سچے دین کو بدنام کر رہے ہیں۔ ہم جس دین کا کلمہ پڑھتے ہیں، اس کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ غیرلوگوں کے ہاں اسلام کا تعارف ہمارے ہی ذریعہ ہوتا ہے…. اور کیا ہی اچھا تعارف ہم پیش کر رہے ہیں۔
خدانخواستہ ایسی بات نہیں کہ سب جھوٹے ہیں، سوال یہ ہے کہ سب سچے کیوں نہیں؟ اکثریت ہی تعارف ہوا کرتی ہے۔ اچھوں میں برے ار بروں میں اچھے تو ہر قوم اور ہر خاندان میں ہوتے ہیں۔ تعارفی لہجہ اکثریت کا لہجہ ہوتا ہے۔
آخر ہمیں کیا افتاد آن پڑی کہ ہم سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہمارا اختیار ہے۔ مشکل اور آسان دونوں گھاٹیوں کا راستہ ہمیں دکھا دیا گیا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم مشکل گھاٹی کا راستہ اپناتے ہیں، یا آسان گھاٹی میں لڑھکنا پسند کرتے ہیں۔ یہ وعدہ تو موجود ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ، لیکن ہر آسانی کے بعد آسانی ہی میسر آتی رہے گی، اس کی
کوئی ضمانت نہیں۔ کامیابی محنت کرنے والوں کا انتظار کرتی ہے۔ راحت …. ابدی راحت…. جاگنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔ آسان گھاٹی، شارٹ کٹ…. کامیابی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ حتمی اور دیرپا کامیابی سچ بولنے والوں کا نصیبہ ہوتی ہے۔ جب تک جسم اور روح دونوں شادمان نہ ہوجائیں، کامیابی نزدیک نہیں آتی۔ شائد ہم نے دولت ، شہرت اور منصب کو کامیابی سمجھ لیا ہے۔ جب تک انسان اندر تک اطمینان نہ پالے، اسے سکون میسر نہیں آتا…. اور اندر کے اطمینان کے لیے سچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جھوٹ کی قسمت میں سکون نہیں۔ جھوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا…. جھوٹ کے تو پاو¿ں ہی نہیں ہوتے۔
جھوٹ ایک شارٹ کٹ ہے…. اور شارٹ کٹ اپنانے والے اس پ±رلطف راستے کا منظر دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچ کے مسافروں کا منظر ہوا کرتا ہے۔ جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے والے جوڑ توڑ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں …. اور جوڑ توڑ کے ذریعے راستہ لینے والا کامیابی کی ٹرافی میں کئی حصے دار پیدا کر لیتا ہے۔ کامیابی کے پوڈیم پر ایک وقت میں ہی ایک شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔
ہمیں ایک پرسکون معاشرہ قائم کرنے کا نصاب دیا گیا تھا۔ پرسکون معاشرہ وہی ہے جہاں انصاف گھر کی دہلیز پر میسر آ جائے، جہاں طاقتور قانونی اور اخلاقی طاقت کے آگے سر جھکا دے …. جہاں کمزور اگر حق پر ہو تو وہ طاقتور نظر آئے اور طاقتور اگر ناحق پر کھڑا ہو تو وہ کمزور دکھائی دے۔ ایک دوسرے کے لیے بے ضرر ہونا معاشرے کو پرسکون کرتا ہے۔ مسلمان ہونے کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ نہیں۔ ایمان دار ہونے کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ وہ شخص ایمان دار نہیں جو امانت دار نہیں۔ دین دار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین دینے والوں نے دین دار ہونے کی شرط یہ بتائی کہ وہ شخص دین دارہی نہیں جس میں ایفائے عہد نہیں۔ گویا امانت میں خیانت کرنے والا اور وعدہ توڑنے والا اپنے دین اور ایمان کا جائزہ لے کہ وہ کس منہ سے خود دین دار اور صاحبِ ایمان کہہ رہا ہے۔ مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ دیکھے کہ مومن کی بارے میں واضح فرمایا گیا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوتا۔ اسلام، ایمان اور دین ایک فلسفہ محض نہیں، یہ کسی عمل کی تعلیم اور دعوت بھی ہے…. اسلام اور ایمان ایک حلف ہے، اور یہ حلف اٹھانے والے کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔
کتبِ احادیث میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص اسلام لانے کی غرض سے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ میں بہت برائیاں ہیں، اتنی برائیاں ہیں کہ میں سب کو دور نہیں کر سکتا۔ بس آپ کے کہنے پر صرف کوئی ایک برائی ترک سکتا ہوں۔ رسولِ کریم نے فرمایا: جھوٹ ترک کردو۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ خوش نصیب ہے وہ جو وعدہ کرنے کے بعد وعدہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ اس شخص سے ساری برائیاں ہی چھوٹ چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سی برائیاں ہیں، اتنی برائیاں کہ ہم شائد یک قلم نہ چھوڑ سکیں۔ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو ہماری زندگیوں میں ، ہماری کمایﺅں میں، ہمارے تعلقات میں اور ہمارے وقت میں برکت ہونے لگے گی۔ جب برکت آتی ہے تو انسان تعداد اور مقدار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سو قسم کے تعلق وہ قوت نہیں دیتے جو ایک سچا تعلق قوت عطا کر دیتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں زندگی میں وہ سہولت پیدا نہیں کرتے جو چند ہزار بڑی آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ زندگی میں برکت آ جائے تو انسان گوشہ نشینی میں کسی شہرت یافتہ ہیرو کی طرح لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
اے کاش! ہماری قوم سچ کی طاقت جان لے اور جھوٹ کی بے برکتی سے آگاہ ہو جائے۔ سچ کہنا ہمارا قومی فریضہ بھی اور دینی فریضہ بھی۔ ہم آج ہی خود سے یہ وعدہ کر لیں کہ سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے…. اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں کہیں گے۔ یہ جملہ صرف عدل کے ایوانوں ہی میں نہیں،بلکہ بھرے بازاروں، دفتروں، گھروں اور سیاست کے میدانوں میں بھی یہی نعرہ گونجنا ہونا چاہیے۔ سچ کی طاقت لازوال ہے ، جھوٹ کی کامیابی عارضی ہے…. اور ہم تو ہیں ہی دائمی زندگی کے طلب گار!…. ہمیں جھوٹ سے کیا کام! جھوٹ ہماری زندگی بھی برباد کر رہا ہے اور عاقبت بھی!! ہمیں جھوٹ سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ وقنی فائدے کی خاطر ہمیشہ کا نقصان مول نہ لیں….گھاٹے کی تجارت نہ کریں!

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: برائیاں ہی کا راستہ

پڑھیں:

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی

ستر سالہ حمید اعظم ساری عمر مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے۔ بڑھاپا آیا تو وہ بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ علاج کراتے ہوئے ان کی بیشتر آمدن خرچ ہونے لگی۔ عوارض رفتہ رفتہ اتنے بڑھے کہ وہ ملازمت کرنے سے معذور ہو گئے۔

اب وہ اولاد کے رحم وکرم پر آ گئے ۔ ان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ نوجوانی میں انھوں نے بالکل نہیں سوچا، بڑھاپے کے لیے مناسب رقم پس انداز کر لی جائے۔ اگر وہ اس وقت ریٹائرمنٹ کا کوئی عمدہ منصوبہ بنا لیتے تو انھیں بڑھاپے میں دوسروں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اسی محتاجی کے باعث بھی اولاد اپنے والدین کو ایدھی سینٹر یا دیگر رفاہی اداروں میں چھوڑ جاتی ہے کہ وہ ان کا خرچ نہیں اٹھا پاتی۔

یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں اکثر مردوزن نوجوانی یا جوانی میں ایسا کوئی مناسب منصوبہ نہیں بناتے جس کی مدد سے وہ اپنی ریٹائرمنٹ یا بڑھاپے کا عموماً تکلیف دہ اور کٹھن عرصہ کم از کم مالی دشواریوں کے بغیر گزار سکیں۔ جو عاقل اور پیش بیں حضرات ایسا منصوبہ بنا لیں تو ان کا بڑھاپا خوشگواری سے بسر ہوتا ہے کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔ اولاد اگر فرماں بردار نہ بھی ہو تو وہ انھیں اپنے ساتھ رکھ لیتی ہے کہ اسے بوڑھے والدین پر کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ اسے توقع ہوتی ہے کہ والدین کی وراثت سے انھیں کچھ دولت مل سکے گی۔

سرکاری ملازمین کو تو پھر پنشن مل جاتی ہے، نجی ملازمت کرنے والوں کو خاص طور پہ بروقت ریٹائرمنٹ کا کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور اپنانا چاہیے۔ اب تو حکومت پاکستان پنشن کے بڑھتے خرچ کی وجہ سے اس نظام میں بھی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ لہذا اس وقت جتنے بھی نوجوان اور جوان پاکستانی کام کر رہے ہیں، انھیں اپنے بڑھاپے کے حالات مدنظر رکھ کر لازماً ریٹائرمنٹ کا عمدہ پلان تشکیل دینا چاہیے تاکہ بعد ازاں انھیں پچھتانا نہ پڑے۔ یہ پلان بچت کے ساتھ ساتھ کسی اچھی انشورنس کمپنی اور اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی شعوری اور زندگی بھر کا عمل ہے جس کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ آرام دہ اور آزاد ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے کافی فنڈز بنانے کی خاطر وقت درکار ہے۔ ہم سب خوشگوار اور پُر سکون ریٹائرڈ زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لہٰذا اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

 زیادہ تر کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے پاس ریٹائرمنٹ پلان کی کوئی شکل ہوتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھیے ، حقیقی زندگی میں ریٹائرمنٹ اس سے مختلف ہو سکتی ہے جس کا ہم میں سے اکثر نے تصور کیا تھا۔ زیادہ تر ریٹائر ہونے والوں کو تلخ حقیقت کا سامنا ناقص مالیاتی انتظام اور سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں ریٹائرمنٹ کے بہت سارے منصوبے دستیاب ہیں، لیکن کسی ایک پر انحصار کرنا اچھی حکمت عملی نہیں ۔

 تین اہم عناصر

 پُرسکون ریٹائرڈ زندگی تین اہم عناصر پر منحصر ہے: ریٹائر ہونے والے کی سماجی زندگی، مالی حالت اور عمر۔ مضبوط مالی پوزیشن اور اچھے سماجی حلقے کے ساتھ جلد ریٹائر ہونا ایک مثالی امر ہے۔ہم اس کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

 مالی استحکام

مستحکم پوزیشن میں ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنانے کے لیے مضبوط مالیاتی ریٹائرمنٹ پلان کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہت سے مناسب ریٹائرمنٹ انشورنس پلان دستیاب ہیں جو آسانی سے ریٹائر ہونے میں مدد کرنے کے لیے بنے ہیں۔ تاہم اپنے منصوبے کو سمجھداری سے منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں،پاکستان میں بہترین ریٹائرمنٹ انشورنس پلان بھی اس وقت آپ کی تمام مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا جب آپ ریٹائر ہوں گے۔

دراصل افراط زر یا مہنگائی کا عنصر ایک ایسی چیز ہے جسے جامع ترین ریٹائرمنٹ یا سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی مالیاتی مشیر کی مدد سے مرضی کے مطابق بنائے منصوبے کے ذریعے کیجیے۔ بنیادی اصول کے طور پر جامع منصوبے میں حصص اور دیگر اثاثوں میں کچھ سرمایہ کاری شامل ہونی چاہیے۔ اسٹاک کے تناسب میں کچھ ڈیویڈنڈ اسٹاک اور دوسرے گروتھ اسٹاک ہونے چاہئیں۔

سماجی زندگی

سماجی زندگی پہ مکمل قابو پانا مشکل ہے لیکن اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو 9 سے 5 کے معمول سے آزاد ہونے اور مصروف وقت گزارنے کے بعد سماجی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صدقہ یا سماجی کام کرنا ان کی مدد کرتا ہے۔ سماجی اور خیراتی کوششیں مصروفیت بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ یتیم خانوں میں رضاکارانہ کام کرنا یا غریب بچوں کو مفت جز وقتی ٹیوشن پڑھانا ایک اچھا خیال ہے۔ اس طرح کی کوششوں میں وقت لگانے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل عمدہ سماجی زندگی میّسر آتی ہے۔

 ریٹائرمنٹ کی عمر

 یہ اوسط عمر 60 سال ہے لیکن یہ ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض مردو زن تو چالیس پچاس برس کی عمر میں ریٹائرہو جاتے ہیں۔ مگر انھیں کافی سرمایہ بچانا ہوتا ہے تاکہ آباد و خوش ریٹائرڈ زندگی گزار سکیں۔اگر آپ مصروف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آپ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا سکتے ہیں تاکہ زیادہ دیر تک کام کا لطف اٹھائیں۔ اپنے کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل طرز زندگی کا ہونا ایک اچھا اختیار ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ذہن میں رکھیے کہ مالی طور پر مستحکم ریٹائر ہونے والوں کی اکثریت ضروری نہیں کہ امیر ہو اور ان میں سے سبھی زیادہ تنخواہ والی ملازمتوں میں بھی نہیں ہوتے۔ تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو مالیات کا اچھا انتظام کرنا جانتے ہیں اور خوشی سے ریٹائر ہونے کے لیے جامع منصوبہ بناتے ہیں۔

ریٹائرڈ زندگی کی تیاری کیسے کریں

ہیلتھ انشورنس ریٹائر ہونے والوں کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی عمر میں یہ غیر ضروری ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اور صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، مناسب ہیلتھ انشورنس کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔ لہذا مناسب ہیلتھ انشورنس کرانا ضروری ہے۔یوں ریٹائر ہونے والے ہر وقت صحت سے متعلق ہنگامی اخراجات کے لیے تیار رہتے ہیں۔

دوم یقینی بنائیے کہ قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔یہ عمل آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ سود دینے کی ذمے داریوں کے ساتھ زندگی گزارنا خاص طور پر باقاعدہ آمدنی کے بغیر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی ریٹائرمنٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض ادا کرنے پر خرچ کرنا پڑے تو ریٹائرمنٹ میں کم لطف آئے گا۔ اس لیے مشورہ ہے کہ قرض پر مبنی ذمے داریوں کو ختم کریں اور پھر ریٹائر ہو جائیں۔

 وقت کیسے گزارنا ہے ؟

ریٹائرمنٹ کے دوران ایک شخص جتنا زیادہ مصروف رہتا ہے،اسے اتنی ہی کم چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے، اس بارے میں منصوبہ بنائیں اور ہفتہ وار یا ماہانہ سرگرمیوں کا شیڈول بنائیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کا وقت تعمیری طور پر گزارنے کے لیے کاموں کی فہرست بنائیں۔

آپ کی ریٹائرمنٹ کی جتنی اچھی منصوبہ بندی ہو گی، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے لیے بہترین سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے ،اس بارے میں منصوبہ بندی کریں اور ایک مضبوط سماجی حلقہ تیار کریں تاکہ آپ کو بھرپور و خوشگوار ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے احباب کا ساتھ مل سکے۔

ریٹائرمنٹ پلان کیسے بنایا جائے؟

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی میں ریٹائرمنٹ کے لیے اہداف طے کرنا اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے درکار اقدامات اور فیصلوں کا اندازہ لگانا شامل ہے۔ اقدامات میں آمدنی کے ذرائع دریافت کرنا، اخراجات کی پیشن گوئی ، بچت اور اثاثہ جات کا انتظام شامل ہیں۔

پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے جو اپنی ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ریٹائرمنٹ زندگی کا ایک ناخوشگوار مرحلہ بن جاتا ہے۔محدود آمدنی، زندگی کے بنیادی اخراجات کا انتظام کرنے میں دشواری، بچوں پر انحصار، متعلقہ اخراجات کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مسائل، مشکلات کے ساتھ جینا اور بے لطف و بے رس زندگی اس مرحلے کے نمایاں اثرات ہیں۔

ریٹائر ہونے والے ایسے افراد جن کے پاس مناسب آمدنی کا انتظام نہ ہو، خاندان کے افراد کے تعاون سے زندگی گزارنا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ذلت آمیز بھی ہو سکتا ہے۔جیسا کہ بتایا، پاکستان میں زیادہ تر پرائیویٹ ملازمین کسی ریٹائرمنٹ پلان کا حصہ نہیں ہوتے۔ انھیں اپنے بڑھاپے کی کفالت کے لیے اگلی نسل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔گو وہ جائیداد سے کرائے کی آمدن اور بینک ڈپازٹس کے منافع پر انحصار کر سکتے ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ

نجی ملازمتیں کرنے والوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ بیشتر زندگی بھر مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس لیے ایک کمپنی میں ملازمت کرنے سے انھیں ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو مالی مدد ملتی ہے، وہ ان کو نہیں مل پاتی۔ جو مردوزن ایک کمپنی میں تاعمر یا طویل عرصہ ملازمت کرتے ہیں ، وہ گریجوٹی یا پراویڈنٹ فنڈ کے حقدار پاتے ہیں۔ گریجوٹی کی ساری رقم کمپنی ادا کرتی ہے۔ جبکہ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم بھی اپنا مالی حصہ ڈالتا ہے۔ رضاکارانہ پنشن اسکیم بھی پراویڈنٹ فنڈ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان دونوں منصوبوں میں رقم عموماً سرمایہ کاری میں لگائی جاتی ہے تاکہ منافع حاصل ہو سکے۔

قانون کے مطابق جس کمپنی میں بیس ملازمین کام کرتے ہیں، اس میں ملازم چھ ماہ کام کرنے کے بعد گریجوٹی پانے کا حق دار بن جاتا ہے۔ اگر کوئی صنعتی ادارہ ہے تو اس میں کم ازکم پچاس ملازمین ہونے چاہئیں ۔ نیز گریجوٹی پانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہا ہو۔نیز عام طور پر مینجیریل اور ایڈمنسٹریٹیو شعبوں میں کام کرتے ملازمین کو گریجوٹی نہیں دی جاتی۔

پاکستان کے جن نجی اداروں میں کم از کم دس ملازمین کام کرتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک سرکاری ادارے ،ای اوبی آئی (Employees' Old-Age Benefits Institution)سے رجسٹرڈ ہوں۔ یہ نجی ملازمین کو پنشن دینے والا سرکاری ادارہ ہے، گو اس کی پنشن کافی کم ہوتی ہے۔ تاہم بالکل نہ ہونے سے کچھ پنشن بھی بڑھاپے میں کام آ جاتی ہے۔ جو ملازمین پندرہ سال تک ادارے سے رجسٹر رہ کر کام کریں، وہ پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کیسے کی جائے؟

نوٹ کرنے کے لئے کچھ اہم نکات یہ ہیں:

٭ آمدنی اور اخراجات کا تجزیہ کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ اپنی کمائی سے زیادہ بچا سکتے ہیں۔

٭ ایک بجٹ بنائیں جس میں بچت کا مخصوص فیصد شامل ہو اور اس پر عمل کریں۔

٭ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہنگامی حالات کے لیے اپنے ریٹائرمنٹ سیونگ اکاؤنٹ سے رقم نہ نکالیں۔

٭ اگر آپ کے آجر کے پاس رضاکارانہ پنشن سکیم ہے تو اس میں حصہ لیں۔

٭ سرمایہ کاری کے مشیروں سے مشورہ کریں تاکہ اپنی ضروریات کے لیے موزوں سرمایہ کاری کی مصنوعات منتخب کرسکیں۔ موجودہ عمر اور ریٹائرمنٹ کی متوقع عمر موثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کی مدت جتنی لمبی ہوگی، آپ اپنے پورٹ فولیو میں خطرے کی سطح کو اتنا ہی زیادہ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسٹاک میں سرمایہ کاری کرکے آپ کمپنی کے جزوی مالک بن جاتے اور کمائی کے ساتھ ساتھ نقصانات میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ طویل وقت آپ کو اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ برداشت کرنے اور اپنے پورٹ فولیو کو متوازن کرنے کی اجازت دے گا۔

 ریٹائرمنٹ فنڈ بنانا

آپ ریٹائرمنٹ کے بعد والے اخراجات کے بارے میں اپنی توقعات حقیقت پسندانہ رکھیں جب آمدنی میں کمی آئے گی اور طویل مدتی اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعدان کا سالانہ خرچ کم ہو جائے گا . ایسا مفروضہ اکثر غیر حقیقی ہوتا ہے، خاص طور پر اگر طبی اخراجات مفروضوں میں شامل نہ ہوں۔ہمیشہ ایک قابل اعتماد مالیاتی مشیر سے مالی مشورہ حاصل کریں۔ مالیاتی پیشہ ور مناسب بچت کا منصوبہ تیار کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔نیز باقاعدگی سے بچت کی عادت ڈالیں اور ہر سال جتنی رقم بچاتے ہیں ،اُسے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ اضافہ ترجیحاً مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا چاہیے۔

نظریہ بامقابلہ حقیقت

یہ واضح رہے ، نظریاتی طور پر ہر کمپنی کے کارکنان گریجوٹی یا اس کے بدلے متبادل وصول کرنے کے حقدار ہیں، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔بعض صورتوں میں کمپنی مالی سال کے اختتام پر کنٹریکٹ پر رکھے ملازمین کی ملازمت ختم کر دیتی ہے۔ وہ پھر اگلے مالی سال کے آغاز پر انھیں دوبارہ تعینات کرتی ہے۔ چونکہ گریجوٹی کمپنی میں کام کرنے والے برسوں کی تعداد کا تعین ہے، اس لیے سال کے آخر میں ملازمت ختم اور دوبارہ تعینات کرنے کا مطلب ہے کہ ملازمین کو گریجوٹی کے طور پر ملی کُل رقم اس سے کافی کم ہو گی جو انہیں مستقل ملازمت کی صورت موصول ہوتی۔

 بعض صورتوں میں آجر کوئی گریجوٹی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ جب وہ قانونی طور پر ایسا کرنے کے پابند ہوں۔اس کے برعکس بڑی کمپنیوں میں صورت حال بہتر ہے۔ کچھ کمپنیاں اپنے ان ملازمین کو بھی گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور بہت سے دوسرے الاؤنس پیش کرتی ہیں جو قانونی طور پر گریجویٹی وصول کرنے کے حقدار نہیں ہوتے۔

حرف آخر

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میںسے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جائے تو وہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے کہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے بوجھ سمجھتا ہے ۔قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا۔

ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار، بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔ اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن، مایوسی، مختلف طرح کی کشمکش، نفسیاتی الجھن، چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں فالتو سامان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو تے ہیں۔ یہی وجہ ہے ، ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔

قران حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔(الروم:32)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔‘‘(النبا:11)

ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی نیکی ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا معاشی شغل اپناتے تھے۔حضرت داؤدؑ زرہ بنانے کاکام کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپﷺ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا۔گھر کے کام خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں بذاتِ خود 35 سال کی عمر میں حصہ لیا ۔خندق کی کھدائی میں بھی صحابہ کرام کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح صحابہ کرام محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔

ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصّور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔بسااوقات ہمارے قائدین اور راہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے اور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔  

متعلقہ مضامین

  • ہمیں کم ‘ سندھ کو زیادہ پانی دینے سے بے چینی بڑھ رہی ِ پنجاب کا ارساکو خط
  • حقوق کے حصول کی تحریک میں آخر تک کھڑے رہینگے، علامہ علی حسنین
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • آصف زرداری اور بلاول بھٹو کہہ چکے کہ کینالز نہیں بننے دیں گے، فریال تالپور
  •  ہمیں اسرائیل، امریکہ، اور یورپی یونین کی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا، ڈاکٹر فضل حبیب 
  • حماس ہسپتالوں کو کمانڈ سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کرتی، اسرائیلی جھوٹ بولتے ہیں، یورپی ڈاکٹر
  • منسک میں ہیوی مشینری، گاڑیاں بنانے والی فیکٹری کا دورہ، ہمیں اعلیٰ کوالٹی مصنوعات درکار: وزیراعظم
  • وقت گزر جاتا ہے
  • ایک رنگ جو ہمیں دکھتا تو ہے، لیکن حقیقت میں موجود نہیں
  • منسک، شہباز شریف کا ہیوی مشینری اور گاڑیاں تیار کرنیوالی فیکٹری بیلاز کا دورہ